بلوچستان کبھی پاکستان سے الگ نہیں ہو سکتا، عدم استحکام کا ذمہ دار بھارت ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
راولپنڈی(نیوز ڈیسک)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچستان ، پاکستان کا حصہ ہے اور کبھی الگ نہیں ہو سکتا جبکہ صوبے میں دہشت گردی کے پیچھے کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی تصور، بلکہ یہ صرف بھارت کا اسپانسر شدہ ہے، پورے خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار صرف ہندوستان ہے۔
آئی ایس پی آر کے زیراہتمام ہلال ٹالکس 2025 پروگرام کے دوران اساتذہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ بلوچستان ، پاکستان کا حصہ ہے اور کبھی پاکستان سے الگ نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو گمراہ قسم کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کبھی علیحدہ ہوسکتا ہے، بلوچستان کبھی علیحدہ نہیں ہوسکتا ہے کیوں کہ بلوچستان پاکستان کی معیشت اور معاشرت میں رچا بسا ہے، بلوچ، سندھی، پختون، پنجابی، کشمیری، بلتی ہم سب بہن بھائی ہیں اور اکھٹے ہیں، ہمیں کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو دہشت گردی ہورہی ہے، اس کے پیچھے نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی تصور ہے بلکہ یہ صرف بھارت کا اسپانسر شدہ ہے، اس پورے خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار صرف ہندوستان ہے۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ جتنی بلوچ دہشتگردی ہے، اس لیے ہم نے اس کو فتنتہ الہندوستان کا نام دیا ہے کیوں یہ ان کو پیسے دیتے ہیں، ان کے لیڈروں کو وہاں پر علاج کرتے ہیں، ان کے پاسپورٹ بناتے ہیں اور ان کی ٹریننگ بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ بیس آف آپریشن افغانستان کو استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دراصل یہ بلوچستان کی ترقی اور عوام کے دشمن ہیں، چونکہ یہ دہشت گرد عوام میں رہتے ہیں، اس لیے بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ آنا ہے، انہیں پتا ہے کہ یہاں پر ترقی ہوگئی تو یہاں پر بچوں کے پاس علم، نوکری، روزگار، پیسے اور شعور آجائے گا تو بھارت کی موت ہوجائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے ان دہشتگردوں کا آلہ کار نہیں بننا، آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ علم حاصل کرنا ہے، ٹیکنالوجی حاصل کرنی ہے، اس صوبے کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ بلوچستان، انشااللہ پاکستان کا سب سے امیر صوبہ بنے گا۔
’بھارتی پراکسیز پورے خطے کے لیے خطرہ ہیں‘
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آپ کو کچھ حقیقت معلوم ہونی چاہیے کہ یہ جو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، فتنتہ الہندوستان ہے، اس کے لیڈرز کہاں ہیں؟ وہ بھارت میں ہیں، وہ جو فتنہ الخوارج والا ہے وہ کہتا ہے، ہماری بھارت مدد کرے، یہ ہندوستان کے زرخرید غلام ہیں، یہ ان سے پیسے اور ڈالرز لیتے ہیں۔
انہوں نے ماہ رنگ بلوچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ان ڈاکٹر صاحبہ کا نام لیا، ان ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھیں کہ آپ ایک طرف روتی ہیں کہ میں تو اسکالرشپ پر پڑھی ہوں، لیکن تمہیں ناروے کے ٹکٹ اور پیسے کون دے رہا ہے اور جلسوں کا خرچہ کون اٹھا رہا ہے اور یہ جو یہود وہندو تمہاری اتنی حمایت کیوں کرتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوتا ہے، ان دہشت گردوں کی لاشوں سے تمہارا کیا تعلق ہے؟ وہ تو دہشتگرد ہیں، انہوں نے عورتوں اور بچوں کو مارا ہے اور اپنے ہی جلسوں میں اپنے ہی لوگوں کو مرواکر ان کی لاشیں لے کر پھرتی ہیں اور ان پر سیاست کرتی ہو تو تم کیا ہو، تم خود بھی دہشت گردوں کی ایک پراکسی ہو۔
