Express News:
2025-11-26@22:44:30 GMT

علماء ڈپلومیسی

اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT

گزشتہ دنوں پاکستان کے ممتاز علماء کرام بنگلہ دیش کے دورے پر گئے تھے۔ غا لباً سقوط ڈھاکا کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اتنی بڑی تعداد میں پاکستان کے علماء بنگلہ دیش گئے۔ بنگلہ دیشی علماء اور عوام نے ان کا مثالی اور پرتپاک استقبال کیا ان کے اعزاز میں منعقدہ بڑے شاندار عوامی اجتماعات میں بنگلہ دیشی عوام کے جذبات اور والہانہ عقیدت دیدنی تھی۔

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں صف اول کے پاکستانی علماء کرام جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا اسد محمود، اہلسنت والجماعت کے قائدین مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا اورنگزیب فاروقی، مولانا معاویہ اعظم، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے عالمی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر احمدعلی سراج، مجلس احرار اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا سید کفیل بخاری، پیر طریقت رہبر شریعت ولی کامل مولانا عزیز الرحمٰن ہزارویؒ کے جانشین مفتی اویس ہزاروی نمایاں تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ 1971سے قبل کا زمانہ لوٹ آیا ہو۔ ڈھاکا سمیت بنگلہ دیش کے بڑے بڑے شہروں میں اجتماعات ہوئے، ہر اجتماع میں جیسے عوام کا سمندر ہی امڈ آتا تھا، ہر طرف انس اور الفت کا سماں تھا، چارسو اپنائیت ہی اپنائیت اور محبت ہی محبت تھی۔

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا رشتہ ہے ہی ایسا کہ اجنبیت کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ 1971 میں ملک ٹوٹا، دل ٹوٹے، چار دہائیوں تک دونوں ملکوں میں ریاستی اور عوامی سطح پر ناپسندیدگی اور دوری کا سماں تھا لیکن ٹوٹے دلوں میں بھی محبت چھپی ہوئی تھی، موقع ملا تو اس محبت کا والہانہ اظہار دنیا نے دیکھا۔ مرکزی اجتماع ڈھاکا کے سہروردی گراؤنڈ میں منعقدہ عالمی ختم نبوتﷺ کانفرنس کے اسٹیج پر پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے جید علماء جلوہ افروز تھے، عوام کا جم غفیرا سٹیڈیم کے اندر اور باہر اپنے محبوب علماء کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب و بے قرار تھا۔ علماء کرام عشق رسول اللہ ﷺ سے سرشار سامعین کے دلوں کو گرما رہے تھے۔

اجتماع کا آخری اور تاریخی خطاب مولانا فضل الرحمٰن کا تھا۔ مولانا نے ریاست پاکستان کا سفیر بن کر اپنا دل بنگلہ دیشی عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا تو سامعین کے قلوب و اذہان کو مسخر اور بنگلہ دیشی قوم کے دلوں کو جیت لیا۔ انھوں نے اخوت و بھائی چارے، دونوں ملکوں کے درمیان بہتر برادرانہ تعلقات اور دلوں کو جوڑنے کی بات کی، گھر کی بات گھر میں کرنے کے علمبردار مولانا نے پاکستان کے اندرونی معاملات کی پٹاری کھول کر نہیں رکھی، بلکہ سفیر محبت و اخوت بن کر کہاکہ"ہم پاکستان سے خیرسگالی کا پیغام لے کر آئے ہیں اور بنگلہ دیش سے خیر سگالی کا پیغام لے کر جائیں گے، دو برادر اسلامی ممالک مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کے خواہش مند ہیں اور اس راستے میں ہمارے قدم آگے بڑھیں گے، اگر آپ چل کر ہماری طرف آئیں گے تو ہم دوڑ کر آپ کی طرف آئیں گے۔

