Juraat:
2025-06-01@13:37:19 GMT

لگا ہے مصر کا بازار یکھو !

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

لگا ہے مصر کا بازار یکھو !

ایم سرور صدیقی

تاریخ بتاتی ہے قدیم ادوارمیں غلاموں کی منڈی لگا کرتی تھی۔ خریدار برہنہ،نیم برہنہ سودادیکھ کرمال کی قدرو قیمت کا اندازہ لگاتے، ان کی جانب فحش جملے اچھالتے ۔ خوبصورت لونڈے ،متناسب بدن لڑکیاں،جفا کش مرد اور خواجہ سراکی قیمت اچھی مل جایا کرتی تھی۔ یونانی تہذیب سے لیکر مصرکے بازار اوردور ِ حاضر تک یہ منڈیاں کسی نہ کسی صورت آباد ہیں۔ خوبصورت لونڈوں اورمتناسب بدن لڑکیوں کی خریداری لوگ اپنی جنسی تسکین،جفا کش مرد مزدوری کیلئے اور خواجہ سرا گھریلو کام کاج کیلئے کرتے تھے ۔
مذہب اسلام نے انسانوں کی خرید و فروخت کوممنوع قرار دینے ہوئے اسے انتہائی مکروہ فعل گرداناہے۔ خود نبی اکرم ۖ اورمتعدد صحابہ کرام نے درجنوں غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرکے انہیں اپنی مرضی سے جینے کا حق عطا فرمایا۔ خلیفة المسلین حضرت عمر فاروق کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کوآزاد پیدا کیا،انہیں کسی کو بیچنے کا کوئی حق نہیں۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے انسانوں کی خرید وفروخت کا شمار دنیا کے اولین کاروبار میں کیا جا سکتاہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ کاروباربڑھتا،پھلتا اور پھولتا گیا۔ یہ سب کچھ اس لئے یاد آیا کہ چندسال پہلے دنوں ایک چونکا دینے والی خبر پڑھی تھی۔ سندھ میں عورتوں کی منڈی لگتی ہے یعنی پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں بھی مصر کا بازار سجایا جاتا ہے۔ خبرکے مطابق پنجاب میں گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیاں 3سے 5لاکھ میں فروخت کردی جاتی ہیں۔ اس وقت داتا دربار لاہور میں 3بڑے گینگ سر گرم ِ عمل ہیں جن میں کچھ پولیس اہلکار اور متعدد عورتیں بھی شامل ہیں ۔درجنوں لڑکیاں باقاعدہ منڈی لگا کر بیچ دی گئیں ۔یہ سنسی خیز انکشافات رحیم یار خان سے برآمدہونے والی 2سگی بہنوں نے کئے تھے ۔
ماضی کو چھوڑیں آج بھی یہ قبیح کاروبار کسی نہ کسی انداز میں جاری ہے بلکہ یہاں تک کہا جاتاہے بردہ فروشوں کو بااثر شخصیات اور بعض پولیس اہلکاروں کی سر پرستی حاصل ہوتی ہے۔ یہ لوگ گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیوںاور درباروں پر سلام کیلئے آنے والی بھولی بھالی نو عمر بچیوں کو اپنی ساتھی عورتوں کی مدد سے ورغلا کرانہیں بیٹی بنالیتے ہیں اور قریبی کرائے کے مکانوں میں لے جاتے ہیں پھر لڑکیوں کو بے ہوش کردیا جاتاہے اور موقع پاکر بیچ دیا جاتا ہے۔ آئے روز اخبارات میں ایسی ا سٹوریاں چھپتی رہتی ہیں دنیا کے کسی نہ کسی علاقہ میں کہیں نہ کہیں ضرور مغوی لڑکیوں کی منڈیاں لگتی ہیں۔ یہ بات وہاں کی شنید ہے بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے چھوٹی عمرکی لڑکیوں کو 3سے 5لاکھ میں خرید کر اپنے ساتھ لے لیتے ہیں اور ان کو عیاشی کیلئے استعمال کیا جاتاہے ۔ بھاگنے کی کوشش میں اکثر لڑکیاں قتل ہوجاتی ہیں۔عورتوں کی خریدو فروخت اور جسم فروشی دنیا کے قدیم ترین کاروبار اور پیشے ہیں ۔پوری دنیا میں ایسے بہت سے گیسٹ ہاؤس،ہوٹل اور گلی محلوں میں یہ کام ہوتاہے ۔آئے روز چھاپے بھی پڑتے ہیں لیکن یہ دھندا ختم نہیں ہونے میں آتا ۔دراصل جن ممالک میں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہو، لوگوں کیلئے غربت جرم بن جائے ،جہالت اوربیروزگاری ہو، وہاں اس مکروہ کاروبارکو پنپنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یقیناایسے واقعات ہمارے معاشرہ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہیں لیکن اس کے باوجودآئے روزایسے انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔
دراصل یہ معاملات لاقانونیت کے باعث رونما ہوتے ہیں جس ملک میں قانون کو موم کی ناک بنا دیا جائے ۔ بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، افریقہ اور نہ جانے کون کون سے ممالک ایسے ہیں، جہاں ایسی منڈیاں لگتی ہونگیںاور عورتیں غلاموں کی طرح بیچ دی جاتی ہیں۔ دراصل عورتوں کی خرید و فروخت دنیا کا قدیم ترین کاروبار ہے جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوان ہوتا چلاجارہاہے۔ شنید ہے خلیجی ممالک میں بے آسرا،غریب اور لاوارث خواتین کی خاصی مانگ ہے دراصل اس مکروہ کاروبار جس کے پیچھے ایک طاقتور مافیا سرگرم ِ عمل ہوتا ہے جس میں ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے پیسے کے پجاری شامل ہوجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بنگلہ دیشی عورتیں کم قیمت پرمل جاتی ہیں لیکن اس میں بردہ فروشوں کو بھاری منافع ہوتاہے جبکہ غریب،لاوارث بھارتی، افغانی، پاکستانی خواتین کو نوکری دلانے یا پھرماڈلنگ اور فلموں میں کام دلانے کا جھانسہ دیکر آگے بیچ دیاجاتاہے پھر ان سے جسم فروشی کروائی جاتی ہے اور زیادہ خوبصورت خواتین کو کلبوں میں ڈانس کیلئے منتخب کرلیا جاتاہے ،جن ممالک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہو، وہاں قانون اپنے فیصلے کر کے سکون سے خراٹے مارتارہتاہے ۔ اور جب خریداروں کا دل کسی کھلونے سے بھر جاتاہے تو وہ اپنے کسی دوست کو تحفے میں دیدیتا ہے اور ایسے حسین تحفوں کا تبادلہ ہوتا رہتاہے ۔جب ہم یہ پڑھتے اور سنتے ہیں کہ مسلم تاریخ میں ایک عورت کی فریاد پر سندھ پر چڑھائی کا حکم دے دیا جاتاہے ۔توآج کے حالات،،اداروں کی بے بسی اور بے حسی دیکھ کر دل کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ہماری روایات ہیں۔یہ جذبہ اتنی غیرت۔اتنی جرأت کہاں گئی؟
اسلام نے تو عورت کو جتنی عزت سے نوازا اس سے پہلے کسی مذہب نے اتنی توقیر نہیں دی لیکن پیسے کی ہوس میں دن بہ دن اخلاقی اقدار ختم ہو تی جارہی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے ایسا کیوں ہے ؟ اس میں پورا معاشرہ ذمہ دارہے ہر شخص،ہر مکتبہ ء فکر ہر ادارے کواس کیلئے اپنا کردار فعال طریقے سے ادا کرناہوگا۔خاص طور پر حکومت کو چاہیے کہ قانون پر سختی سے عمل کروائے جب تک قانون سب سے ایک جیسا سلوک نہیں کرے گا، قانون کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہو گا۔ قانون کا خوف اور سزا کا ڈرہی معاشرے میں اطمینان کا سبب بن سکتاہے۔ ورنہ یہ سلسلہ دراز رہاتو معصوم،بھولی بھالی لڑکیاں اغواء ہوتی رہیں گی ۔دور دراز علاقوں میں انسانوں کی خرید و فروخت کیلئے منڈیاں لگتی رہیں گی اورایک وقت ایسا بھی آسکتاہے ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں ہوسکے گا۔وقت ہاتھ سے نکلتا جارہاہے ،اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کیلئے کچھ توہاتھ پاؤں مارنے چاہئیں۔ برصغیرمیں اولیاء کرام کے مزارات، شاپنگ مال،ریلوے اسٹیشنوں، لاری اڈوں اور دیگر پبلک مقامات پرگاہے بگاہے کمانڈو طرزکا ایکشن لیا جائے ۔ سماج دشمن عناصر اور انسانیت کے دشمنوں کی سرکوبی کیلئے آخری حد تک جانا پڑے تو دریغ نہ کیا جائے بلکہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے تو ان مقامات کو واچ کرتا رہے ۔اس کے ساتھ ساتھ تمام پبلک مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے جائیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کوآزاد پیدا کیاانہیں کسی کو بیچنے کا کوئی حق نہیں، کا فلسفہ حکمرانوں کی سمجھ میں آگیا تو انسانوں کی منڈیاں لگنا بندہو جائیں گی۔
۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: انسانوں کی عورتوں کی جاتی ہیں کی خرید

