باجوہ کیخلاف کچھ کہتا ہوں تو وہ میرے بڑوں سے شکایتیں کرتے ہیں، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میرے سینے میں بہت کچھ دفن ہے، میرا میٹر گھومے تو کبھی کبھی باجوہ کے خلاف کہہ دیتا ہوں، کچھ کہتا ہوں تو باجوہ میرے بڑوں سے شکایتیں کرتے ہیں، ہماری 2 نسلوں نے اتنی سیاست نہیں کی جتنی باجوہ نے اپنے پانچ سالہ دور میں کی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ بھارت کے خلاف سفارتی جنگ بھی ہونی چاہیئے، کلبھوشن یادیو ہمارے پاس بھارتی دہشت گردی کا ثبوت ہے، بھارت کو تکلیف ہے کہ ٹرمپ کشمیر کی بات کیوں کررہا ہے، بھارت کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ کشمیر کا معاملہ دنیا کے ریڈار پر آگیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ میرے سینے میں بہت کچھ دفن ہے، میرا میٹر گھومے تو کبھی کبھی باجوہ کے خلاف کہہ دیتا ہوں، کچھ کہتا ہوں تو باجوہ میرے بڑوں کو فون کرکے شکایتیں کرتے ہیں، ہماری 2 نسلوں نے اتنی سیاست نہیں کی، جتنی سیاست باجوہ نے اپنے 5 سالہ دور میں کی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ نومبر کے 10 دنوں میں جب چیف نے اپوائنٹ ہونا تھا، ان دنوں باجوہ روزانہ ایک نیا پیکج تیار کر کے دیتے اور ہر پیکج میں باجوہ صاحب کی تصویر ضرور ہوتی تھی، میں زیادہ بولوں گا تو پھر شکوے شکایت ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ باجوہ اور موجودہ آرمی چیف میں زمین آسمان کا فرق ہے، اسی لیے تو باجوہ روکنے کے لیے ڈکا لگارہے تھے، باجوہ کہتے تھے یا میری خدمات جاری رکھو یا میرے منتخب کو بنادو۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: خواجہ ا صف
پڑھیں:
بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟
بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 3 June, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
بھارت، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے، نے 15 اگست 1947 کو آزادی حاصل کرنے کے بعد سے باقاعدگی سے انتخابات منعقد کیے ہیں۔ آج 90 کروڑ سے زائد اہل ووٹروں کے ساتھ، بھارتی انتخابات کو اکثر ایک عظیم جمہوری عمل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم، جب ہم بھارت کی انتخابی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو ایک تشویشناک رجحان سامنے آتا ہے۔ خارجی خطرات، خصوصاً پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو جان بوجھ کر ہوا دینا، تاکہ قوم پرستی کے جذبات کو ابھار کر ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ یہ انتخابی حکمت عملی نہ صرف بھارت کے سیاسی نتائج پر اثرانداز ہوئی ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کو بھی مسلسل عدم استحکام سے دوچار کیا ہے۔
بھارت کے پہلے عام انتخابات 25 اکتوبر 1951 سے 21 فروری 1952 تک ہوئے، جو وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو کی قیادت میں منعقد ہوئے۔ یہ ایک نئی آزاد، نوآبادیاتی اور اکثریتی طور پر ناخواندہ قوم کے لیے ایک عظیم جمہوری کارنامہ تھا۔ اگرچہ ابتدائی دہائیوں میں انڈین نیشنل کانگریس غالب رہی، لیکن سیاسی مفاد پرستی کے بیج وہیں بو دیے گئے تھے۔ جیسے جیسے داخلی مسائل بڑھتے گئے، خارجی خطرات—خصوصاً پاکستان—کا سہارا لینے کا رجحان بھی بڑھتا گیا تاکہ انتخابی فائدے حاصل کیے جا سکیں۔
