فنگر پرنٹ کی جگہ اب ’زبان‘ پرنٹ، شناخت کے نظام میں نئی انقلابی پیش رفت
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دنیا تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر روز نت نئی ایجادات منظرِ عام پر آ رہی ہیں۔ جہاں پہلے شناخت کے لیے فنگر پرنٹ، چہرے کی شناخت اور آنکھ کی پتلی ریٹینا کا استعمال عام تھا، وہیں اب سائنس دانوں نے ایک اور حیران کن دریافت کی ہے، زبان (Tongue) کی شناخت کو ایک محفوظ اور منفرد بایومیٹرک ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
زبان سے شناخت ایک نیا بائیو میٹرک تصدیقی ٹول ہے جو منفرد ہے اور آسانی سے جعلی نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ کوئی بھی دو زبان کے پرنٹس ایک جیسے نہیں ہیں۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ، زبان کی سطح پر موجود خطوط اور ساخت مکمل طور پر منفرد ہوتے ہیں۔ زبان کو موڑنے، نکالنے یا حرکت دینے کے انداز ہر فرد میں مختلف ہوتے ہیں۔ زبان اندرونی عضو ہونے کی وجہ سے نقصان یا چوری کا امکان بھی کم ہوتا ہے، جو اسے فنگر پرنٹ یا چہرے کی شناخت سے زیادہ محفوظ بناتا ہے۔
تحقیق کی روشنی میں
حال ہی میں ہانگ کانگ پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے محققین نے زبان کی ساخت اور حرکت کو اسکین کرکے شناخت کرنے کا ایک نیا نظام تیار کیا ہے، جسے 3D Tongue Recognition System کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں زبان کی تھری ڈی تصویریں لی جاتی ہیں اور مصنوعی ذہانت یا اے آئی اور مشین لرننگ کی مدد سے شناخت کی جاتی ہے۔
چونکہ زبان اندرونی عضو ہے، اس کی نقل یا جعلسازی تقریباً ناممکن ہے یہ بات اس طریقہ شناخت کو زیادہ سیکیوریٹی فراہم کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ زبان کی شناخت کے ساتھ ساتھ صحت کی کچھ نشانیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے زبان کا رنگ، نمی، یا ساخت میں تبدیلی تو یہ ہیلتھ اور سیکیورٹی کا ایک زبردست امتزاج بن جاتا ہے۔
اسکے علاوہ یہ طریقہ آسانی بھی فراہم کرتا ہے، مستقبل میں موبائل فون، لاک سسٹم، یا ایئرپورٹ سیکیورٹی چیک میں زبان کے ذریعے شناخت کی جا سکے گی۔
زبان دکھانے یا اسکین کروانے کی سماجی قبولیت فی الحال کم ہے۔ کچھ افراد کے لیے زبان نکالنا مشکل ہو سکتا ہے، مثلاً معذور افراد یا بیمار۔ زبان کی تصویر لینے کے لیے خصوصی تھری ڈی اسکینر درکار ہوں گے، جو عام دستیاب نہیں۔
تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے چند برسوں میں زبان شناخت کو بایومیٹرک نظام کا حصہ بنا دیا جائے گا، خاص طور پر ایسی جگہوں پر جہاں انتہائی محفوظ سیکیورٹی کی ضرورت ہو، جیسے کہ خفیہ ادارے، بینکنگ سسٹمز، ملٹری بیس، ہائی پروفائل سرکاری دفاترجیسے اہم ادارے۔
دنیا کس تیزی سے اپنے رنگ بدل رہی ہے، فنگر پرنٹ، چہرے کی شناخت اور آنکھ کی پتلی کے بعد، ’زبان‘ ایک نئی اور محفوظ ترین شناختی علامت کے طور پرسامنے آئی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن مستقبل میں یہ ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن سکتی ہے۔ ویسے تو زبان دکھانا تہذیبی اعتبار سے کچھ غیر مناسب سا لگتا ہے، سوچیے اپنے موبائل کا منہ چڑا کر اسے ان لاک کرنا کیسا لگے گا کیونکہ ممکن ہے جلد ہی زبان دکھا کر لاک کھولا جائے۔