پڑھیں:

قصہ مولانا طارق جمیل کی ناراضی کا

سوشل میڈیا پر ممتاز واعظ اور عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب کی ایک آڈیو وائرل ہے، جس میں مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت پاکستان کے ذمہ داران سے اپنے گلے شکوے کر رہے ہیں۔ کہیں تیرہ منٹ اور کہیں پندرہ منٹ کی آڈیو دستیاب ہے جو مولانا کے دو تین مختلف میسجز کو جوڑ کر بنائی گئی۔

مولانا کے صاحبزادے مولانا یوسف جمیل کی ایک باون منٹ طویل آڈیو بھی منظر پر آ چکی ہے جو غیر ضروری طوالت، بوریت اور بے مغز گفتگو کا ایک “مثالی” نمونہ ہے۔ حیرت ہے کہ مولانا طارق جمیل جیسے مقبول اور دلچسپ گفتگو کرنے والے واعظ کا بیٹا ایسی بے رس، کشش سے عاری گفتگو کرتا ہے۔

مولانا طارق جمیل کی آڈیو کا جواب بھی کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر دیا ہے۔ بعض نے ان پر تندوتیز حملے کئے ہیں۔ حیرت انگیز طور سے مولانا فضل الرحمن کی جے یوآئی کے لوگ اس میں پیش پیش نظر آئے ہیں۔ لگتا ہے وہ مولانا طارق جمیل سے خاصے عرصے سے ناراض تھے اور اب انہیں اپنا غصہ نکالنے کا موقعہ ملا ہے۔ ان لوگوں نے باقاعدہ مولانا طارق جمیل کو سوشل میڈیا پر ٹرول کرنے کی کوشش کی۔ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ مولانا طارق جمیل نے ایک دو بار عمران خان کے حق میں بات کی اور جب وہ وزیراعظم تھے تب مولانا ان سے جا کر ملے اور خان کی تعریف کی۔ تب سے مولانا فضل الرحمن کے حامی مولانا طارق جمیل سے خفا اور ناخوش تھے۔

مولانا طارق جمیل کی آڈیو پرتنقید کرنے والی ایک ویڈیو میں ایک مولوی صاحب نے سیدھا مولانا کو گستاخ صحابہ قرار دے دیا۔ معلوم نہیں یہ مبنی بر غلط نتیجہ کہاں سے اخذ کیا گیا؟ بات وہی ہے کہ ہمارا مذہبی طبقے کا ایک حصے مخالفت میں شدت اور انتہا تک چلا جاتا ہے اور اس میں وہ فتوے بازی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ البتہ بعض لوگوں نے اس حوالے سے معتدل بات کی ہے اور مولانا طارق جمیل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کے ساتھ اپنے ان اختلافات کو منظرعام پر نہ لے آتے ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ معاملہ کمرے میں بیٹھ کر سلجھانے والا ہے نہ کہ سوشل میڈیا پر بات کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