’بھارت کو پاکستان یا بلوچستان سے کوئی ہمدردی نہیں‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ سب فتنتہ الہندوستان ہیں اور آپ سب یعنی بلوچستان کے عوام کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت کی نہ پاکستان سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ بلوچستان سے کوئی ہمدردی ہے، وہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے، ان کا انسانیت یا بلوچوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ واجب القتل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو کھڑا ہونا ہوگا، یہ جو آپ کو بیوقوف بنارہے ہیں، آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے دہشتگردوں کے آلہ کار نہیں بننا، ہم جب کہتے ہیں تو کشمیر بنے گا پاکستان، تو یہ کشمیری کہتے ہیں ’کشمیر بنے گا پاکستان‘۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر نے تو پاکستان بننا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہمارا تو یقین ہے کہ کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ جانا ہے کیوں کہ ہمارا جو تعلق ہے وہ خون، تہذیب اور مذہب کا تعلق ہے، وہ بھائی بھائی کا تعلق ہے، ہم نے دونوں نے ملکر بھارت کا ظلم برداشت کیا ہے، ہمیں قوی یقین ہونا چاہیے کہ کشمیر نے پاکستان ہی بننا ہے۔
’عوام اور فوج کے درمیان کوئی نہیں آسکتا‘
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عوام اور افواج کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، یہ عوام کی فوج ہے، فوج عوام سے اور عوام فوج سے ہے، عوام اور فوج کے درمیان کوئی نہیں آسکتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا کی واحد فوج ہے جو اپنے عوام کے لیے کورونا، پولیو کے قطرے پلانے، بھل صفائی کے لیے بھی تیار ہوجاتی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف بھی لڑرہی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے خلاف بھی لڑرہی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو معرکہ حق ہے، بھارت نے سوچا کہ وہ پاکستان پر حملہ کردے گا تو اس کے پیچھے اس کی ناقص حکمت عملی تھی جس میں ایک مفروضہ جو ان کے دانشوروں نے بتایا تھا ’آپ حملہ کردو‘، پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج آپس میں ایک ساتھ ہی نہیں ہے۔
مزید کہا ’اسی طرح کسی سیانوں نے ان کو یہ بھی بتایا تھا کہ آپ حملہ کریں اور پھر دیکھیں یہاں کے دہشت گرد ایسا محاذ کھڑا کریں گے کہ ان کو سمجھ نہیں آئے گی کہ آپ سے لڑیں یا دہشت گردوں سے لڑیں‘۔
’بھارت کے تمام مفروضے مٹی میں مل گئے‘
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ حملہ کریں، ان کی حالت ہی کوئی نہیں ہے، نہ ان کے پاس سازوسامان ہے، نہ یہ لڑسکتے ہیں، ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہے، آپ طاقتور ہیں، ہم ان کو ماریں گے۔
انہوں نے شرکا کو بتایا کہ ایک دانشور نے ان کو یہ بھی کہا تھا کہ آپ حملہ کریں، پاکستان کے ساتھ کون کھڑا ہوگا، نہ سعودی عرب اور نہ ہی امریکا، سب انہیں چھوڑ چکے ہیں۔
مزید کہا ’یہ بھی کہا گیا آپ حملہ کریں، ماریں بچوں اور عورتوں کو اور مساجد پر حملہ کریں، آپ جو جھوٹ بولیں گے، آپ کا میڈیا طاقتور ہے، آپ کا دنیا میں بہت اثرورسوخ ہے، آپ جو کہیں گے وہ بک جائے گا‘۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہاں گئے وہ پانچوں مفروضے، وہ مٹی میں مل گئی یا نہیں۔
واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر آئی ایس پی آر کے زیراہتمام ہلال ٹالکس 2025 پروگرام میں ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 1950 اساتذہ کرام شریک ہو رہے ہیں۔
پروگرام میں نامور تعلیمی شخصیات اور صحافیوں نے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں، پروگرام کا مقصد سوشل میڈیا پر ملک دشمن عناصر کے حربے اور مذموم مقاصد سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔
مزیدپڑھیں:تسلیم کرتا ہوں لوگوں نے ہمیں ن لیگ کا ساتھ دینے کی وجہ سے ووٹ نہیں دیا: ندیم افضل چن
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ڈی جی آئی ایس پی آر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ آپ حملہ کریں کہ بلوچستان پاکستان کا تھا کہ آپ کرتے ہیں عوام اور ہیں اور نہیں ہے سے کوئی تعلق ہے کرنا ہے کے ساتھ نہیں ہو یہ بھی ہے اور کے لیے اور نہ کے پاس
پڑھیں:
خطے کے استحکام کا سوال
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔
اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔
بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔
افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔
آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔
سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔
پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔
مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔
پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔
مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔
پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