Express News:
2025-06-02@07:23:54 GMT

تحریک پاکستان اور سندھ کے اخبارات …شہباز ملک

اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT

 تحریک پاکستان میں جہاں برصغیر کے مشہور عالم اخبارات نے عظیم الشان کردار ادا کیا وہیں دوسرے اخبارات نے بھی بہت موثر کردار نبھایا جو ملک کے مختلف علاقوں سے انگریزی کے علاوہ سندھی، گجراتی، بنگالی و دیگر مقامی زبانوں میں جاری ہوئے تھے۔

اس وقت میرے پیش نظر تحریک میں سندھ کی صحافت کے عظیم الشان کردار کو پیش کرنا ہے، اگرچہ یہ موضوع ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے لیکن چند اخبارات کی خدمات کے تذکرے سے بھی بات کسی حد تک واضح ہو سکتی ہے۔ اگر جائزے کو 1935 سے تھوڑا آگے لے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں سندھ کی صحافتی تاریخ گزشتہ صدی کے آخر سے شروع ہو جاتی ہے جب امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی نے 19 ویں صدی کی آخری دہائی میں سکھر سے ایک انقلابی پرچہ ’’ہدایت الاخوان‘‘ کے نام سے جاری کیا۔

اگرچہ یہ رسالہ چند ماہ سے زیادہ جاری نہ رہ سکا لیکن اس کا نقش بہت گہرا تھا۔ یہ پرچہ تاریخ میں اپنا نام پیدا کر گیا اس سے انقلابی فکر کی ایک ایسی شمع روشن ہوئی جس کے اجالے میں انقلاب پسندوں کا قافلہ چل پڑا، سندھ میں آزاد اور انقلابی صحافت کی یہ ایک مستثنیٰ مثال تھی جو 19 ویں صدی کے اواخر میں ہمیں نظر آتی ہے یہ رسالہ سکھر کے الحق پریس میں چھپتا تھا۔

بیسویں صدی میں سندھ کی صحافت نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لینا شروع کیا۔ در حقیقت سندھ میں صحافت کا یہ پہلا دور تھا جو بمبئی کی سندھ سے علیحدگی کی تحریک تک جاری رہا اس دور میں ملک کی آزادی کے لیے ہندو مسلم صحافت نے کم و بیش یکساں حصہ لیا۔

سندھ کی تاریخ میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے ہندو مسلم صحافت میں نصب العین کی تبدیلی پیدا ہوگئی۔ اس دوران مسلم صحافت کو ہندو پریس کے بارے میں تجربات ہوئے یہی وہ تجربات تھے جنھوں نے رفتہ رفتہ مسلم صحافت کو تحریک پاکستان کی راہ پر ڈالا۔1914 کے لگ بھگ ’’ نو مسلم‘‘ کے نام سے ایک اخبار شیخ عبد اللہ نے جاری کیا تھا۔

شیخ صاحب خود بھی نو مسلم تھے، شیخ عبید اللہ سندھی کی کوششوں سے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا، انھوں نے اپنے اخبار کے ذریعے حریت پسندانہ خیالات، برطانوی استعمارکے خلاف نفرت اور غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں بہترین خدمات انجام دیں۔ خیرپور ریاست کے مسلمانوں نے شیخ محمد سلیمان کی قیادت میں ’’الحق‘‘ جاری کیا۔

اس کے پہلے ایڈیٹر محمد علی خان دہلوی مقرر ہوئے تھے جو بعد میں کونسل کے مشہور و معروف پریذیڈنٹ بنے۔ ’’الحق‘‘ کا اجر حیدر آباد سے ہوا لیکن پھر جلد ہی اسے حیدر آباد سے مستقل طور پر سکھر منتقل کر دیا گیا۔ شیخ محمد سلیمان، بابو سلیمان کے نام سے مشہور تھے انھوں نے اپنی انتھک کوششوں سے اس اخبارکے ذریعے مسلمانوں کے لیے بہترین خدمات انجام دیں۔