مولانا طارق جمیل کا میں کوئی خاص مداح نہیں ہوں، ملی جلی درمیانی سی بلکہ کہہ لیں ایک غیر جانبدار سی معتدل رائے ان کے بارے میں ہے۔ وہ اچھے واعظ ہیں، ہمارے گھر میں ان کی تقریریں میری خوشدامن صاحبہ شوق سے سنتی ہیں، کبھی اہلیہ بھی سن لیتی ہیں۔رمضان میں اکثر ایسا ہوتا ہے۔ کبھی خاکسار کو بھی یہ ان سب کی معیت میں یہ ’’سعادت‘‘ نصیب ہو جاتی ہے۔ کبھی ہم سنتے رہے اور کبھی کچھ دیر کے بعد آرام سے چینل تبدیل کر ڈالا۔ یہی رویہ جناب ڈاکٹر زاکر نائیک کے حوالے سے بھی روا رکھتے ہیں۔ احترام کے ساتھ مناسب فاصلہ۔

مولانا کا مخصوص تبلیغی جماعت والا سٹائل ہے ، ایک بات مجھے اچھی لگی کہ انہوں نے سوشل موضوعات پر زیادہ تقریریں کی ہیں۔ وہ خواتین کے حق میں بڑا کھل کر بات کرتے ہیں، مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کرتے ہیں، نرمی، حسن اخلاق ، دیانت داری اور دیگر اوصاف جن کا تعلق معاملات سے ہے، ان کی تاکید کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے، عام طور پر ہمارے مولوی صاحبان ان اہم ایشوز پر زیادہ فوکس نہیں کرتے۔ مولانا طارق جمیل کی یہ بات اچھی لگی۔

مولانا طارق جمیل میں اہل بیت کے لئے گہری محبت جھلکتی ہے، اس حوالے سے انہوں نے کئی بڑی شاندار تقریریں بھی کر رکھی ہیں۔ ویسے کون سا مسلمان ہوگا جسے اہل بیت اور آل رسول ﷺ سے محبت نہیں ہوگی۔ اس کے بغیر تو ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ اہل بیت اور صحابہ سے محبت ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔

مولانا طارق جمیل کا طرز استدلال روایتی ہے،فکر بھی روایتی ہے۔ سیاستدانوں اور لیڈروں سے وہ ملتے جلتے رہتےہیں، مگر ہمارے جیسے لوگوں کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ داعی کے طور پر انہیں اہم حلقوں میں جانا چاہیے۔ وہ ماضی میں میاں نواز شریف سے ربط رکھتے تھے یاعمران خان سے رابطے میں رہے، چودھریوں کے ساتھ بھی ملتے رہے۔ ٹھیک ہے۔

مولانا طارق جمیل کی جانب سے شریف خاندان سے ملاقاتوں ، ان کے لئے دعا کرنے پر کوئی اعتراض ہونا چاہیے اور نہ ہی عمران خان یا کسی اور سیاستدان سے ملنے جلنے ، ان سے حسن ظن رکھنے پر کوئی شکوہ کیا جائے۔ س حوالے سے ایک داعی کو سپیس ملنی چاہیے۔ عمران خان سے ملاقات اور ریاست مدینہ کے حوالے سے ان کے تصور کی تحسین کے باوجود کہیں پر کسی بھی جگہ مولانا طارق جمیل نے شریف خاندان یا دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک جملہ یا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ یہ اہم نکتہ ہے۔

چند سال قبل مولانا طارق جمیل کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک کمپین چلی تھی جب یہ خبر آئی کہ کپڑوں کا ایک برانڈ انہوں نے کراچی کے کسی کاروباری کے ساتھ مل کر شروع کیا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مولانا طارق جمیل کے کپڑوں کا کاربار کرنے کے فیصلے پر سوشل میڈیا میں بعض احباب نے غیر ضروری طنزیہ پوسٹیں لگائیں۔ اس کی وجہ ناقابل فہم لگی۔ کاروبار کرنا ہر ایک شخص کا حق ہے، مولانا طارق جمیل کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نام کا برانڈ لے آئیں۔

مولانا کی جانب سے وضاحت آئی کہ اس آمدنی کو وہ خیراتی مقاصد کے لئے استعمال کریں گے۔ اس کا انہیں حق ہے، مگر کاروبار کر کے خوشحال ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ہمارے اکابر علما کاروبار کرتے رہے اور آمدن کا بڑا حصہ خیراتی امور پر بھی خرچ ہوتا رہا، مگر وہ اپنے اور اہل خانہ کی کفالت بھی اسی سے کرتے تھے۔