پہلا بڑا موقع 1965 کی بھارت-پاکستان جنگ تھی، جو 6 ستمبر 1965 کو شروع ہوئی اور 23 ستمبر 1965 کو جنگ بندی پر ختم ہوئی۔ وزیر اعظم لال بہادر شاستری اس جنگ کے بعد “جئے جوان، جئے کسان” کے نعرے کے ساتھ قومی ہیرو کے طور پر اُبھرے۔ اگرچہ وہ 11 جنوری 1966 کو تاشقند میں پراسرار طور پر انتقال کر گئے، لیکن کانگریس پارٹی نے اس جنگی قوم پرستی کی لہر کو 1967 کے عام انتخابات میں اپنے حق میں استعمال کیا۔
اسی طرح 1971 کی جنگ، جو 3 دسمبر 1971 کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کی ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے پر ختم ہوئی، ایک اور اہم موڑ تھا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس جنگی فتح کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور انہیں بھارت کی “آئرن لیڈی” کے طور پر پیش کیا گیا۔ 1972 کے ریاستی انتخابات اور 1977 میں ایمرجنسی کے بعد ہونے والے انتخابات میں بھی اس جنگی ہیرو ازم کو بار بار دہرایا گیا، اگرچہ اس دور میں آمرانہ رجحانات بھی نمایاں تھے۔
جب 1990 کی دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ابھار حاصل کیا، تو پاکستان مخالف بیانیہ انتخابات کا مرکزی نکتہ بن گیا۔ کارگل جنگ (3 مئی تا 26 جولائی 1999) بی جے پی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کے دوران ہوئی، جو مئی 1998 کے ایٹمی تجربات اور 21 فروری 1999 کے لاہور اعلامیہ کے فوراً بعد تھی۔ انٹیلی جنس کی ناکامیوں کے باوجود، بی جے پی نے 1999 کے عام انتخابات جیت لیے، کیونکہ وہ قوم پرستی کے جذبات کو اپنے حق میں موڑنے میں کامیاب رہی۔
ایک افسوسناک اور سیاسی رنگ لیے واقعہ 26 نومبر 2008 کے ممبئی حملے تھے، جن میں مسلح افراد نے بیک وقت کئی مقامات پر حملے کیے، جن میں تاج محل ہوٹل بھی شامل تھا، اور 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ اگرچہ فوراً پاکستان میں موجود گروہوں پر الزام لگا دیا گیا، لیکن ان حملوں کے وقت اور طریقہ کار نے بھارتی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے۔ 2009 کے انتخابات سے قبل، کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے سخت رویہ اپنایا، عوامی غصے سے فائدہ اٹھایا، اور اس سانحے کو قومی سلامتی کی اپیل میں بدل دیا۔ جذباتی فضا اور میڈیا کے ذریعے بھڑکائی گئی قوم پرستی نے اندرونی ناکامیوں سے توجہ ہٹا کر حکمران اتحاد کو کامیابی دلوائی۔
شاید سب سے نمایاں مثال فروری 2019 کے پلوامہ حملے کی ہے، جس میں 14 فروری 2019 کو کشمیر میں بھارتی نیم فوجی دستے کے 40 اہلکار جاں بحق ہوئے۔ 26 فروری کو بھارت نے بالا کوٹ پر فضائی حملے کیے اور 27 فروری کو پاکستان نے جوابی کارروائی میں بھارتی طیارہ گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کیا۔ یہ واقعہ پوری طرح سے سیاسی رنگ اختیار کر گیا۔ نریندر مودی نے اپنی 2019 کی انتخابی مہم کو مکمل طور پر قومی سلامتی کے گرد گھمایا، اور بی جے پی کو زبردست اکثریت سے کامیابی ملی۔
