ترمیم کی منظوری جبری اور جعلی تھی،مولانا فضل الرحمان نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
خلفائے راشدین کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے تو کیا یہ ان سے بھی بڑے ہیں؟ صدارت کے منصب کے بعد ایسا کیوں؟مسلح افواج کے سربراہان ترمیم کے تحت ملنے والی مراعات سے خود سے انکار کردیں
یہ سب کچھ پارلیمنٹ اور جمہورہت کے منافی ہوا، جو قوتیں اس ترمیم کو لانے پر مُصر تھیں ان کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، عوام میں حکومت کی مقبولیت بڑی تیزی سے گری،سربراہ جے یو آئی کی میڈیا کو بریفنگ
جمعیت علماء اسلام( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر تے ہوئے واضح کیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم سے نہ دستور میں بہتری آئے گی نہ یہ عوامی مفاد کا تقاضا پورا کرے گی، حکومت مکمل طور پر عدلیہ کو اپنے پنجے میں رکھنا چاہتی ہے ،ترمیم لانے والی قوتوں کی عزت نہیں بڑھی،اصولی طور پر جے یو آئی آئینی عدالت کے حق میں تھی،جب آئین بن رہا تھا، اس وقت بھی پارٹیوں کا موقف مختلف تھا،مساوات کے نعرے لگانا اور اس کے برعکس قانون پاس کرنا جمہوری معاشرے کے شایان شان نہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کو آئین سازی کا اساس قراردیا گیا ہے ،خلفائے راشدین کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے تو کیا یہ ان سے بھی بڑے ہیں؟،قانون کی نظر میں سب برابر ہیں،یہ قائداعظم کے اصولوں کی بھی نفی ہے ،قرارداد مقاصد کے مطابق ملک میں قرآن کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔منگل کو پارٹی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ اجلاس میں ستائیسویں آئینی ترمیم اور بعض ایسے قوانین جو پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے ، پر غور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے ستائیسویں آئنی ترمیم کو کلیتاً مسترد کردیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہمارے اراکین نے اس ترمیم کی مخالفت کی، مجلس شوریٰ نے اپنی جماعت کے پارلیمنٹرینز کے اس فیصلے کی توثیق کردی۔ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ 26 ویں ترمیم کے حوالے سے ہم پی ٹی آئی کو ہر پیشرفت سے آگاہ کرتے رہے ،پی ٹی آئی کی تجاویز پر ہم حکومت کو مجبور بھی کرتے رہے ، وہ ترمیم باہمی مشاورت کے عمل سے گزری تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ترمیم پارلیمنٹ میں قدرے متفقہ طور پر منظور ہوئی۔انہوں نے کہا کہ 27 ویں ترمیم کے دوران ان کا فرض تھا کہ وہ اپوزیشن سے مشاورت کرتے ،کم ازکم جے یو آئی سے مشاورت کرتے ،انہوں نے ایک فریق کو نظر اندازکیا، یہ دوتہائی اکثریت جبری اور جعلی تھی،یہ سب کچھ پارلیمنٹ اور جمہورہت کے منافی ہوا۔ جو قوتیں اس ترمیم کو لانے پر مصر تھیں ان کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ عوام میں حکومت کی مقبولیت بڑی تیزی سے گری۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 26ویں ترمیم میں حکومت جن چیزوں سے دستبردار ہوئی، آج پارلیمنٹرینز کا ہاتھ مروڑ کر انہیں پاس کیا۔ ترمیم لاکر ایسی پیچیدگیاں پیدا کی گئیں کہ خود عدالت کو بھی سمجھ نہیں آرہا۔اصولی طور پر جے یو آئی آئینی عدالت کے حق میں تھی،جب آئین بن رہا تھا، اس وقت بھی پارٹیوں کا موقف مختلف تھا۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے دوتہائی اکثریت ہونے کے باوجود سب سے مشاورت کی، چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں لیا گیا، آج پیپلزپارٹی کس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے کے خلاف گئی؟ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی نفی میں کردار ادا کیا۔ پیپلزپارٹی نے غیرجمہوری عمل میں حکومت کا ساتھ دیا۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ بعض اہل منصب کو تاحیات استثنا دیا گیا، فوجی حکومت میں زرداری صاحب الزامات پر 8سال جیل میں رہے ،آج اسی کو کہا جارہاہے تاحیات آپ کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہوسکے گا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کا قانون ان کو 8سال تک عدالت میں پیش نہیں کرتا رہا ؟ صدارت کے منصب کے بعد ایسا کیوں؟ کیوں معصوم شخصیت کا روپ دے دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی بھارت کے مقابلے میں بہادری کی سب سے پہلے ہم نے تعریف کی، لیکن اس کی پاداش میں ان کو تاحیات جو مراعات دی گئی ہیں، وہ جمہوری معاشرے میں متحمل نہیں۔ مسلح افواج کے سربراہان اس ترمیم کے تحت ملنے والی مراعات سے خود سے انکار کردیں۔ اس طرح تو ملک میں طبقاتی نظام پیدا ہوگا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مساوات کے نعرے لگانا اور اس کے برعکس قانون پاس کرنا جمہوری معاشرے کے شایان شان نہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کو آئین سازی کا اساس قراردیا گیا ہے ،خلفائے راشدین کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے تو کیا یہ ان سے بھی بڑے ہیں؟،قانون کی نظر میں سب برابر ہیں،یہ قائداعظم کے اصولوں کی بھی نفی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آئینی عدالت کے معاملے میں چیف جسٹس کون کہلائے گا، ابھی ابہام باقی ہے ۔ آئینی عدالت کے قیام کی صورت میں شریعت کورٹ کا فیصلہ ہوا تو آئینی عدالت کہے گی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سوچا ہی نہیں گیا، ہمارا مطالبہ ہے کہ فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ اپیلٹ بینچ کو فعال بنایا جائے ۔ شریعت کورٹ کے 2 ججز کی تاحال نامزدگی نہیں کی جارہی۔انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کی نظر میں ستائیسویں ترمیم سے نہ تو آئین میں کوئی بہتری آئے گی اور نہ اس سے عوامی مفاد حاصل ہوگا،ہم مکمل طور پر ستائیسویں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ حکومت عدالتوں کو ہرحال میں اپنے پنجے میں رکھنا چاہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ 18سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کے بارے میں قانون سازی، ٹرانسجینڈر اور گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون سازیاں ہوئی ہیں،18سال سے کم عمر کے بچے کو نابالغ کہنا یہ کس شریعت میں ہے ؟اور 18 سال سے کم عمری میں نکاح کو زنابالجبر کی سزادینے کی بات ہوئی ہے ، اس ملک میں زنا کے مرتکب کو سہولت دینے کا قانون پاس ہوا اور پیپلزپارٹی نے اس میں بھی ساتھ دیا۔ آج جائز نکاح میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں،18سال سے کم عمری کے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا ہے لیکن اس میں سے ہونے والی اولاد کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آئین میں اسلام کو ملک کا دین قرار دیا گیا ہے ،قرارداد مقاصد کے مطابق ملک میں قرآن کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کہنے پر قانون سازی کی گئی ہے ، اسی کو غلامی کہا جاتا ہے ۔ ہم نے 300 سال تک غلامی کیخلاف جنگ لڑی ہے ۔ کسی صورت میں ایسی قانون سازی کو جائز قرارنہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ، شہباز شریف سے ہمیں یہ توقع نہیں تھی، مسلم لیگ کے اندر آج بھی غلامی کے جراثیم زندہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر جو قانون سازی ہوئی اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا،یہ اپنی کی ہوئی قانون سازی کے ساتھ بھی منافقت کررہے ہیں، ہم اتحاد مدراس اور تمام مکاتب فکر سے رابطے کررہے ہیں، اس سلسلے میں ملک بھر میں سیمینارز منعقد کیے جائیں گے ۔ احتجاجی سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ حافظ صاحب کی بہادری کی ہم تعریف کرتے ہیں لیکن جس چیز کو ایک خاص شخص کے لیے مراعات کہا جائے اس سے ملک کو محفوظ رکھا جائے ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم، منحرف سینیٹرز کو قتل کی دھمکیوں کا انکشاف