مجھے تو لگتا ہے کہ مولانا طارق جمیل کی ایک ہی بڑی خامی اور کمزوری ہے۔ ان کی عوامی مقبولیت۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین مقررین میں سے ایک ہیں۔ ان کی گفتگواور تقریر کے لاکھوں بلکہ شائد کروڑوں مداح ہیں۔ ایسی مقبولیت، شہرت اور نیک نامی ہمارے قریب کے زمانے میں شائد ہی کسی کو ملی ہو۔

مولانا طارق جمیل نے تبلیغ میں بہت وقت لگایا، ان کی تین چوتھائی زندگی اسی میں صرف ہوگئی۔ خود کہتے ہیں کہ اٹھارہ انیس برس کی عمر سے اس طرف لگے اور اب وہ ستر کے پیٹے میں ہیں، پچاس پچپن برس انہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ لگا دیے۔

پچیس چھبیس سال قبل شیخ زائد ہسپتال کے چند ڈاکٹروں کے ساتھ ہمیں بھی ایک سہہ روزہ لگانے کا موقعہ ملا۔ اس سفر میں مولانا طارق جمیل کے بارے میں کئی کہانیاں سنیں۔ وہ زمیندار گھرانے کے فرزند ہیں، غالباً میڈیکل کے طالب علم تھے کہ تبلیغ جماعت کے سحر میں گرفتار ہوئے ۔ اپنی پڑھائی چھوڑ کر دینی تعلیم حاصل کی اور پھر تبلیغی مرکز کی طرف ایسے متوجہ ہوئے کہ مڑ کر نہیں دیکھا۔

مولانا طارق جمیل کو شہرت ممکن ہے ابتدا میں تبلیغی جماعت کی وجہ سے ملی ہو، مگر ہم نے تو طویل عرصے سے ان کی وجہ سے لوگوں کو تبلیغی جماعت اور دین کی طرف متوجہ ہوتے دیکھا ہے۔ ان کی سوشل ایشوز پر کی گئی تقریروں نے بہت لوگوں کو تبدیل کیا۔ مرد حضرات نرم خو ہوئے، خواتین کے ساتھ ان کا برتائو بہتر ہوا۔ اسی طرح ٹی وی چینلز پر مولانا طارق جمیل کی تقریروں کی وجہ ان کی تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستگی ہرگز نہیں۔ وہ ذاتی طور پر ایک قدآور بلکہ دیوقامت مبلغ، مقرر اور واعظ بن چکے ہیں۔

کہتے ہیں ہر چیز کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ عوامی مقبولیت اور پزیرائی کی قیمت اکثر دوسروں کے حسد اور کبھی نفرت کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ مولانا طارق جمیل بھی لگتا ہے بہت سوں کے حسد کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی دوسرے کا چراغ جلنا آسان نہیں۔ ایسے میں اچھے بھلے لوگوں کی انا مجروح ہوتی ہے اور وہ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مولانا طارق جمیل نے اپنی ویڈیو میں جو شکوے کئے وہ ان کے درد دل ، کرب اور تکلیف کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ سب وہ کئی برسوں بلکہ شائد عشروں سے سہہ رہے تھے۔ پہلے شائد ایسا کرنے والے نسبتاً بڑے لوگ ہوں گے ، ان کا اختلاف بھی شائد کسی قرینے سے ہوگا، اب تو لگتا ہے اپنی انا کے اسیر اوسط درجے کے لوگ اس ڈھلتی عمر میں مولانا طارق جمیل پر حملہ آور ہوئے ہیں تو ان کی برداشت بھی جواب دے گئی ۔

