جنگ بندی کی ضمانتوں کے بغیر اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے، حماس
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
الجزیرہ کے ساتھ گفتگو میں المرداوی نے کہا کہ اسرائیل اصرار کرتا ہے کہ پہلے دن ہی 10 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے، جبکہ وہ معاہدے کی دیگر شقوں پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ صہیونی حکومت نے اپنے تازہ اقدام میں امریکی ثالث کی پیش کردہ تجویز کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا، جس سے ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ فارس نیوز کے مطابق، فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما محمود المرداوی نے پیر کی شام اس بات پر تاکید کی کہ صہیونی حکومت نے جنگ بندی کی تجویز مسترد کر دی، جس پر فلسطینی مزاحمت اور امریکی ثالث پہلے ہی متفق ہو چکے تھے۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس اقدام سے اسرائیل کا مقصد اپنے اندرونی مسائل کو حل کرنا ہے، کہا کہ اسرائیل کی ہماری قوم کو بھوک سے مرنے کی پالیسی آزاد دنیا کے ماتھے پر داغ ہے۔
الجزیرہ کے ساتھ گفتگو میں المرداوی نے کہا کہ اسرائیل اصرار کرتا ہے کہ پہلے دن ہی 10 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے، جبکہ وہ معاہدے کی دیگر شقوں پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔ حماس نے آج صبح ایک بار پھر تاکید کی کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے باقی اختلافی نکات پر فوری طور پر بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ حماس نے مزید کہا کہ اس معاہدے کو غزہ کے عوام کے لیے امداد کی فراہمی، انسانی بحران کے خاتمے اور آخرکار مستقل جنگ بندی اور قابض فوج کے مکمل انخلاء کا ضامن ہونا چاہیے۔ گزشتہ بدھ کو اسٹیو وِٹکاف نے حماس کو جنگ بندی روکنے اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک نئی تجویز پیش کی، جس میں 60 دن کی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا خاکہ شامل تھا۔
اس تجویز کے تحت امریکی صدر نے اسرائیل کو اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کی یقین دہانی کرائی تھی، تاہم بنیادی طور پر یہ پچھلی تجاویز سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں 10 اسرائیلی قیدی اور 18 مارے گئے قیدیوں کی لاشیں سات دنوں میں دو مرحلوں میں واپس کی جائیں گی، آدھی پہلے دن اور آدھی ساتویں دن۔ اس کے بدلے میں، اسرائیل 125 فلسطینی قیدی (جو عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں)، مزید 1111 فلسطینی قیدی (جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے)، اور 180 فلسطینی شہداء کی لاشیں واپس کرے گا۔
المرداوی نے کہا کہ اسرائیل انسانی پروٹوکول کی بنیادی شقیں بھی ماننے کو تیار نہیں۔ ہم صرف اس معاہدے کو قبول کریں گے جو امریکی ثالث کے ساتھ طے پایا تھا، لیکن اگر اس کی ضمانت نہ ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ثالث اسٹیو وِٹکاف پہلے مکمل طور پر حماس کی جنگ بندی تجویز سے متفق ہو گئے تھے، لیکن آخرکار اسرائیلی دباؤ پر پیچھے ہٹ گئے۔ آخر میں المرداوی نے اسرائیل کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہرگز 10 اسرائیلی قیدیوں کو بغیر کافی ضمانتوں کے رہا نہیں کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی قیدیوں کو کہا کہ اسرائیل المرداوی نے کہا کہ اس کے لیے
پڑھیں:
امریکی حکومت نہیں مانتی لیکن اسرائیل یقینی طور پر "جنگی جرائم" کا ارتکاب کر رہا ہے، میتھیو ملر
گذشتہ 20 ماہ کے دوران غزہ کی پٹی میں بد ترین "نسل کشی" و "جنگی جرائم" کے ارتکاب پر قابض و سفاک اسرائیلی رژیم کیخلاف روز افزوں عالمی دباؤ کے تناظر میں امریکی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان نے مجرم صیہونی رژیم کو "نسل کشی" کے جرائم سے مبرہ قرار دینے کی کوشش میں "اسرائیلی جنگی جرائم" کا برملاء اعتراف کیا ہے اسلام ٹائمز۔ قابض و سفاک اسرائیلی رژیم کی اندھی حامی بائیڈن انتظامیہ میں وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر (Matthew Miller) اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت اب بھی نہیں مانتی کہ قابض اسرائیلی رژیم غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، لیکن یقینی طور پر وہ جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے! قابض صیہونی رژیم کے سنگین جنگی جرائم کے دفاع کے لئے ہمیشہ وائٹ ہاؤس کے ٹرائیبیون کو استعمال کرنے والے میتھیو ملر نے قابض اسرائیلی رژیم سے نسل کشی کا دھبہ ہٹانے کی کوشش میں سفاک اسرائیلی رژیم کے ہاتھوں انجام پانے والے سنگین جنگی جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ البتہ یہ میری ذاتی رائے ہے جبکہ وزارت خارجہ کی ترجمانی کے دوران مجھے امریکی حکومت کی رائے بیان کرنا ہوتی تھی کہ جو اب بھی اس بات کو نہیں مانتی کہ اسرائیلی رژیم غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی ہے؟ میتھیو ملر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ "نہیں نسل کشی نہیں" لیکن اسرائیل نے یقینی طور پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ - واضح رہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان کے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں کہ جب کہ اقوام متحدہ باضابطہ طور پر اعلان کر چکی ہے کہ غزہ میں 50 ہزار سے زائد کمسن بچے مارے گئے ہیں یا زخمی ہوئے ہیں۔ -