26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے اپنی پارٹی سے انحراف کر کہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے سینیٹرز کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، سینیٹر سیف ابڑو، اسلم ابڑو اور نسیمہ احسان نے سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں مگر سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ملک میں عدالتی نظام انصاف پر مبنی نہیں، 27ویں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان
چیئرمین کمیٹی نے حکم دیا کہ جب تک صوبائی تھریٹ اسسمنٹ کمیٹیاں معاملے کی تحقیقات مکمل نہیں کر لیتی، آئی جی اسلام آباد، آئی جی سندھ اور آئی جی بلوچستان تینوں سینیٹرز کو فوراً سیکیورٹی فراہم کریں۔
واضح رہے کہ سینیٹر سیف اللہ ابڑو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہیں اور انہوں نے پارٹی پالیسی سے انحراف کر کہ 27ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا، جبکہچ کا تعلق اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی سے تھا اور انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کے وقت پارٹی پالیسی سے انحراف کر کہ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا، 27ویں ترمیم میں بھی انہوں نے ووٹ دیا ہے، جبکہ سینیٹر اسلم ابڑو پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات، جے یو آئی (ف) کا حکومتی اقدامات سے اظہارِ لاتعلقی
سینیٹر شہادت اعوان کی زیر صدارت داخلہ کمیٹی کے اجلاس میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں ڈی جی ایف آئی اے (این سی سی آئی اے) نے کمیٹی کو بتایا کہ سینیٹر فلک ناز چترالی کے نام پر کیے گئے فراڈ کیس میں ملوث افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
انہوں نے زیر التوا اور نمٹائے گئے کیسز کے اعدادوشمار بھی پیش کیے، مگر زیر التواء مقدمات میں بڑے اضافے پر کمیٹی نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔
سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان نے بتایا کہ ایف آئی اے اور این سی سی آئی اے کے باعث عوام مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ایک ساتھی سے ’مہدی شاہ‘ کے نام پر رقم مانگی گئی، جب کہ یوٹیوبر کے بھائی کی اہلیہ سے 10 کروڑ روپے کا مطالبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عام شہریوں کا استحصال کس قدر بڑھ چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم کیخلاف وکلا کنونشن بار قیادت کے اختلافات کا شکار ہونے کے بعد سڑک پر منعقد
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے ایف آئی اے کے ایک افسر کی ایک سال میں اربوں روپے کی جائیدادیں بنانے کی نشاندہی کرتے ہوئے افسران کی دیانت داری پر سوال اٹھایا۔ ارکان نے ذمہ داران کی نشاندہی کے لیے ذیلی کمیٹی بنانے کی تجویز دی، تاہم چیئرمین نے فوری طور پر ذیلی کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت سے اتفاق نہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تحقیقات مکمل کرکے جلد از جلد کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے۔
ایڈیشنل آئی جی سندھ اور آئی جی بلوچستان کے نمائندوں نے سینیٹر محمد اسلم ابڑو کے بھائی اور بھتیجے کے قتل کیس پر تعمیلی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ ملزمان کا پیچھا کرنے کے لیے پولیس ٹیمیں کوئٹہ میں موجود ہیں، جب کہ ملزمان کی جائیداد ضبط کرنے کا عمل جاری ہے، جبکہ شناختی کارڈز بلاک اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔
اس سلسلے میں 2 مشتبہ افراد کے کال ڈیٹا ریکارڈ حاصل ہو چکے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے ڈی آئی جی سندھ کو 20 روز میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
senate اسلم ابڑو سیف اللہ ابڑو سینیٹ سینیٹر سینیٹر نسیمہ ابڑو