مفتی زاہد صآحب کا تعلق فیصل آباد کی معروف دینی درسگاہ سے ہے، وہ ایک متین، نہایت معقول اور مدلل گفتگو کرنے والے معروف دینی سکالر ہیں۔ ان کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں بلکہ غالباً اس کے ناقدین میں ہیں۔ انہوں نے مولانا طارق جمیل کے حوالے سے تازہ قضیہ پر اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے، ” مولانا طارق جمیل صاحب کے ساتھ مانسہرہ میں کیا ہوا، اس کے بعد مولانا نے کیا کہا اور ان کی حمایت اور مخالفت میں کیا کہا گیا ان میں سے کسی چیز پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا تاہم ایک تصحیح ضروری ہے وہ یہ کہ موجودہ تناظر میں مولانا کی جو خامیاں بیان کی جا رہی ہیں کہ انھوں نے ایک سیاسی پوزیشن لی ہوئی ہے، وہ میڈیا اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، وہ یو ٹیوب پر کاپی رائٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے بیٹے کے بہت زیادہ زیرِ اثر ہیں، وہ بیٹے کے دباؤ میں فاؤنڈیشن کے لیے فنڈ ریزنگ کرتے ہیں ان معاملات پر آپ کی جو بھی رائے ہو میں کچھ نہیں کہتا البتہ تبلیغ والوں کے ہاں مولانا کی معتوبیت ان تمام چیزوں کے پیدا ہونے سے بہت پہلے کی ہے۔

کم از کم اکیسویں صدی کے اوائل سے یعنی ربع صدی سے تو میں جانتا ہوں کہ وہ کئی تبلیغی حضرات کے ہاں کھٹکتے رہے ہیں اور کم از کم یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ مولانا نے بہت برداشت کا ثبوت دیا اور انھوں نے نظم کی اطاعت کی. اس کھٹک میں آپ جسے بھی حق بجانب سمجھیں لیکن معاملہ مذکورہ بالا وجوہات پیدا ہونے سے بہت پرانا ہے، لہذا اس فلسفے کو درمیان میں نہ لایا جائے تو بہتر ہے۔”

میرا خیال ہے کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل ہونا چاہیے۔ رائے ونڈ مرکز کے ذمہ داران اگر اپنا دل بڑا اور ظرف کشادہ کر سکیں تو بات بڑی نہیں۔ مولانا طارق جمیل جیسے بڑے اور ہردلعزیز مقرر کو جو فنافی التبلیغی جماعت ہے ، اسے بیان کا موقعہ دینے میں کوئی حرج ہے نہ نقصان کا اندیشہ۔

مولانا طارق جمیل کو بھی چاہیے کہ وہ اس موضوع پر مزید کوئی آڈیو یا ویڈیو میسج سوشل میڈیا پر نہ دیں۔ اس سے بہرحال تبلیغی جماعت کے مقصد اور ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ ایسا کہ بعد میں مولانا طارق جمیل خود بھی چاہنے کے باوجود اسے بحال نہیں کر پائیں گے۔
یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس طرح اگر دینی طبقے میں اختلافات منظر عام پر آئیں تو اس سے مذہب بیزار اور علما کا تمسخر اڑانے والے احباب ہی خوش ہوں گے۔ اہل مذہب اور علما کے مداحین کا تو دل ہی دکھے گا۔ اللہ والوں اور اللہ کے دین کا کام کرنے والوں میں انتشار کی خبروں سے دلی کرب اور پریشانی ہی لاحق ہوگی۔ اللہ پاک ہم سب پر رحم فرمائے، آمین۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کم سن بچیوں کی شادی کا قانون ؛ آئین اور اسلام سے متصادم قانون کو تسلیم نہیں کرتے؛ مولانا فضل الرحمان
  • پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے، پروفیسر ابراہیم
  • جے یو آئی نے 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کا بل مسترد کردیا، مزاحمت کا اعلان
  • لاہور میں گراں فروشی کا بازار گرم، ماڈل بازار بھی مہنگائی کی لپیٹ میں آگیا
  • پاکستان ٹیم ٹی20 میں اوپنرز کی طرف سے مضبوط آغاز کیلئے ترس گئی
  • شہداء کانفرنس کے بعد احسان ایڈووکیٹ کی رہائی کیلئے تحریک چلائیں گے، سید علی رضوی
  • ٹیرف پر مذاکرات کیلئے پاکستانی حکام آئندہ ہفتے ڈیل کیلئے امریکہ آئیں گے، ٹرمپ
  • قصہ مولانا طارق جمیل کی ناراضی کا
  • کراچی: چوری کی گئی قربانی کی گائے تین گھنٹے میں برآمد، ملزم گرفتار