ایک بات طے ہے کہ مستقبل کی پاک بھارت اصل جنگ کا منظر نامہ سفارتی محاذ پر ہوگا۔حالیہ کشیدگی کے جو نتائج ملے ہیں اس نے بھارت کئی محاذوں پر پسپائی پر مجبور کردیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نریندر مودی حکومت کا طرز عمل پاکستان مخالفت میں زیادہ شدت پسندی کا نظر آتا ہے۔
بھارت کی کوشش ہوگی کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی کے مسائل میں الجھائے رکھے تو دوسری طرف بھارت عالمی دنیا میں سفارت کاری کے محاذ پر پاکستان کی مخالفت میں ایک جارحانہ حکمت عملی کو آگے بڑھائے ۔اس کی حکمت عملی میں ایک طرف پاکستان کو عالمی دنیا میں بطور ریاست دہشت گردی کی سرپرستی کے ساتھ جوڑا جائے تو دوسری طرف پاکستان میں پہلے سے جاری اپنی پراکسی جنگ میں شدت پیدا کی جائے،یوں وہ پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں شامل کروانا چاہتا ہے۔
بھارت کو حالیہ مہم جوئی میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کا اپنی طاقت کے بارے میں جو احساس تھا وہ کمزور ثابت ہوا ہے۔ دنیا نے بھارت کے اس الزام کو بھی قبول نہیں کیا کہ پہلگام کے واقعہ میں پاکستان ملوث ہے۔ اسی طرح امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی جو پیش کش کی ہے وہ یقینی طور پر اسے قبول نہیں ہوگی۔
امریکی ثالثی کی پیش کش نے پاکستان کے لیے مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری کا ایک نیا دروازہ کھولا ہے جس پر بھارت کی سطح پر شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے لیے عالمی سفارت کاری میں ایک نرم گوشہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے بھارت کی داخلی سیاست میں نریندر مودی کو کافی دباؤ کا سامنا ہے۔
مستقبل میں دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی مخالفت میں بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا۔بھارت کی کوشش ہوگی کہ وہ دنیا کی توپوں کا رخ پاکستان مخالفت کی بنیاد پر سامنے لایا جائے۔ پاکستان کو بھارت کے ایجنڈے سے خبردار بھی رہنا ہے اور خود کو بھی اس ہنگامی سفارتی جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔
ایک جنگ ابلاغ کے میدان میں میڈیا سمیت ڈیجیٹل میڈیا پر بیانیہ کی تشکیل اور پھیلاؤ کی صورت میں دیکھنے کو ملے گی۔اگرچہ اس بات کے امکانات محدود ہیں کہ دونوں ممالک میں کوئی بڑی جنگ ہوگی۔لیکن جنگ کے نام پر ایک سیاسی بحث و مباحثہ اور شدت پسندی دیکھنے کو ملے گی۔
اگر کوئی سمجھ رہا ہے کہ بھارت حالیہ پسپائی کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ جائے گا تو ایسا ممکن نہیں بلکہ اس کی مہم جوئی کی مختلف شکلیں ہم واضح طورپر دیکھ سکیں گے۔اس لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ تو ٹلی ہے مگر خطرہ ختم نہیں ہوا اور بھارت مسلسل ہم پر اس جنگ کے خطرات کو نمایاںکرتا رہے گا۔
پاکستان نے حالیہ بھارت کی مہم جوئی میں جو شاندار کامیابی حاصل کی ہے اس پر کسی جذباتیت اور خوش فہمی کا شکار نہیںہونا چاہیے اور نہ ہی یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت کی جارحیت ختم ہوگئی یا اسے ناکامی ہوگئی ہے۔اس لیے ہمیں دیگر شعبوںکے ساتھ ساتھ سفارت کاری کے محاذ پر کچھ نئی حکمت عملی اور نئے کارڈ سجانے ہونگے۔
اس سفارتی حکمت عملی میں ہمیں جوش بھی دکھانا ہے اور ہوش،تدبر اور فہم وفراست سے بھارت کے ساتھ سفارتی جنگ بھی لڑنی ہے اور اپنے قومی بیانیہ کو علاقائی اور عالمی سیاست میں مثبت انداز میں بھی پیش کرنا ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ عالمی دنیا میں اب بھی ہمارے بارے میں بہت سے سوالات اور تحفظات موجود ہیں بالخصوص دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں ایک متبادل بیانیہ موجود ہے ، ہمیں اس کا علاج بھی تلاش کرنا ہے۔
