Jasarat News:
2025-11-28@16:41:32 GMT

جنگ حل ہوتی تو اسرائیل مذاکرات کبھی نہ کرتا

اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251014-03-4

 

 

 

مظفر اعجاز

ایک زبردست سوال اٹھایا گیا ہے اور اٹھانے والے بھی زبردست ہیں، اس سوال نے دنیا کی تاریخ کی کئی گتھیاں ایک جملے میں سلجھادیں اور وہ جملہ ہے ’’ہر مسئلے کا حل بات چیت نہیں، مذاکرات ہی حل ہوتے تو پھر جنگیں کبھی نہیں ہوتیں‘‘ یہ سن کر امریکا، اسرائیل اور دنیا کے تمام ممالک کی قیادت بے وقوف نظر آنے لگی، اقوام متحدہ کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے، تازہ ترین بے وقوفی تو امریکا اور اسرائیل نے ابھی چند روز قبل کی ہے، یعنی دوسال تک ’’دنیا کی ناقابل شکست‘‘ فوج عملاً مٹھی بھر بے وسیلہ فلسطینیوں سے اپنا سر پھوڑنے کے بعد مذاکرات پر مجبور ہوئی، ان بے وقوفوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت نہیں، مذاکرات ہی حل ہوتے تو جنگ ہرگز نہیں ہوتی، لیکن امریکا کو کون سمجھائے جس نے ویتنام میں برسوں جنگ کرنے کا تجربہ کیا، عراق اور مشرق وسطیٰ میں طویل جنگ لڑی، اور افغانستان میں بیس سال جنگ لڑ کر دوحا میں طالبان سے مذاکرات کیے اور اپنے فوجیوں کی جان بچا کر نکلا، اسرائیلی وزیر اعظم دوسال تک ایک ہی اعلان کرتا رہا کہ تمام مغوی رہا کرائوں گا، حماس کو ختم کردوں گا، غزہ کو خالی کرائوں گا، لیکن دوسال تک کھربوں ڈالر کا بارود پھونک کر 80 ہزار لوگوں کو شہید کرنے اور اپنے فوجی مرواکر، ناقابل شکست ہونے کا بھرم کھونے کے بعد مذاکرات کرلیے، اس سے قبل بھی بے وقوف اسرائیلی قطر میں مذاکرات اور بات چیت ہی کرتے رہے تھے، کاش کوئی ارسطو، افلاطون اور عقلمند ان کو بتاتا کہ ’’ہر مسئلے کا حل بات چیت نہیں، مذاکرات ہی حل ہوتے تو پھر جنگیں کبھی نہیں ہوتیں‘‘۔

پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے قوم کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونا بھی شامل ہے۔ اور نیشنل ایکشن پلان کا ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ اس حوالے سے ایک بیانیہ بنایا جائے گا لیکن یہ بھی نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی گئی۔ بات تو بالکل ٹھیک ہے لیکن پاکستان میں حکومت، سیکورٹی، بجٹ، سیاست، خارجہ داخلہ پالیسی، بین الاقوامی تعلقات، معاہدے کرنا توڑنا، کسی کو محب وطن، کسی کو غدار قرار دینا، ان سب کے بیانیے بنانا، یہ سب کس کے ہاتھ میں ہے۔ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و عسکری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا لیکن آج تک اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔ کس کو نہیں معلوم کہ یہ نیشنل ایکشن پلان کس نے مرتب کروایا، تمام سیاسی دھڑوں کو ایک جگہ کس نے بٹھایا، اور سب کو متفق کردیا۔ وہی لوگ اعتراض کررہے ہیں کہ مذاکرات کرنے کی بات کی جاتی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے، اگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہیں ہوتیں۔ معمول کے مطابق اسلامی ٹچ بھی ڈال دیا گیا اور کہا گیا کہ غزوۂ بدر میں سرور کونینؐ کبھی جنگ نہ کرتے۔ اللہ کے بندے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے غزوۂ بدر کو بھی گھسیٹ لیا۔ یہ غزوۂ بدر اپنے ملک کے حکومت مخالفوں کے خلاف نہیں تھا، مسلمانوں پر حملہ آور کفار مکہ کے خلاف مدافعتی جنگ تھی، اسے یوم الفرقان کہا جاتا ہے، اس کا آج کے آپریشنوں سے کیا تعلق۔ البتہ سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھانے والوں نے بہت ساری باتیں سیاست اور ایک سیاسی جماعت کو سامنے رکھ کر کی ہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے گٹھ جوڑ کو مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔

ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ امریکا 7.

