سانحہ قلات میں جاں بحق قوال کے گھر پر فاقے، حکومتی رویے اور امداد نہ کرنے پر احتجاج کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
قوال ماجد علی صابری نے سانحہ قلات کا ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود وفاق یا صوبائی حکومت کی جانب سے دادرسی نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پریس کلب کے احتجاج اور علامتی دھرنے کا اعلان کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ماجد علی صابری نے وفاقی وصوبائی حکومتوں کی ایک ہفتے سےزائد عرصہ گزرنے کےباوجود دادرسی کے لیےامدادی اعلان نہ ہونے کے خلاف جمعے کوکراچی پریس کلب کےباہرآلات موسیقی اورسازندوں کے ہمراہ احتجاج،علامتی دھرنا دینے کی دھمکی دے دی۔
قوال ماجد علی صابری نے کہا کہ قوالی کی محفلوں میں پرفارمنس پرپذیرائی کے بعد ملنے والے سرٹیفکیٹس سے بھوک وافلاس نہیں مٹ سکتی۔
قوالی کے معروف گھرانے ماجد علی صابری قوال گروپ نے سانحہ قلات میں ایک ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود 3 قیمتی جانوں کے ضیاع اوراسپتال میں زیرعلاج (بشمول ایک انتہائی نازک حالت)5 زخمیوں کے لیےوفاقی وصوبائی حکومتوں کی جانب سےدادرسی کے لیے کسی بھی امدادی اعلان نہ ہونے کےخلاف بعد نمازجمعہ کراچی پریس کلب کے باہرپرامن احتجاج وعلامتی دھرنےکی دھمکی دے دی۔
قلات واقعے میں متاثرہ قوال گروپ کے سربراہ ماجد علی صابری کا ایکسپریس نیوزسے گفتگومیں کہنا تھا کہ اگرفوری مالی امداد اورمعاوضے کا اعلان نہ کیا گیا تووہ آلات موسیقی اورسازندوں کے ہمراہ کراچی پریس کلب کے باہراحتجاج کرینگے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ پریس کلب کے باہرسازندوں کے ساتھ بیٹھیں گے،جہاں طبلہ،ہارمونیم اورڈھولک کوزمین پررکھ کرخاموشی کے ساتھ علامتی احتجاج کرینگے تاکہ یہ سناٹاحکومتی ایوانوں کوجھنجھوڑسکے۔
ماجد علی صابری کا کہنا ہے کہ ہم نے بارہا حکومت سےمدد کی اپیل کی، جس کے بدلے میں صرف ہمدردی جتائی گئی مگر زمینی حقائق یہ ہے کہ طفل تسلی کے علاوہ عملی طورپرجاں بحق اورزخمیوں کےلیے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بےحسی پرانھیں دکھ کے ساتھ افسوس بھی ہے کیونکہ جاں بحق وزخمی قوالوں کے گھروں میں سوگ کےعلاوہ بھوک کے ڈیرے ہیں، روٹی اوردودھ کے لیےترستے بچے بھوکےسونے پرمجبورہیں، انھیں قوالی کی پرفارمنسز پرسراہتے ہوئے بطورپذیرائی ملنے والے مختلف سرٹیفکیٹس قطعی طورپران کے مسائل اوربھوک اورغربت کا حل نہیں ہے۔
ماجد علی صابری نے کہا کہ ہم سرکاری وظیفہ نہیں مانگ رہے، صرف انصاف چاہتے ہیں،جودہشت گردی کا نشانہ بننے والے ہرشہری کاحق ہے، ہم نے اپنےفن سےملک کا نام روشن کیا،اب وقت ہےکہ حکومت ہماری پکارسنے۔
ماجد علی صابری نےشکوہ کیا کہ شہرمیں فن ادب کے لیے معروف ادارے کی جانب سےبھی غمزدہ خاندان کے لیےکوئی کاوش نہیں کی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماجد علی صابری نے پریس کلب کے اعلان نہ
پڑھیں:
زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے
بلوچستان کا خطہ جہاں کبھی بارشوں کی رم جھم اور برفباری سے وادیاں لہلہاتی تھیں آج خشک سالی کی لپیٹ میں آکر اپنی زرخیزی کھو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنگلی ڈرائی فروٹ جو صرف بلوچستان میں کھایا جاتا ہے