ان کے بعد ان کے فرزند شیخ عبدالعزیز نے پریس اور اخبار کا کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس وقت تک حالات بدل گئے تھے اور چونکہ شیخ صاحب بھی آزاد خیال واقع ہوئے تھے۔ انگریزوں کی وفاداری تو کجا وہ ملازمین کے ہمنوا بھی نہ بن سکے اس لیے تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھیں اخبار سے لاتعلق ہونا پڑا۔

شمس الدین سندھ میں اخبار نویسی اور ادب کے ’’بابا آدم‘‘مانے جاتے تھے جب تک وہ اس اخبار کے ایڈیٹر رہے اخبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ عوام میں اسے بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ یہ خبر ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کے لیے سینہ سپر رہتا تھا۔ ’’الحق‘‘ و ’’آفتاب سندھ‘‘ کی بدولت سندھ کے مسلمانوں اور عوام میں سیاسی شعور بڑی حد تک بیدار ہو چکا تھا۔

اس وقت لاہور سے مولانا ظفر علی خان کا اخبار ’’زمیندار‘‘ آیا کرتا تھا، اس نے بھی مسلمانوں میں ایثار اور قربانی کے جذبات پروان چڑھائے تھے، اس لیے حکومت کو ایک ایسے وسیع الاشاعت اخبار کی ضرورت پیش آئی جو برطانوی حکومت سے مسلمانوں اور عوام کی بڑھتی ہوئی نفرت کو پھیلنے سے روکے اور ارباب اختیار سے وفاداری کے جذبات دلوں میں پیدا کرے۔

چنانچہ محمد قادر وزیر ریاست خیرپور کے تعاون سے اس مقصد کے لیے حکومت نے سندھ کے زمینداروں کو اشارہ کیا۔ انھوں نے ماسٹر عبد الوہاب پٹھان کی ادارت میں ’’سندھ زمیندار‘‘ کے نام سے سکھر سے ایک اخبار جاری کیا۔ ماسٹر عبد الوہاب پٹھان نہایت دور اندیش، سنجیدہ شخص تھے، حکومت پر تنقید میں وہ نرم رویہ اختیار کرتے تھے۔ حکومت سے تعلق رکھنے والی تحریروں میں ادب و انکساری کو ملحوظ رکھتے تھے ان کی تحریروں میں جوش اور ولولہ نہ ہوتا تھا۔

آسان سندھی زبان میں مطالب کو ادا کرتے تھے۔ ماسٹر عبدالوہاب کی رحلت کے بعد احمد علی ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ان کے بعد 1928 میں پیر علی راشدی اس کے ایڈیٹر بنا دیے گئے اس زمانے میں اخبار کا سارا انتظام خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کے ہاتھوں میں تھا۔ ’’سندھ زمیندار‘‘ کی تاریخ کا یہ سب سے بہتر دور تھا۔

پیر علی محمد راشدی 1933 تک ’’سندھ زمیندار‘‘ کی ایڈیٹری کے منصب پر فائز رہے۔ متذکرہ اخبارات سے زیادہ مقبول و معروف اخبار ’’الوحید‘‘ تھا جسے سندھ کا سب سے بڑا اخبار ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ اس کے مدیر مولانا دین محمد وفائی تھے جو خود بھی تحریک پاکستان میں سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے اور ’’الوحید‘‘ کے ذریعے بھی تحریک کی ترجمانی کر رہے تھے۔

’’الوحید‘‘ میں سندھ کے بڑے بڑے ادیب و صحافی تحریک آزادی اور ملی و ملکی تحریکات کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً لکھتے اور سندھ کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ ایک مرتبہ مولانا شوکت علی نے کہا تھا کہ سندھ میں ’’الوحید‘‘ اس طرح ہے جس طرح جان کے اندر روح اور سندھ کا مطلب ’’الوحید‘‘ اور ’’الوحید‘‘ کا مطلب سندھ ہے۔

