غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ترجیح، ہارون اختر
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر اعظم کے خصوصی معاون ہارون اختر خان نے کہا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے،پائیدار سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کار وں کو پاکستان میں تحفظ کا احساس ہو۔
سرمایہ کاری کی واپسی اور سرمایہ کاری کے تحفظ سے متعلق وزیر اعظم کی دو اہم کمیٹیوں کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمیٹی اجلاسوں کے نتائج کو حتمی شکل دے کر وزیر اعظم کے سامنے مزید پالیسی اقدامات کے لیے پیش کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: بجٹ میں عوام اچھی خبریں سنیں گے، پیٹرول، بجلی کی قیمت، شرح سود میں کمی ہوگی، ، ہارون اختر
اجلاس کا مقصد پاکستان کے سرمایہ کاری دوست ایجنڈے کا فروغ ہے دونوں اجلاسوں میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری، سٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت خزانہ، بورڈ آف انویسٹمنٹ، لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، ریمیٹ اور دیگر سینئر حکام شریک ہوئے.
اجلاس کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی واپسی کو آسان بنانے کے لیے پالیسی تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔اجلاس میں اراکین نے سرمایہ کاری کی محفوظ واپسی کے حوالے سے جامع مشاورت کی اور سرمایہ کاروں کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور ان کے اعتماد میں اضافے کے لیے متعدد قانونی اور پالیسی ترامیم پیش کیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرمایہ کاری کے لیے
پڑھیں:
جماعت اسلامی کی بنگلہ دیشی سیاست میں واپسی، انتخابی رجسٹریشن بحال کردی گئی
ڈھاکہ : بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ملک کی مذہبی سیاسی جماعت جماعتِ اسلامی کی انتخابی رجسٹریشن بحال کر دی ہے۔
اس فیصلے کے بعد جماعت اب دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے کی اہل ہو گئی ہے، جبکہ 2013 میں اسے کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
جماعتِ اسلامی کے وکیل شیشیر منیر نے کہا کہ یہ فیصلہ بنگلہ دیش میں جمہوری، جامع اور کثیر الجماعتی نظام کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
انہوں نے مزید کہا: "ہم امید کرتے ہیں کہ تمام بنگلہ دیشی، چاہے وہ کسی بھی نسل یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، جماعت کو ووٹ دیں گے، اور پارلیمنٹ تعمیری بحث کا مرکز بنے گی۔"
یہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب 27 مئی کو سپریم کورٹ نے جماعت کے رہنما اے ٹی ایم اظہر الاسلام کی سزا کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔ انہیں 2014 میں قتل، ریپ، اور نسل کشی کے الزامات پر سزائے موت سنائی گئی تھی، جو 1971 کی پاک-بنگلہ جنگ سے متعلق تھے۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے اُس جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا، جو آج بھی بہت سے بنگلہ دیشیوں میں غصے اور اختلاف کا باعث بنتا ہے۔
سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے دور میں جماعت پر پابندی لگائی گئی تھی اور اس کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
دوسری جانب، شیخ حسینہ خود اب جرائمِ انسانیت کے مقدمے میں مفرور ہیں۔ ان پر پولیس کے ہاتھوں مظاہرین کے قتل کا الزام ہے، اور ان کے خلاف مقدمہ اتوار سے شروع ہو رہا ہے۔
پراسیکیوشن کے مطابق، حسینہ کے خلاف پانچ الزامات عائد کیے جائیں گے، جن میں قتلِ عام کی سازش، اکسانا، سہولت کاری اور روکنے میں ناکامی شامل ہیں۔
یہ مقدمہ سرکاری ٹی وی چینل پر براہ راست نشر کیے جانے کا امکان ہے۔