 محبت کا یہ رشتہ مزید مضبوط ہوگا اور بہت مضبوط ہوگا۔ دو بھائیوں کے اپنے گھر میں جائیداد تقسیم کرنے سے ان کے بھائی چارے میں کوئی فرق نہیں آتا، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان ایک قوت، ایک جماعت اور ایک امت ہے، آج کا یہ اجتماع دونوں ملکوں کے درمیان بہتر، مضبوط اور مستحکم تعلقات کا سبب بنے گا"۔ سقوط ڈھاکا کا سانحہ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی غلطیوں سے پیدا ہونے والے خلا نے مشرک ریاست ہندوستان کو ریشہ دوانیوں کا موقع دیا تو انھوں نے ہمارے درمیان دوریاں پیدا کیں، طویل جدائی نے چہروں پہ اجنبیت کے پھیکے رنگ بکھیر دیے، جغرافیائی دوریوں کے ساتھ ساتھ دلوں میں بھی فاصلے پیدا ہو جائیں تو ایسے میں قربتوں کی بادِ صبا چلانے، چہروں پر شناسائی سجانے اور گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دھکیلنے میں بڑی محنت لگتی ہے مگر اگر نیت میں اخلاص اور اللہ رب العزت کی رحمت شامل حال ہو سالوں کی منازل سیکنڈوں میں طے ہو جاتی ہیں۔

14 اگست 1947 کو دو حصوں میں بٹا پاکستان آزاد تو ہوگیا تھا لیکن مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ اور درمیان میں ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہندوستان تھا۔ دونوں حصوں میں رہنے والوں کی زبان، ثقافت، تہذیب، رہن سہن، بودوباش یہاں تک کہ پکوان بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے مگر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نصب العین اور خالص نظریے نے دونوں کو جوڑے رکھا۔ مگر آزادی کے بعد 24 سال گزرنے کے باوجود آئین بن سکا نہ شریعت مطہرہ کا نظام نافذ ہوا اور ایک مخصوص ٹولے نے نظریہ پاکستان کو بھی متنازع بنانا شروع کردیا۔

مشرقی پاکستان کے لوگوں کے اندر محرومیوں کا احساس تو تھا مگر احساس محرومی سے کبھی ملک نہیں ٹوٹتے پاکستان بننے کے بعد ہم مشرقی اور مغربی پاکستان میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے میں ناکام رہے۔ مشرقی پاکستان میں اساتذہ کی اکثریت ہندو تھی انھوں نے نوجوانوں کے دلوں میں بدگمانیاں اور نفرت پیدا کی تو ان کو لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں سے مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی بو آنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی پاکستان کو نظر انداز کیا گیا مگر حقوق حاصل کرنے کے لیے کوئی ملک نہیں توڑتا، ملک توڑنے سے مسائل ختم نہیں بڑھتے ہیں۔

مگر جب ہمارے پالیسی ساز اپنی اساس پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" سے ہٹ گئے جس کے لیے بنگال کے مسلمانوں نے ہمارے ساتھ مل کر جدوجہد اور ہم سے بڑھ کر قربانیاں دی تھیں، تو ہمارا رشتہ کمزور پڑ گیا۔ اگر پاکستان میں لا الہ الا اللہ کانظام رائج کرکے اللہ سے کیا گیا وعدہ وفا کرتے اوریہاں اسلام نافذ ہوجاتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا۔ ہمیں کھلے دل سے اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ ہماری کمزوریوں نے مشرک ریاست ہندوستان کو سازشیں کرنے کا موقع دیا تو ملک دولخت ہوگیا اور ہمارے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوگئیں، مگر تعلقات بحال کرنے کے لیے دونوں طرف سے سنجیدہ کوشش نہیں گئی شکر الحمدللہ آج علماء ڈپلومیسی کے آگے وہ دیواریں زمین بوس اور عوام قریب آرہے ہیں۔ کلمہ طیبہ کے علمبردار ایک بار پھر ہمیں ایک دوسرے کے قریب لا رہے ہیں۔