1943 میں ’’الوحید‘‘ سے جب مولانا وفائی کا قطع تعلق ہوا تو اللہ بخش سومرو کے جاری کردہ روزنامہ ’’آزاد‘‘ میں شریک ہوئے۔ ’’الوحید‘‘ کی ادارت کے فرائض ابتدائی ایام میں مولانا عبد الکریم چشتی نے بھی سر انجام دیے۔ مولانا کریم چشتی تحریک پاکستان کے ایک اہم رکن تھے، سندھ میں ایسی کوئی ملی تحریک نہیں جس میں انھوں نے حصہ نہ لیا ہو۔

اگست 1927 میں انھوں نے جیکب آباد سے صداقت اخبار جاری کیا لیکن 5 ماہ بعد ’’الحنیف‘‘ کے مدیر جناب ٹانوری کے حوالے کر دیا۔ جتنے عرصے مولانا اس کی ادارت میں رہے اخبار بہت مقبول رہا۔ ’’صداقت‘‘ چھوڑ کر مولانا چشتی نے شکار پور سے 1929 میں ’’پیغام‘‘ جاری کیا ان اخبارات کے علاوہ مولانا عبد الکریم چشتی اخبارات ’’جمہور‘‘ شکارپور اور ’’قربانی‘‘ کراچی میں پیرالٰہی بخش کی کوششوں سے جاری ہونے والے روزنامہ کے بھی ایڈیٹر رہے ۔

ان اخبارات کے علاوہ بھی سندھ کے مختلف شہروں سے متعدد اخبارات جاری ہوئے جن میں کراچی سے نکلنے والا روزنامہ ’’الاصلاح‘‘ ہے یہ اخبار حکیم فتح محمد سہوانی عباسی کی سرپرستی میں نکالا گیا تھا اس کے مدیر عبدالغفور سیتائی تھے جو بعد میں ’’نوائے سندھ‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔

’’نوائے سندھ‘‘ محمد ایوب کھوڑو اور ایک دوسرے زمیندار صاحب کے تعاون سے جاری ہوا تھا۔ میرپور خاص سے ہفت روزہ ’’مسلمان‘‘ ایک قدیم صحافی محمد ہاشم مخلص کی ادارت میں شایع ہوا تھا۔ ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی لکھتے ہیں کہ ’’مسلمان‘‘ ترکی کے حق میں انگریزوں کے خلاف کام کرنے کا ایک موثر ذریعہ تھا۔

اس اخبار میں ہاشم مخلص نے نہایت زور وشور کے ساتھ اپنے قلم کی جولانیاں دکھا کر طنز و مزاح کے ذریعے انگریزوں کے خلاف عوامی دلوں میں نفرت کی شدید ترین آگ بھڑکا دی تھی۔ مسلم قوم، برصغیر کی آزادی اور عام بیداری جیسے موضوعات پر ان کے علاوہ بھی تحریک پاکستان میں سندھ کے جن اخبارات ورسائل نے اہم کردار ادا کیا ان میں معاون، سندھ سدھار، ہلال پاکستان، مسافر، تعلیم، تحفۃ الاحباب وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سندھ طاس معاہدے کی معطلی ہمارے لیے ریڈ لائن ہے. جنرل ساحر شمشاد مرزا

سنگاپور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 30 مئی ۔2025 )چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر افواج کی تعداد کم کر رہے ہیں اور ہم 22 اپریل سے پہلے والی پوزیشن پر واپس آ چکے ہیں تاہم حالیہ بحران نے مستقبل میں کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بڑھا دیا ہے، دونوں ممالک میں آئندہ کشیدگی ہوئی تو صورتحال انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے.