مزیدپڑھیں:پاکستانی انٹیلی جنس کی مدد سے ترکی کی خفیہ ایجنسی کا اہم کامیاب آپریشن، داعش کا سینیئر ترک رہنما گرفتار
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
دنیا کے امیر ترین افراد ایک عمارت میں سونا کیوں جمع کر رہے ہیں؟ مالیت بھی سامنے آگئی
SINGAPORE:کیا آپ جانتے ہیں ان دنوں دنیا کے امیر ترین افراد اپنا سونا سنگاپور کی ایک عمارت میں جمع کر رہے ہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد بین الاقوامی سطح پر پائی جانے والی غیریقینی، بینکوں پر کم ہوتا اعتماد اور جغرافیائی کشیدگی کے باعث اپنا سونا بینکوں کے لاکرز کے بجائے بیرون ملک محفوظ وولیٹس میں رکھ رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد کے اس رجحان کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک سنگاپور ہے جو دنیا بھر کے دولت مند افراد کے لیے مشرق کا جنیوا بن رہا ہے۔
سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق سنگاپور ایئرپورٹ کے قریب واقع 6 منزلہ نجی عمارت میں اس وقت 1.5 ارب ڈالر مالیت کا سونا اور سلور بارز محفوظ کی گئی ہیں۔
سنگاپور میں اس عمارت کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی سخت اقدامات کیے گئے ہیں اور اس عمارت کو اونیکس، ہزاروں ڈپازٹ بکسز اور ایک وسیع اسٹوریج چیمبر کو لیس کر دیا گیا ہے۔
بانی گریگور گریگرسین کے مطابق گولڈ اور سلور اسٹوریج کے آرڈرز میں جنوری اور اپریل 2025 کے دوران 88 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گولڈ، سلور بار کی فروخت سال بہ سال 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں اس سوال سونا محفوظ کرنے کا یہ رجحان کیوں بڑھ رہا ہے کا جواب دیا گیا ہے کہ لبنان، الجیریا اور مصر جیسے دنیا کے کئی ممالک کے دولت مند افراد اپنے ملکوں میں بینکنگ کے نظام پر اعتماد کھو رہے ہیں۔
گریگرسن نے بتایا کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں سونے کی شکل میں دولت زیادہ محفوظ ہے بجائے سونے کی قیمت کی کاغذی کرنسی (ای ٹی ایف، میوچل فنڈز) اور یہ اس میں رسک بھی کم ہے یا تھرڈ پارٹی سے ڈیفالٹ کا رسک بھی کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق امیر ترین افراد کو 2023 کے سلیکون ویلی بینک بحران کے بعد خوف کا شکار ہیں اور اسی لیے وہ پیپر کرنسی پر اپنی دولت رکھنے کے بجائے سونے کو ایک مخصوص مقام پر محفوظ کیا جائے۔
سنگار پور کو یہ دولت مند افراد سونا محفوظ بنانے کے لیے کیوں منتخب کر رہے ہیں تو اس کا جواب یہی ہے کہ مذکورہ افراد سنگاپور کو زیادی محفوظ ملک سمجھتے ہیں جیسا کہ کسی زمانے میں سوئٹزرلینڈ کو تصور کیا جاتا تھا۔
اسی طرح سنگاپور ٹرانزٹ کا مرکز بھی ہے جہاں سونے کی درآمد اور برآمد آسانی ہوتی ہے۔
ورلڈ گولڈ کونسل کے جان ریڈ نے نشان دہی کی کہ اب چند سرمایہ کار بینکوں سے باہر سونے کو محفوظ کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بینکوں کو نظام اب مکمل طور پر محفوظ نظام نہیں رہا۔