بحیثیت ریاست اب ہمیں علماء ڈپلومیسی کے ذریعے ہنگامی بنیادوں پر پاک افغان مذاکرات کو لے کر چلنا چاہیے کیونکہ سب سے موثر ذریعہ امارت اسلامیہ کے ذمے داران کے یہی اساتذہ علماء ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن جیسے زیرک اور معاملہ فہم سیاست دان اور عالم دین کی موجودگی میں کسی اور ذریعے سے مذاکرات وقت کا ضیاع ہے۔ طالبان اور پاکستان کے علماء کرام کے درمیان تعظیم و تکریم اور احترام کا رشتہ ہے، اس رشتے کو تعلقات میں بہتری کے لیے استعمال کرنا وقت کی ضرورت اور حکمت کا تقاضا ہے۔ ہمارا ازلی دشمن مشرک ریاست ہندوستان پہلے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان نفرتوں کے بیج بو رہا تھا اور اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے میں جتا ہوا ہے۔ ہمیں ہر صورت اس کو روکنا ہوگا، دونوں برادر اسلامی اور ہمسایہ ممالک کے درمیان نفرتوں کی دیواریں نہیں اخوت و محبت کا سمندر ہونا چاہیے اور اس کے لیے واحد راستہ علماء ڈپلومیسی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں دس پندرہ علماء کرام پاک افغان کشیدگی ختم کرانے اور تعلقات معمول پر لانے کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں، پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے اس پر غور و فکر کرنا چاہیے اور ان عناصر کو مذاکراتی عمل سے دور رکھنا چاہیے جو احمد شاہ ابدالی، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری جیسے فاتحین کو گالیاں بکتے ہیں، ایسے عناصر صلح نہیں لڑائی کرواسکتے ہیں، مذاکرات کی میز پر ایسے افراد کو بٹھانا دشمن کے ایجنڈے کو تقویت دینے کے مترادف ہے، اگر پاکستان و افغانستان کو بھارت اور اسرائیل کے شر سے بچانا مقصود ہے تو واحد حل علماء ڈپلومیسی ہے۔ میری تجویز کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے 18 جنوری 2024 کو روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والا کالم "مولانا کی فرنٹ ڈور ڈپلومیسی" ایکسپریس کے ای پیپر یا میرے پورٹل پر جاکر پڑھ لیں تو مزید آسانی ہوجائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحم ن مشرقی پاکستان درمیان نفرتوں بنگلہ دیشی علماء کرام پاکستان کے بنگلہ دیش پاکستان ا کے درمیان اور اس کے لیے

پڑھیں:

ضلع جنوبی کے زیر اہتمام سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس آج ہوگی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(پ ر) عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ضلع جنوبی کے زیر اہتمام سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس کھڈہ میمن سوسائٹی آشیانہ والی گلی مرغی خانہ چوک لیاری میں آج بعد نماز عشا منعقد کی جائیگی جس میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے مرکزی راہنما شاہین ختم نبوت مولانا اللہ وسایا، مرکزی مبلغ و خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد، جمعیت علمائے اسلام ضلع جنوبی کے امیر مولانا نورالحق، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے قدیم استاد و ممتاز عالم دین مفتی شکور احمد، مبلغ کراچی مولانا عبدالحء مطمئن، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے لیگل ایڈوائزر محترم جناب منظور مئیو سمیت دیگر سیاسی و سماجی عمائدین و معززین خطاب کریں گے۔

خبر ایجنسی گلزار

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد: غیر قانونی اسلحہ رکھنے پر فرخ کھوکھر کو گرفتار کرلیا گیا
  • عمران خان کی بہنوں کے دھرنے میں پولیس کی ’چائے ڈپلومیسی‘
  • عمران خان کی بہنوں کے دھرنے میں پولیس  کی ’’چائے ڈپلومیسی‘‘
  • ضلع جنوبی کے زیر اہتمام سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس آج ہوگی
  • پاکستان کی جیت ہماری جیت ہے، علی لاریجانی، صدر، وزیراعظم سے ملاقات
  • پاکستانی ہائی کمشنر کی ڈھاکا میں بنگلہ دیشی ایئرچیف سے ملاقات
  • وزیراعظم سے سعودی چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، برادرانہ تعلقات کا اعادہ
  • پاکستان ہائی کمیشن اور ایچ ای سی کی مشترکہ کاوش، ڈھاکہ میں پاکستان ایجوکیشن ایکسپو کا انعقاد
  • پاکستان بنگلہ دیش کو برآمد کرنے کیلئے ایک لاکھ ٹن چاول خریدے گا