پاکستان میں جادو ٹونے کے خلاف کوئی مخصوص قانون موجود نہیں ہے۔ لیکن 2024 میں سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے “Criminal Laws (Amendment) Bill, 2024” کے متن میں جادو، ٹونا، سحر جیسے عملیات کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی۔ اس بل کے تحت پریکٹس یا اشتہار دینے پر 7 سال تک قید کی تجویز پیش کی گئی تھی مگر یہ بل اب تک قانون نہیں بن سکا۔

واضح رہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جادو ٹونے یا عملیات کے خلاف کوئی مخصوص، جامع قانون فوری طور پر نہیں بنایا گیا۔ تاہم مختلف قوانین میں بعض دفعات موجود ہیں جن کے تحت جادو یا عملیات کے خلاف کیسز کو سنا جا سکتا ہے۔

موجودہ قانونی دفعات اور ان کا اطلاق پاکستان پینل کوڈ (PPC) – دفعہ 420

دھوکہ دہی اور فریب کے تحت آتا ہے۔ اگر کوئی شخص جادو یا عامل بن کر لوگوں سے پیسے لیتا ہے یا جھوٹے دعوے کرتا ہے تو اس پر یہ دفعہ لگ سکتی ہے۔جس کے تحت ایسے شخص پر 7 سال قید اور جرمانہ ہوتا ہے۔

 PPC دفعہ 505 (1b)2

اگر کوئی شخص جادو کے ذریعے خوف پھیلائے یا عوامی امن میں خلل ڈالے تو یہ دفعہ لاگو ہو سکتی ہے۔

 PPدفعہ 295 اور 298 (مذہبی جذبات مجروح کرنے کے قوانین)

اگر کوئی جادو یا عملیات مذہب کے خلاف ہوں، تو ان دفعات کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔

سائبر کرائم ایکٹ (PECA 2016)

اگر جادو کے جھوٹے دعوے یا دھوکہ دہی سوشل میڈیا یا ویب پر کی جائے، تو یہ ایکٹ لاگو ہو سکتا ہے۔

اہم بل اور تجاویز جو قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں پیش ہو چکے ہیں سندھ جادوگری ایکٹ (Proposed – 2020)

سندھ اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق جادو کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانے والے کو سزا دی جائے۔

اس میں 3 سال قید اور جرمانے کی تجویز دی گئی تھی، مگر یہ بل پاس نہیں ہو سکا۔

خیبر پختونخوا – عاملوں کے خلاف کارروائی (2022-23)

خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے عاملوں اور جعلی پیروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا، لیکن یہ بھی عارضی اقدامات تھے، نہ کہ مکمل قانون سازی۔

مختلف عدالتوں کے فیصلے

عدالتوں نے کئی مواقع پر عاملوں کو دھوکہ دہی اور غیر اخلاقی حرکتوں پر سزا دی، مگر ان فیصلوں کی بنیاد بھی PPC کی عمومی دفعات ہی تھیں، جبکہ جادو کے خلاف کوئی خصوصی قانون نہیں تھا۔

سینیٹ میں پیش کیا گیا بل

ستمبر 2024 میں سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے ایک خطرناک سماجی پریکٹس جادو ٹونا کے خلاف قوانین کو مزید سخت بنانے کی سفارش کی۔  “Criminal Laws (Amendment) Bill, 2024” کے تحت ایسے افراد جو جادو کرتے یا اس کا اشتہار دیتے ہیں، تو 7 سال تک قید اور 1 ملین روپے جرمانہ کی سزا تجویز کی گئی۔

کمیٹی نے نشاندہی کی کہ اشتہارات عوام کو بکثرت مل رہے ہوتے ہیں، ان کی حدود کا تعین ضروری ہے۔  سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ایک نئی حکومتی کمیٹی بنانے اور مسلمان علما سے مشاورت کرنے کی سفارش کی تاکہ اس قانونی فریم ورک میں اسلامی تعلیمات کو بھی مدِنظر رکھا جا سکے۔

تاہم سینیٹ میں پیشگی منظوری کے باوجود، اسے سینیٹ فل ہاؤس یا قومی اسمبلی میں منظوری یا صدر مملکت کی طرف سے سند نہیں ملی۔

یہ بھی پڑھیے جادو ٹونا کرنے والے ہوشیار، سینیٹ میں ترمیمی بل پیش، سخت سزا تجویز

ماہرین کا کہنا ہے کہ علما کی مشاورت سے اسلامی فریم ورک میں توازن لایا جا سکتا ہے، مگر اس سے فرقہ پرستی یا غلط گرفتاریوں کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔

