بھارت میں ’آئی لو محمد ﷺ‘ کے بینرز آویزاں کرنا بھی جرم قرار؛ گرفتاریاں اور گھر مسمار
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
بھارت میں مودی سرکار نے مسلمانوں کا اپنے نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اظہارِ محبت کرنا بھی جرم بنا دیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مسلمانوں نے مختلف ریاستوں میں ’’آئی لو محمد ﷺ‘‘ پر مبنی بل بورڈز اور بینرز آویزاں کیے تھے۔ جو ہندو انتہاپسندوں کو ایک آنکھ نہ بھائے۔
جس کے بعد مختلف ریاستوں میں پولیس نے اس جملے کو مذہبی اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے ڈھائی ہزار سے زائد مسلمانوں کے خلاف مقدمات قائم کیے ہیں جن میں سے متعدد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔
یہ معاملہ پہلی بار اُس وقت سامنے آیا تھا جب ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں میلاد النبی ﷺ کے موقع پر بعض مقامات پر ’’آئی لو محمد ﷺ‘‘ کے بورڈز آویزاں کیے گئے تھے۔
مقامی ہندو تنظیموں نے اعتراض اٹھایا کہ یہ اقدام مذہبی اشتعال کا باعث بن سکتا ہے جس پر حکام نے کارروائی شروع کی اور کئی نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ اسی دوران بعض گھروں کو بلڈوز کر کے منہدم بھی کر دیا گیا۔
کانپور سے شروع ہونے والا یہ معاملہ اب دیکھتے ہی دیکھتے دیگر ریاستوں جیسے تلنگانہ، مہاراشٹرا، گجرات اور اتر کھنڈ تک پھیل گیا جہاں پولیس نے مزید گرفتاریاں کیں۔
کئی شہروں میں مسلمانوں نے احتجاج کیا تو مظاہروں کو روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کیے گئے۔ بریلی میں احتجاج کے بعد درجنوں افراد گرفتار ہوئے اور ایک مسجد کے امام سمیت چار شہریوں کی املاک مسمار کر دی گئیں۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر ’’آئی لو محمد ﷺ‘‘ لکھی ہوئی ٹی شرٹس ہورڈنگز اور دیواروں کی تصاویر وسیع پیمانے پر گردش کر رہی ہیں۔
مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کیا بھارت میں عشقِ رسول پر مبنی جملہ بھی اب ایک جرم سمجھا جائے گا۔ یہ مذہبی آزاد اور آزادی اظہار رائے کے بنیادی خلاف کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی لو محمد ﷺ
پڑھیں:
جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ علاقہ ہے، حریت کانفرنس
غلام محمد صفی نے افغان وزیرِ خارجہ کے بیان پر گہرے افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک برادر مسلم ملک کی جانب سے بھارت کے موقف کی تائید نہایت ہی مایوس کن ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی نے بھارت اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں جموں و کشمیر سے متعلق دیے گئے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ذرائع کے مطابق غلام محمد صفی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا کہ مشترکہ پریس کانفرنس میں بیان کردہ موقف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی خلاف ورزی ہے جو واضح طور پر کشمیر کے مسئلے کو ایک غیر طے شدہ تنازعہ تسلیم کرتی ہیں اور اس کے حل کے لیے کشمیری عوام کی آزادانہ رائے شماری کو واحد راستہ قرار دیتی ہیں۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینا تاریخی حقائق، بین الاقوامی قوانین اور عوامی خواہشات کے بالکل برعکس ہے۔ غلام محمد صفی نے افغان وزیرِ خارجہ کے بیان پر گہرے افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک برادر مسلم ملک کی جانب سے بھارت کے موقف کی تائید نہایت ہی مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان جیسے ملک کو جو خود بیرونی تسلط اور جنگوں کی تکالیف سے گزر چکا ہے، چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ انصاف اور اصول کی بنیاد پر یکجہتی کا اظہار کرے۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی کوئی انتہاپسندانہ یا سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک جائز، اصولی اور منصفانہ جدوجہد ہے جو حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے جاری ہے اور اسے اقوامِ متحدہ نے بھی تسلیم کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے 1947ء سے ریاست جموں و کشمیر پر جابرانہ قبضہ کر رکھا ہے جسے کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ گزشتہ سات دہائیوں سے بھارت اپنی فوجی طاقت کے ذریعے لاکھوں کشمیریوں کو شہید، ہزاروں کو لاپتہ اور بے شمار کو بدنام زمانہ بھارتی جیلوں میں قید کر چکا ہے۔ اب بھارت ایک نئی سازش کے تحت غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں آباد کر کے ریاست کے مسلم اکثریتی تشخص اور آبادیاتی تناسب کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق اور چوتھے جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔ غلام محمد صفی نے اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بھارت کے غیر قانونی قبضے، انسانی حقوق کی پامالیوں اور آبادیاتی تبدیلیوں کا فوری نوٹس لیں اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت دلانے کے لیے موثر اور عملی اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی پرامن، جائز اور اصولی بنیادوں پر جاری ہے اور یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقِ خودارادیت حاصل نہیں ہو جاتا۔