2 ارب ڈالر کا ہتھیار افغانستان میں چھوڑ کر گیا جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگا اور یہی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ یہ زبردست بات ہے، لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیتے کہ امریکا یہ اسلحہ کون سی سڑکوں پر چھوڑگیا تھا جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا، ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی اسلحہ غیر محفوظ تھا اس وقت تو حالت یہ تھی امریکیوں کی جان پر بنی ہوئی تھی تو دہشت گردوں کی مجال کیا ہوگی کہ اسلحہ اٹھا کر لے جائیں، ہاں یہ اطلاعات ضرور تھیں کہ امریکیوں نے وارلارڈز اور مختلف طالبان مخالف گروپوں میں اسلحہ تقسیم کیا تھا تاکہ مستقبل میں دہشت گردی میں استعمال کیا جاسکے، یہی کام وہ ویتنام سے فرار ہوتے ہوئے کرکے گئے تھے اور یہی عراق سے نکلتے ہوئے کیا اور افغانستان میں بھی۔ اس میں مذاکرات کے حامیوں کو دوش دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے جنگ لڑنے کی دلیل اور حوالہ دیا گیا کہ 2024 میں خفیہ اطلاعات پر کے پی میں 14ہزار 535 آپریشنز کیے گئے اور 2025 میں اب تک 10 ہزار 115 کارروائیاں کی گئیں، رواں سال مارے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد گزشتہ 10 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ سارے اعدادو شمار بتانے کے بعد کہا گیا کہ اس ملک میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی، جو ان کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا لہٰذا عوام ساتھ دیں۔ سوال یہ ہے کہ اب تک اتنے آپریشنوں کے بعد دہشت گردوں پر زمین تنگ کیوں نہیں ہوگئی، دعوے تو کمر توڑنے کے کئی مرتبہ ہوچکے، ہر مرتبہ ٹوٹی کمر والے دہشت گرد واردات کرجاتے ہیں۔ ترجمان نے یہاں پہنچ کر کہا کہ بنیادی طور پر پولیس کا کرنے والا کام بھی فوج کو کرنا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ سی ٹی ڈی کی تعداد ہی 3200 رکھی ہوئی ہے تو پھر نتائج کیسے برآمد ہوں گے۔ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کا سبب سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے، اس سیاسی مافیا کے لیے ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اہم ہیں اور اگر اسمگلنگ ہوتی رہے گی تو اس کے ساتھ دہشت گردی اور دھماکا خیز مواد بھی آئے گا، یہاں ہونے والی اسمگلنگ کا الزام بھی فوج پر لگا دیا جاتا ہے اب سوال یہ ہے کہ فوج کے ذمے داروں نے کبھی سوچا کہ فوج سارے کام کیوں اپنے سر لے رہی ہے اور سارے کام وہی کرتے ہیں تو اسمگلنگ کا الزام بھی ان ہی پر لگے گا۔

مظفر اعجاز

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہر مسئلے کا حل بات چیت نیشنل ایکشن پلان بھی نہیں کبھی نہ گیا کہ تو پھر کے بعد

پڑھیں:

امریکا فائرنگ اور تاجکستان ڈرون حملہ—دفترِ خارجہ نے ذمہ داری افغان حکومت پر ڈال دی

دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا میں فائرنگ کا حالیہ سانحہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ تاجکستان میں تین چینی شہریوں کی ہلاکت کی ذمہ داری براہِ راست افغان حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے میں ناکام ہے اور اسے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان دفترِ خارجہ نے واشنگٹن میں فائرنگ کے واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس حملے کی سخت مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے جاں بحق افراد کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی اور کہا کہ یہ واقعہ خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عالمی دہشت گردی دوبارہ پھل پھول رہی ہے۔ ترجمان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے۔
تاجکستان میں ڈرون حملہ جس میں تین چینی باشندے مارے گئے، اس پر بھی پاکستان نے افسوس کا اظہار کیا اور واضح کہا کہ کابل حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے، کیونکہ ایسے حملے خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
ترجمان نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے سندھ سے متعلق بیان کو بھی سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی بیانات نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہیں بلکہ سرحدی قوانین کی صریح خلاف ورزی بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اپنے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
پریس بریفنگ میں ترجمان نے بتایا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان پاکستان۔ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر مشاورت جاری ہے اور دونوں ممالک مل کر اس کا قابلِ عمل حل تلاش کریں گے۔
اگر آپ چاہیں تو میں اس خبر کا مختصر ورژن، سوشل میڈیا کیپشن یا ہیڈ لائن بھی بنا سکتا ہوں۔

 

متعلقہ مضامین

  • امریکا فائرنگ اور تاجکستان ڈرون حملہ—دفترِ خارجہ نے ذمہ داری افغان حکومت پر ڈال دی
  • دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ
  • خیبر پختونخوا :رواں سال مختلف کارروائیوں میں 955 دہشت گرد ہلاک
  • کے پی میں رواں سال کارروائیوں میں 955 دہشت گرد ہلاک: رپورٹ جاری
  • آسٹریلیا نے ایرانی فوج کو دہشت گردوں کی سرپرست قرار دے دیا
  • ہنگو میں چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، 3 پولیس اہلکار شہید
  • ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملہ ـدہشت گرد افغان تھے، آئی جی پختونخوا
  • فیض حمید کا کورٹ مارشل قانونی اور عدالتی عمل ہے ،قیاس آرائیوں سے گریزکریں ،ترجمان پاک فوج
  • دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
  • پولینڈ کا اسرائیل سے تاریخی غلط بیانی پر احتجاج، اسرائیلی سفیر طلب