پاکستان میں جادو ٹونا کے خلاف قوانین ایک نئے موڑ پر کھڑے ہیں۔ اگر بل پاس ہوا تو سخت سزاؤں اور جرمانے سے تجربہ کرنے والوں کے خلاف واضح قانونی راستہ ممکن ہوگا۔ تاہم اس کے نفاذ میں قانونی وضاحت، انسانی حقوق کا تحفظ، اور اسلامی تعلیمات کی پاسداری کو یقینی بنانا چیلنج رہے گا۔

پاکستان میں جادو ٹونا کرنے اور کروانے والوں کی تعداد کتنی ہے؟

پاکستان میں جادو ٹونا کے حوالے سے اگرچہ کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں، لیکن مختلف تحقیقی رپورٹس اور مشاہدات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں جادو، سحر اور عاملوں پر یقین رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی ایک تحقیق کے مطابق دیہی علاقوں میں تقریباً 55 فیصد اور شہری علاقوں میں 45 فیصد افراد جادو ٹونا پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان کی کل آبادی کو مدِنظر رکھا جائے تو اندازاً 12 سے 13 کروڑ افراد کسی نہ کسی درجے میں جادو یا روحانی اثرات پر یقین رکھتے ہیں۔ اس قدر بڑی آبادی میں سے لاکھوں افراد مختلف پیروں، عاملوں، نجومیوں یا روحانی معالجین سے رجوع کرتے ہیں۔

مختلف میڈیا رپورٹس کے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں کم از کم 60 ہزار سے لے کر 1.

2 لاکھ کے درمیان ایسے افراد یا جعلی عاملین موجود ہیں جو جادو ٹونا، بندش، تعویذ، سحر اور  ایسی ہی دیگر ’خدمات‘ فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

 صرف پنجاب میں 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق 10 ہزار سے زائد ایسے عاملین رجسٹرڈ یا فعال تھے۔ چونکہ یہ سرگرمیاں زیادہ تر غیر رسمی طریقے سے کی  انجام دی جاتی ہیں، اس لیے ان کی درست تعداد معلوم کرنا مشکل ہے، تاہم سوشل میڈیا، اشتہارات اور اخبارات میں ان کی موجودگی سے یہ واضح ہے کہ جادو ٹونا کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ اور ان کا اثر عام زندگی پر خاصا گہرا ہے۔

 متحدہ عرب امارات میں جادو ٹونے پر مقدمہ

جولائی 2023 میں متحدہ عرب امارات کی عدالت نے 7 افراد کو گرفتار کیا جو دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے پاس ’400 سال پرانا جن‘ تھا اور وہ جادو ٹونا کر رہے تھے۔ انہیں 6 ماہ قید اور 50 ہزار درہم جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ اگرچہ یہ پاکستان کا کیس نہیں لیکن یہ بتاتا ہے کہ خطے میں جادو ٹونے کے مقدمات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔

یو اے ای میں جادو ٹونے کے خلاف کیا قوانین ہیں؟

یو اے ای میں جادو ٹونا اور اس کے متعلق کام کرنے والوں کے خلاف قانون نہ صرف واضح اور مخصوص ہے، بلکہ اس پر کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ 2021 کے قانون سازی کے بعد سے یہ جرم سزا یافتہ، ضبط شدہ، اور غیر ملکیوں میں ڈیپورٹیشن لاگو کرنے والا جرم بن چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے نائجیرین نژاد برطانوی مصنفہ جو اپنی ہی لکھی کہانیاں پڑھ کے ڈر جاتی ہیں

یو اے ای میں جادو ٹونا (سورکری یا وِچرکرافٹ) کے خلاف قوانین حالیہ برسوں میں سخت تر ہو چکے ہیں۔ وہ کونسے قوانین ہیں؟ آئیے جانتے ہیں:

1۔ Federal Decree‑Law No. 31 of 2021 (Crimes & Penalties Law)، آرٹیکل 366

اس قانون کے تحت ’ماڈک یا جگلری‘ (جادو ٹونہ یا جادو کے عمل) کو براہِ راست جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسے کرنے یا اس کے ذریعے کسی انسان کے جسم، دل، ذہن یا مرضی کو متاثر کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کم از کم AED 50,000 جرمانہ اور قید کی سزا دی جاتی ہے، اور غیر ملکی مجرمین کی صورت میں ڈیپورٹیشن بھی ہوتی ہے، جبکہ جادوئی آلات ضبط کر کے تلف بھی کیے جاتے ہیں۔

2۔ آرٹیکل 367 – اشتہاری، معاون یا سمگلنگ اقدامات شامل

یہ دفعات ان لوگوں پر لاگو ہوتی ہیں۔ جو دوسروں سے جادو کروانے میں معاونت کرتے ہیں، جادوئی کتابیں، تعویذ یا آلات درآمد یا فروغ کرتے ہیں، یا اشتہاری سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان پر قید اور/یا جرمانہ لاگو ہوتا ہے ۔