(جاری ہے)

سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ فورم میں شرکت کے لیے موجود چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے انٹرویو میں کہا کہ بھارت کی جانب سے پہلی بار سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا گیا جو کہ ایک انتہائی تشویشناک اور غیر ذمہ دارانہ قدم ہے، یہ فیصلہ پہلگام حملے کے صرف 24 گھنٹے کے اندر بغیر کسی ثبوت کے کیا گیا. انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، سندھ طاس معاہدہ کی معطلی ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، پاکستان نے معاملے کی غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی تاکہ سچ سامنے آ سکے مگر بھارت نے اس پر مثبت ردعمل دینے کے بجائے جارحانہ اقدامات کو ترجیح دی پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں نے افواج کی سطح میں کمی کا عمل شروع کر دیا ہے ہم تقریبا 22 اپریل سے پہلے کی صورتحال پر واپس آ چکے ہیں ہم اس کے قریب پہنچ چکے ہیں یا شاید پہنچ چکے ہوں گے.

جنرل ساحر مرزا نے کہا کہ اگرچہ اس تنازع کے دوران جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی تاہم یہ ایک خطرناک صورتحال تھی اس بار کچھ نہیں ہوا لیکن آپ کسی بھی وقت کسی سٹریٹجک غلطی کو رد نہیں کر سکتے کیونکہ جب بحران ہوتا ہے تو ردِعمل مختلف ہوتا ہے. انہوں نے کہا کہ مستقبل میں کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ اس بار کی لڑائی صرف متنازعہ علاقے کشمیر تک محدود نہیں رہی دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے مرکزی علاقوں میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا لیکن کسی نے بھی کسی سنجیدہ نقصان کو تسلیم نہیں کیا.

سربراہ مسلح افواج نے کہا کہ یہ تنازع دو جوہری طاقتوں کے درمیان حد کو کم کرتا ہے، مستقبل میں یہ صرف متنازعہ علاقے تک محدود نہیں رہے گا، یہ پورے بھارت اور پورے پاکستان تک پھیل جائے گا، یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں بین الاقوامی ثالثی مشکل ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بحران سے نمٹنے کا کوئی موثر طریقہ کار موجود نہیں، بین الاقوامی برادری کے لیے مداخلت کا وقت بہت کم ہو گا اور میں کہوں گا کہ نقصان اور تباہی اس سے پہلے ہی واقع ہو سکتی ہے.

انہوں نے کہا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار تھا لیکن ہاٹ لائنز کے علاوہ سرحد پر چند ٹیکٹیکل سطح کے رابطوں کے سوا کوئی اور مواصلاتی ذریعہ موجود نہیں تھا، کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی پس پردہ یا غیر رسمی بات چیت نہیں ہو رہی تھی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ یہ مسائل صرف میز پر بیٹھ کر مذاکرات اور مشاورت سے حل ہو سکتے ہیں، یہ میدان جنگ میں حل نہیں ہو سکتے. 

متعلقہ مضامین

  • محکمہ داخلہ نے کالعدم تنظیموں اور انکے ذیلی اداروں کی فہرست جاری کر دی
  • کم عمر شادی قانون مسترد، مولانا فضل الرحمان کا حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان
  • وزیراعظم شہباز شریف اور آذری صدر کی نئی ویڈیو جاری
  • ڈاکٹر قدیر کے حوالے سے رانا ثناء کے بیان سے قوم کی دل آزادی ہوئی، عوامی تحریک
  • بھارت کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے: وزیراعظم شہباز شریف
  • تحریک انصاف نے وزیراعظم شہباز شریف سے مذکرات کیلئے مشروط آمادگی ظاہر کردی
  • بلوچستان کی اخباری صنعت تباہی کے دہانے پر، ذمہ دار کون؟
  • تحریک انصاف نے وزیراعظم شہباز شریف سے مذکرات کیلئےمشروط آمادگی ظاہر کردی
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی ہمارے لیے ریڈ لائن ہے. جنرل ساحر شمشاد مرزا