زیارت کے رہائشی اور سیب کے باغ کے مالک مقدس احمد نے کئی دہائیوں سے اپنے باغات کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق زیارت کے سیب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں لیکن اب یہ پہچان خطرے میں ہے۔
مقدس احمد بتاتے ہیں کہ سنہ 2022 کے بعد سے بارشوں کی کمی نے ان کے باغات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر سال باغ کا ایک حصہ سوکھ کر ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والے برسوں میں ہمارے باغات ریگستان میں بدل جائیں گے۔
ان کی آواز میں مایوسی کے ساتھ ساتھ زمین سے جڑی محبت بھی جھلکتی ہے اور یہ تشویش صرف ایک باغبان کی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہزاروں باغبانوں اور کسانوں کی ہے۔
مزید پڑھیے: بلوچستان: قلعہ عبداللہ میں 27 اقسام پر مشتمل انگور کا سب سے بڑا باغ
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹ کا کہنا ہے کہ رواں برس صوبے میں ماضی کے مقابلے میں بارشیں بہت کم ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ چوں کہ بارش کے پانی سے زیر زمین سطح بہتر ہوتی ہے لیکن وہ نہ ہونے کے سبب پانی اب 1000 سے 1500 فٹ نیچے جا چکا ہے۔
ان کے مطابق حکومت نے سولر ٹیوب ویل منصوبوں کا وعدہ کیا تھا مگر اس پر جزوی عملدرآمد ہوا جس سے کسان مزید مشکلات کا شکار ہوئے۔
خالد حسین باٹ نے کہا کہ پانی کی قلت اور برف باری میں کمی کے باعث نہ ڈیم بھر سکے اور نہ ہی زمین کو سیرابی ملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی واقع ہوگئی۔
مزید پڑھیں: فروٹ باسکٹ ’کوئٹہ‘ کا سیب ملک میں سب سے لذیذ، مگر کیوں؟
اس خطرناک صورتحال پر ماہرین بھی متنبہ کر رہے ہیں۔ ماہر ارضیات دین محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے بلوچستان کو شدید متاثر کیا ہے۔
دین محمد کاکڑ نے کہا کہ ملک کے دیگر حصے اس وقت اربن فلڈنگ اور طوفانی بارشوں کا سامنا کر رہے ہیں لیکن بلوچستان مسلسل خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔
ان کے مطابق صوبے کے شمالی علاقوں میں زیر زمین پانی کو سولر ٹیوب ویل کے ذریعے بے تحاشہ نکالا جا رہا ہے مگر اس کی بحالی کے لیے بارشیں نہیں ہو رہیں اور نتیجتاً ہر گزرتے سال پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے۔
دین محمد کاکڑ نے ماضی کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے شمالی اضلاع میں کبھی کاریزوں (زیر زمین آبپاشی کی نقل و حمل کا نظام) کے ذریعے باغبانی ہوتی تھی جہاں پانی کے منظم استعمال نے زراعت کو سہارا دیا مگر آج تقریباً تمام کاریزیں خشک ہیں اور کسان صرف زیر زمین پانی پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر واٹر مینجمنٹ پالیسی نہ بنائی تو آنے والے برسوں میں بلوچستان کے سرسبز علاقے ریگستان کا منظر پیش کرنے لگیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: کوئٹہ کے پھل اسلام آباد میں آن لائن کیسے فروخت ہو رہے ہیں؟
خشک سالی کی یہ داستان بلوچستان کے قدرتی حسن، زراعت اور معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور سیب کے باغات، انگور کی بیلیں اور انار کے باغ سب ہی پانی کے منتظر ہیں۔ مقدس احمد اور ان جیسے ہزاروں باغبان آج صرف بارش کے چند قطروں کی دعا کر رہے ہیں تاکہ ان کے باغات جن پر ان کی نسلوں کی محنت لکھی ہے ہمیشہ سرسبز رہ سکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان سیب بلوچستان فروٹ بلوچستان فصلیں زیارت زیارت سیب