پاکستان میں جادو ٹونے کے الزام میں گرفتاری اور مقدمات تو ہوتے ہیں، مگر زیادہ تر کیسز  سے ’قتل‘، ’دھوکہ‘، یا ’فراڈ‘ جیسی دفعات کے تحت نمٹا جاتا ہے۔ صرف جادو/سحر کی خاص تعریف یا سزا موجود نہیں، جس کی وجہ سے سزائیں متفرق اور روایتی قانونی فریم ورک کے تحت ہوتی ہیں۔ یو اے ای کی مثال مؤثر ہو سکتی ہے، مگر پاکستان میں اس موضوع پر مخصوص قانون سازی ابھی تک مکمل طور پر نافذ نہیں۔

بعض پاکستانی ماہرین اس طرح کے جادو، ٹونا اور عملیات کرنے والوں کے خلاف نہ صرف کریک ڈاؤن سے اتفاق کرتے ہیں۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس سب کے خلاف باقاعدہ قانون ہو جس کے تحت کاروائی کی جا سکے۔ تاکہ جعلی پیروں، اور غلط عملیات کرنے والوں کا خاتمہ ہو سکے۔ مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے۔ جب حکومتی سطح پر اس کے خلاف سنجیدگی سے قوانین بنائے جائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جادو ٹونے کے خلاف قوانین جادو، ٹونا، عملیات

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جادو ٹونے کے خلاف قوانین پاکستان میں جادو ٹونا میں جادو ٹونے کے کے خلاف قوانین جادو ٹونا کے جادو ٹونا کر کرنے والوں کے مطابق کرتے ہیں یو اے ای جادو کے قید اور سکتی ہے سکتا ہے کے تحت

پڑھیں:

الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹ میں ترمیم کا اعلان آئین کی خلاف ورزی ہے، مہوا موئترا

عرضی میں اعتراض ظاہر کیا گیا کہ ملک میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ جس نے پہلے کئی بار ووٹنگ کئے ہیں تب بھی اسے اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بہار اسمبلی انتخاب سے پہلے ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر سیاسی ہنگامہ برپا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں ترمیم کا اعلان کیا ہے، جس کا کئی اپوزیشن پارٹیاں مخالفت کر رہی ہیں۔ وہیں اب ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ مہوا موئترا نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ مہوا موئترا نے اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر عرضی میں مہوا نے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 32 کے تحت مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی ہے، یہ عرضی الیکشن کمیشن کے 24 جون 2025ء کو جاری کئے حکم کے خلاف ہے جس میں ووٹنگ لسٹ میں نظرثانی کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ حکم دفعہ 14، 19 (1) (اے) اور 325  و 328 کی خلاف ورزی ہے۔

اس سے بڑی تعداد میں ووٹر اپنی حق رائے دہی کا استعمال نہیں کر سکیں گے، جس سے نہ صرف جمہوریت کا وقار مجروح ہوگا بلکہ شفاف انتخابی نظام پر سوال کھڑے ہوں گے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے مہوا موئترا نے لکھا کہ ریاست بہار میں ایس آئی آر منعقد کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو چیلنج دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے اور بنگال سمیت دیگر ریاستوں میں بھی ایس آئی آر منعقد کرنے پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عرضی میں اعتراض ظاہر کیا گیا کہ ملک میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ جس نے پہلے کئی بار ووٹنگ کئے ہیں تب بھی اسے اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا جا رہا ہے۔

عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹ سے نام ہٹانے یا جوڑنے کا عمل صرف RER ضابطہ، 1960ء کے ضابطے 21 اے اور ضابطے 13 پڑھے جانے والے فارم 7 کے تحت ہی کی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ایسے ہی عمل دوسری ریاستوں میں نافذ کرنے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔ مغربی بنگال میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، الیکشن کمیشن کے عمل پر اپوزیشن سیاسی جماعتیں مسلسل سوال کھڑی کر رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بریڈ پٹ کی فلم ’F1‘ نے دنیا بھر سے کتنے ملین ڈالرز کمالیے؟
  • الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹ میں ترمیم کا اعلان آئین کی خلاف ورزی ہے، مہوا موئترا
  • بی جے پی ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ایم کے اسٹالن
  • پاکستان کو ٹونا مچھلی کی برآمد سے 200 ملین ڈالرز آمدن متوقع
  • برطانیہ میں فلسطین ایکشن گروپ پر پابندی برقرار،حمایت پر قید کی سزائیں ہونگی
  • پاکستان میں سونا مزید سستا،فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟
  • لیاری واقعہ: عمارت میں ہر فلور پر کتنے گھر تھے؟ عمارت کی مالکن خاتون کے عزیز نے کیا بتایا؟
  • ٹک ٹاک پر وڈیو اپ لوڈ کرنے پر دو نوجوانوں پر بہیمانہ تشدد
  • فرانس نےمعروف سرچ انجن گوگل پر پر بھاری جرمانہ عائدکر دیا