لندن ہائی کورٹ: عادل راجہ کو پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کیخلاف جھوٹے ثبوت دینے پر ہزیمت کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 25th, July 2025 GMT
لندن ہائی کورٹ میں عادل راجہ کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے خلاف جھوٹے ثبوت پیش کرنے پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، جج عادل راجہ پر برہم ہوگئے اور کہا کہ عادل راجہ کے پاک انٹیلی جنس پر لگائے گئے الزامات بناوٹی نظر آتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لندن ہائی کورٹ میں عادل راجہ کی جانب سے پاکستانی انٹیلی جنس اداروں پر عائد الزامات سے متعلق جج نے سماعت کی۔ پاک آرمی کی جانب سے بریگیڈیئر راشد نصیر اور پاکستان کی ٹیم مکمل تیاری میں نظر آئی۔
دوران سماعت عدالت نے عادل راجہ کی جانب سے پاکستانی خفیہ اداروں کے خلاف پیش کیے گئے شواہد کو بے بنیاد اور جھوٹ قرار دیا۔ ٹھوس شواہد نہ پیش کرنے پر عادل راجہ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
لندن کی عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ عادل راجہ کا دعویٰ غلط معلومات پر مبنی دکھائی دیتا ہے، عادل راجہ کے پاک انٹیلی جنس پر لگائے گئے تمام الزامات بناوٹی نظر آتے ہیں۔
جج نے عادل کے ذرائع پر کڑی تنقید کی اور پوچھا کہ صحافی ارشد شریف کی جے آئی ٹی رپورٹ میں آئی ایس آئی کا ذکر نہیں تو آپ اس ادارے پر کس بنیاد پر قتل کا الزام لگا رہے ہیں؟
عادل راجہ کی جانب سے شواہد توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر جج برہم دکھائی دیے جب کہ عادل راجہ کی جانب سے پیش کیے گئے گواہ پاکستانی حکومت، خفیہ اداروں پر بے بنیاد الزامات لگاتے رہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انٹیلی جنس کی جانب سے
پڑھیں:
یقین دلاتا ہوں ہر ایمان دار جوڈیشل افسر کے ساتھ کھڑا ہوں گا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ یقین دلاتا ہوں چیف جسٹس ہر ایمان دار جوڈیشل افسر کے ساتھ کھڑا ہوگا، ادارہ جاتی تبدیلیوں میں وقت لگتا ہے جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا پاکستان میں سے زیادہ کام عدالتیں کرتی ہیں جس کا ادراک ہونا چاہیے، انصا ف کی فراہمی کو احترام کی نظر دیکھا جانا چاہیے، ہمارا یہ مطالبہ ایگزیکٹو اور اسٹیٹ دونوں سے ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ماتحت عدلیہ کی بہبود کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا جی ججوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کمپوزڈ، غیر جانب دار اور اصولوں پر رہیں لیکن بینچ میں شامل ججز بھی انسان ہیں، انہیں کیئر کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی بہبود انسانی ضرور ہے، ضلعی عدلیہ کے ججز جوڈیشل سسٹم کا انتہائی قیمتی حصہ ہیں، عدلیہ کی فلاح کے لیے پالیسی متعارف کرائی جارہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گوادر، گھوٹکی، صادق آباد، ڈیرہ اسماعیل اور بنوں جیسے دور دراز علاقوں کے دورے کیے، قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی اجلاس کا ایجنڈا ترتیب دینے کے لیے جسٹس شاہد وحید نے بہت معاونت فراہم کی اور میرا کامل یقین ہے کہ مشترکہ دانش ہمیشہ انفرادی خواہشات پر حاوی رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صبح و شام عدالتیں لگانے کے لیے18اگست کو ہائی کورٹس کے ساتھ دوبارہ اجلاس میں بات ہوگی، ماڈل فوجداری کورٹس پرانے فوجداری سیشن عدالتوں کے ٹرائلزسنیں گی، ماتحت عدلیہ میں کیسز پر سماعت مکمل کرنے کے لیے ٹائم لائن طے کرنے کے لیے ہائی کورٹس کے ساتھ 18 اگست کے اجلاس میں مشاور ت ہوگی۔
چیف جسس نے کہا کہ قابل وکلا کو ماتحت عدلیہ یا ہائی کورٹ میں جوڈیشل ذمہ داری عائد کرنے کا فیصلہ بھی ہوگا، عدلیہ میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس(اے آئی) کے استعمال کے لیےطریقہ کار اپنانے کے حوالے سے جسٹس محمد علی مظہر کا م کر رہے ہیں۔
اجلاس سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کے امور میں مداخلت پر ردعمل دینے کے لیے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر غور ہے اور ماتحت عدلیہ کے امور میں مداخلت پر رد عمل دینے کے لیے ہر ہائی کورٹ گائیڈ لائنز واضح کرے گا کہ کیسے کاؤنٹر کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو مدعو کیا گیا ہے، یقین دلاتا ہوں چیف جسٹس پاکستان ہر ایمان دار جوڈیشل افسر کے ساتھ کھڑا ہوگا، ماتحت عدلیہ ہمیں سفارشات بھیجے اصلاحات کے لیے ہم سپریم کورٹ میں بیٹھ کر اصلاحات نہیں بنائیں گے، اس کے لیے ریٹائرڈ جج سپریم کورٹ رحمت حسین جعفری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جسٹس روزی خان چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرار، ڈی جی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی ممبران ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ چین اور سپریم کورٹ ترکیہ کے ساتھ پانچ سال کے معاہدے ہوئے ہیں، ماتحت عدلیہ سے30 جوڈیشل افسران اگلے سال چینی سپریم کورٹ میں تربیت کے لیے بھیجے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان آپ کی فلاح کے لیے تیار ہے، پورا عدلیہ کا ادارہ ماتحت عدلیہ کے ساتھ ہے، ادارہ جاتی تبدیلیوں میں وقت لگتا ہے۔
اس سے قبل جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے خطاب میں کہا کہ جوڈیشل ورک کا دباؤ ہو یا ایگزیکٹو ذمہ داریاں یا کوئی اور عنصر ہو تو پھر انصاف کی فراہمی نہیں ہوسکتی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ 18 برسوں سے بطور وکیل دیکھا پاکستان میں سب سے زیادہ ورکنگ عدالتوں میں ہوتی ہے، ڈسٹرکٹ عدلیہ سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک سب سے زیادہ کام عدالتیں کرتی ہیں جس کا ادراک ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ انصا ف کی فراہمی کو احترام کی نظر دیکھا جانا چاہیے، ہمارا یہ مطالبہ ایگزیکٹو اور اسٹیٹ سے ہے۔