سفارت کاری کی اس جنگ میں پاکستان کو ایک مضبوط سیاسی نظام اور سیاسی استحکام درکار ہے۔ یہ جو کچھ ہمیں حالیہ دنوں میں بھارت کے مقابلے میں اتفاق رائے قوم میں دیکھنے کو ملا ہے اس کو کیسے برقرار اور بہتر بنایا جائے یہ ہی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا جس نے حالیہ دنوں میں ایک بڑا طاقت ور کردار پاکستان کی حمایت میں پیش کیا ہے اسے ہی ایک نئی طاقت کے طور پر تسلیم بھی کرنا ہوگا اور اس کی مدد سے آگے بڑھنا ہوگا۔ڈیجیٹل میڈیا ہی بیانیہ بنانے میں بھارت کے ساتھ مقابلے میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔
اسی طرح ہمیں خود آگے بڑھ کر بھارت کے مقابلے میں بھارت کے منفی اور جنگی جنون پر مبنی عزائم اور بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت یا شواہد عالمی سفارت کاری کے محاذ پر کمال ہوشیاری کے ساتھ پیش کرنے ہونگے۔عالمی دنیا میں سفارت کاری کے تناظر میں ہمیں اپنا قومی ہوم ورک مکمل کرنا ہوگا اور دنیا بھر میں اپنے سفارت کاروں اور سفارت خانوں کو متحرک و فعال کرنا ہوگا اور یہ کام جنگی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی دنیا میں سفارت کاری کے پاکستان کو حکمت عملی اور بھارت دیکھنے کو بھارت کے بھارت کی میں ایک کے ساتھ
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، ماہرین
پاکستان کے معدنی خزانوں میں چھپی دولت اب دنیا کی توجہ حاصل کرنے لگی ہے۔ ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو نہ صرف ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بھی بنتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع” کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے قیام کے بعد ملک میں کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا عمل تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور توقع ہے کہ 2030 تک اس شعبے کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
معدنی ترقی سے پسماندہ علاقوں میں خوشحالی ممکن
لکی سیمنٹ اور لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کی تشکیل کے بعد اب ملک میں معدنی وسائل پر سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ صرف چاغی میں تقریباً 1.3 ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کان کنی کے چند منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں تو ملک بھر میں معدنی لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے سرمایہ کاروں کی قطاریں لگ جائیں گی۔ اس شعبے کی ترقی نہ صرف دور افتادہ علاقوں میں خوشحالی لا سکتی ہے بلکہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں بھی نمایاں اضافہ ممکن ہے۔
عالمی مارکیٹ میں دھاتوں کی طلب، لیکن پاکستان کا کردار محدود
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر اس وقت دھاتوں کی شدید مانگ ہے، لیکن پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا سونا اور تانبا موجود ہے، جبکہ سونے اور تانبے کی ٹیتھان بیلٹ ترکی، ایران اور افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان تک آتی ہے، جو اسے خطے کے ایک اسٹریٹیجک مقام پر فائز کرتی ہے۔
شمس الدین کے مطابق اس وقت پاکستان کان کنی سے صرف 2 ارب ڈالر کما رہا ہے، لیکن آئندہ چند سالوں میں یہ آمدنی 6 سے 8 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، بشرطیکہ ملکی اور سیاسی استحکام برقرار رہے۔
سرمایہ کاری کا پھل دیر سے مگر فائدہ دیرپا
سمٹ میں شریک فیڈینلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لیے انشورنس اور مالیاتی اداروں کو بھی میدان میں آنا ہوگا۔ ان کے مطابق پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے معدنی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا بلکہ افرادی قوت اور وسائل کی درست منصوبہ بندی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ فوری نہیں ہوتا بلکہ اس کا پھل 10 سال کے بعد ملتا ہے، مگر یہ فائدہ دیرپا اور قومی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
Post Views: 5