ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
چیف آف ڈیفنس فورس کا عہدہ جنگ کے نئے تقاضو ں کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ دنیا میں جنگ کے تقاضے بدل گئے ہیں۔ جنگ کے نئے روپ آگئے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی جنگی صلاحیت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے چیف آف ڈیفنس فورس کا عہدہ ضروری تھا۔ اس سے پہلے دنیا کے کئی ممالک اپنی فوجی کمان میں ایسی تبدیلیاں کر چکے ہیں۔
پاکستان کوئی نیا ملک نہیں ہے۔ پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ چیف آف ڈیفنس فورس کے عہدہ سے ائیر چیف اور نیول چیف کے عہدوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ دراصل ائیر فورس اور نیوی کے تمام انتظامی معاملات ائیر چیف اور نیوی چیف کے پاس ہی ہونگے، تقرر تبادلے، اور دیگر فیصلے ان کے اپنے اپنے چیف ہی کریں گے۔ چیف آف ڈیفنس فورس جنگ کے زمانے میں تینوں فورسز کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ تب اس کی اہمیت زیادہ ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اب تو میزائیل اور سائبر فورس جیسے نئے شعبے آگئے ہیں۔ ان کی کمان بھی ہوگی۔
ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی کے واقعات زیادہ ہیں۔ اس ضمن میں ایک تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر ہم نیشنل ایکشن پلان اور دیگر شعبوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اقدامات کو دیکھیں تو بلوچستان حکومت کی کاوشیں کے پی حکومت سے کہیں زیادہ بہتر اور زیادہ ہیں۔ بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان کے کئی نکات پر کے پی سے بہتر عمل ہو رہا ہے۔
وہاں ایپکس کمیٹیوں کے اجلاس کے پی سے زیادہ ہیں اور اضلاع تک ڈسٹرکٹ اپیکس کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔ اسی لیے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی بھی ہوئی ہے۔ وہاں حالات کے پی کی نسبت بہتر بھی ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سول حکومت کے تعاون کے بغیر دہشت گردی کی جنگ کو کسی طرح جیتا نہیں جا سکتا۔ بلوچستان کی حکومت دہشت گردوں سے بات چیت کی بات نہیں کرتی۔ اور ان کے خلاف بیانیہ میں ریاست کے ساتھ کھڑی ہے۔
ڈی جی آئی یس پی آر نے بتایا کہ ایک وقت تھا کہ بلوچستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ روزانہ چھ ملین لٹر سے زیادہ تھی۔ لیکن بلوچستان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے سے اب یہ اسمگلنگ دو ملین لٹر تک کم ہو گئی ہے۔ چار ملین لٹر روزانہ کی اسمگلنگ بند کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کو جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ آپ کوئٹہ میں ایرانی تیل کی قیمت چیک کر لیں۔ اگر کم ہوگی تواسمگلنگ زیادہ ہے۔ اگر قیمت زیادہ ہو جائے تو سمجھیں اسمگلنگ بند ہے۔ یہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا کھیل ہے۔
آج کل کوئٹہ میں ایرانی تیل کی قیمت عام پٹرول کے برابر ہو چکی ہے جو اسمگلنگ کے خلاف ہمارے اقدامات کا ثبوت ہے۔ اس سوال پر کہ مکمل ختم کیوں نہیں کی جا سکتی۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان رقبہ میں پاکستان کا 44فیصد ہے، ایک وسیع علاقہ ہے۔ پاکستان میں پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں نیٹ ورک نہیں بنائے ہوئے، وہاں پٹرول اور ڈیزل کے بغیر زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ دو ملین لٹر ان علاقوں کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ کی اسمگلنگ دوسرے علاقوں کے لیے ہوتی ہے، اس کو روکا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے مقابلے میں کے پی حکومت اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے تعاون نہیں کر رہی۔ سب سے بڑا مسئلہ منشیات کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ منشیات دہشت گردی کو فنڈز سپلائی کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس سے پہلے بھی بتایا گیا کہ تیرہ میں ہزاروں ایکڑ پر منشیات کاشت ہوئی ہے، تیرہ میں منشیات کا بازار لگتا ہے، اس کو روکنے کے لیے سول حکومت کی مدد چاہیے۔ اگر سول حکومت ہی منشیات کے کاروبار کا حصہ بن جائے گی تو مسائل بڑھ جائیں گے۔ اس سوال پر کہ کیا وزیر اعلیٰ کے پی کی زمین پر منشیات کاشت ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا ہم نے کوئی پٹوار خانہ نہیں کھول رکھا کہ کہاں کاشت ہوئی ہے، کونسی زمین کس کی ملکیت ہے یہ تو سول حکومت بتائے گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے تیرہ میں منشیات کی کاشت کا مسئلہ زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔انھوں نے کہا یہ تاثر بھی غلط ہے تیرہ اور خیبر میں متعدد آپریشن ہو چکے ہیں، جن میں تیرہ ون، تیرہ ٹو اور تیرہ تھری جیسے آپریشن شامل ہیں۔ اسی طرح خیبر ون، خیبر ٹو اور خیبر تھری شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپریشن کر کے جب علاقہ دہشت گردوں سے کلئیر کروا کر دے دیا جاتا ہے، وہ دوبارہ کیسے آجاتے ہیں، انھیں دوبارہ کیوں آباد کیا جاتا ہے، منشیات کا بازار ہم نے نہیں سول حکومت نے بند کروانا ہے۔ بہت سے کام سول حکومت نے کرنے ہیں وہ نہیں کرتے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ بارڈر پر تو فوج ہے پھر دہشت گرد ملک میں داخل کیسے ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا یہ بیانیہ زیادہ کے پی سے آتا ہے۔
آپ کے پی کا افغانستان کے ساتھ بارڈر دیکھ لیں تقریباً بارہ سو کلومیٹر کا دشوار بارڈر ہے۔ ہم نے وہاں باڑ لگائی ہے لیکن باڑ کا فائدہ تب ہے جب اس کا ایک ایک انچ فوج کی گولی کے نشانہ پر ہو۔ اس وقت پچیس سے تیس کلومیٹر کے بعد ایک چیک پوسٹ ہے، کم از کم پانچ کلومیٹر کے بعد چیک پوسٹ ہونی چاہیے، اس کے لیے مزید فوج ، نفری اور وسائل چاہیے۔ ریاست یہ وسائل دے تو ممکن ہے، ورنہ امریکا بھی میکسیکو کا بارڈر بند نہیں کر سکا۔ اس کے پاس وسائل بھی ہیں فوج بھی ہے۔ وہ بھی شہروں سے لوگوں کو پکڑ کر نکال رہا ہے، اس لیے یہ کام سول اور فوج مل کر ہی کرتے ہیں۔ اگر سول حکومت انھیں پناہ دینے لگ جائے تو کیا کریں۔
اس سوال پر کہ عمومی تاثر یہی ہے کہ ٹی ٹی پی کو جنرل فیض اور جنرل باجوہ واپس لے کر آئے، فوج ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ اس سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج ایک ادارہ ہے جو حکومت کے ساتھ کام کرتا ہے، آپ دیکھیں جس جماعت کی اس وقت حکومت تھی وہ آج بھی دہشت گردوں کی حمایت میں کھڑی ہے۔ آپ یہ بھی دیکھیں ٹی ٹی پی نے کے پی میں تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا ہے، فوج کو نشانہ بنایا ہے، پولیس کو نشانہ بنایا ہے، نہیں نشانہ بنایا تو اس سیاسی جماعت کو نہیں بنایا گیا۔ وہ جماعت تب مرکز میں اقتدار میں تھی وہ تب بھی ان کے ساتھ بات چیت کی حامی تھی، آج بھی حامی ہے۔ آپ اس کو بھی دیکھیں بات سمجھ آجائے گی۔
افغانستان ،کے حوالے سے کافی سوال ہوئے۔ لیکن میرے نزدیک اہم بات یہی تھی کہ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ فوج افغان طالبان کے حوالے سے اس فیصلہ پر پہنچ گئی ہے۔ یہ بھی طے ہوگیا ہے کہ کوئی اچھے طالبان نہیں جو دہشت گرد ہے وہ اچھا برا نہیں ہو سکتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر چیف ا ف ڈیفنس فورس انھوں نے کہا کہ نشانہ بنایا سول حکومت منشیات کا ملین لٹر کے جواب کے خلاف اس سوال نہیں کر کے ساتھ جنگ کے کے لیے گئی ہے
پڑھیں:
جہاں عورتیں خوفزدہ ہوں، وہ معاشرے ترقی نہیں کرسکتے: آصفہ بھٹو
اسلام آباد: (نیوزڈیسک) اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خاتون اول آصفہ بھٹوزرداری کا خواتین پر تشدد کے خاتمے کے بین الاقوامی دن پر بیان سامنے آگیا۔
آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ جہاں عورتیں خوف یا خاموشی کی زندگی گزاریں، وہ معاشرے ترقی نہیں کرسکتے، ریاست پاکستان تمام خواتین اور بچیوں کی عزت، حقوق اور حفاظت کے لئے پرعزم ہے۔
خاتون اول کا کہنا تھا کہ سزا سے بچ جانے کی ثقافت کو ختم کرنا انصاف کے لئے ضروری ہے، ہمیں تعصب کے مقابلے میں احترام، خاموشی کے مقابلے میں ہمت اور غفلت کے مقابلے میں جوابدہی کو چننا ہوگا۔
آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ خواتین کی آواز اہم ہے، ان کا تحفظ اور خواب اہم ہیں، آئندہ نسلوں کے لئے ایک زیادہ محفوظ اور زیادہ برابر معاشرے کا قیام ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی عورتوں کے لئے زیادہ سے زیادہ محفوظ ماحول سے مشروط ہے، پاکستان کے شہری، ادارے اور کمیونٹیز خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے متحد ہوں۔