تازہ ترین اور ممکنہ طور پر سب سے خطرناک پیش رفت 7 مئی 2025 کو دیکھنے میں آئی، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک روزہ جنگ چھڑ گئی۔ کئی ہفتوں سے کشیدگی بڑھ رہی تھی، بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات اور فوجی چالیں دیکھی گئیں۔ 7 مئی کی صبح بھارتی طیاروں نے لائن آف کنٹرول عبور کی، جس پر پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔ یہ جنگ 24 گھنٹے سے کم رہی مگر درجنوں جانیں لے گئی اور دونوں ایٹمی طاقتوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ جنگ بھارت کے عام انتخابات (19 اپریل تا 7 مئی 2025) کے آخری مرحلے سے مکمل طور پر متصادم تھی۔ وقت کا تعین ظاہر کرتا ہے کہ حکمران جماعت، جو معاشی سست روی، مہنگائی، سماجی بے چینی اور کسانوں کی خودکشیوں پر تنقید کا سامنا کر رہی تھی، ایک بار پھر پرانے ہتھکنڈے پر اتری—پاکستان کے ساتھ جنگ جیسی صورتحال پیدا کر کے عوام کی توجہ ہٹانا اور جذبات کو ابھارنا۔
یہ رجحان واضح اور خطرناک ہے۔ جب بھی داخلی کارکردگی ووٹرز کو قائل کرنے میں ناکام ہو، پاکستان کو قومی سلامتی کا دشمن قرار دے کر ووٹ بٹورے جاتے ہیں۔ میڈیا، جو اکثر ریاست کے زیر اثر ہوتا ہے، ہیجان انگیز خبریں پھیلانا شروع کر دیتا ہے، اور جذباتی بیانیے معیشت، روزگار اور گورننس جیسے حقیقی مسائل کو پس منظر میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہ قلیل مدتی سیاسی فائدہ، طویل مدتی علاقائی امن اور جمہوری اقدار کی قیمت پر حاصل کیا جاتا ہے۔
14 اگست 1947 کو جب پاکستان نے آزادی حاصل کی، اس کے بعد سے برصغیر میں تین بڑی جنگیں (1948، 1965، 1971)، ایک محدود جنگ (1999)، متعدد جھڑپیں اور سرحدی تنازعات رونما ہو چکے ہیں۔ یہ سب نہ صرف زخم چھوڑ گئے بلکہ وسائل بھی کھا گئے اور عدم اعتماد کو بڑھاوا دیا۔ لیکن جب جنگ کو انتخابی ہتھیار بنا لیا جائے، تو علاقائی استحکام کا خطرہ وجودی بن جاتا ہے۔ 7 مئی 2025 کی ایک روزہ جنگ اس حکمت عملی کا سب سے افسوسناک استعمال ہے۔
لہٰذا، بھارتی انتخابات کو محض ان کی وسعت یا تعداد کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس رجحان کے پس منظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ کس طرح قوم پرستانہ جنگی جنون ان پر غالب آ چکا ہے۔ 1971 کی جنگ سے لے کر 2008 کے ممبئی حملے، 2019 کا بالا کوٹ واقعہ، اور اب 2025 کی مختصر جنگ—ایک بات مشترک ہے: پاکستان کو دشمن بنا کر ووٹ حاصل کرنا۔ نتیجہ ایک ایسی جمہوریت جو کارکردگی، ترقی یا انصاف پر نہیں بلکہ انتشار اور خوف پر پنپتی ہے۔
جنوبی ایشیا اس سے بہتر کا مستحق ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ چکر توڑا جائے—اور ووٹ نفرت کے بجائے امید کے لیے ڈالے جائیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہماری معاشی خود انحصاری کا دارومدار سستی بجلی اور زراعت پر ہے: وزیراعظم مُودی کا ”نیو نارمل” اور راکھ ہوتا سیندور! اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دن سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقے ارتھنگ: فطرت کے لمس میں شفا جوہری بازدارندگی اور قومی وقار،28 مئی کی میراث سات مئی : جنوبی ایشیا کے لیے سچائی کی گھڑیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم