فیصل آباد سے کراچی آنیوالی 10 سالہ بچی ٹرین سے اغوا، کراچی کینٹ میں مقدمہ درج
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
فوٹو فائل
فیصل آباد سے کراچی آنے والی 10 سال کی بچی کو ٹرین سے اغوا کرلیا گیا، جس کا مقدمہ کراچی کینٹ اسٹیشن تھانے میں درج ہے۔ واقعہ 28 مئی کو پیش آیا تھا۔
بچی عنایہ کی والدہ شگفتہ بی بی نے جیو نیوز سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شالیمار ایکسپریس میں 3 بچوں کے ہمراہ کراچی آ رہی تھی۔
بچی کی والدہ کے مطابق بوگی میں موجود کچھ افراد نے سکھر کے قریب لسی پلائی۔
انکا کہنا ہے کہ لسی پینے کے بعد نیند آگئی، آنکھ کھلی تو بچی موجود نہیں تھی اور لسی پلانے والے افراد بھی غائب تھے، پولیس نے ڈھونڈا لیکن بچی نہیں ملی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
غیرت کے نام پر قتل ہونیوالی خاتون کی والدہ کا متنازعہ بیان، پاکستان علماء کونسل کا ردعمل
ایک جاری ویڈیو میں قتل ہونیوالی خاتون کی والدہ کا کہنا ہے کہ انہیں نے غیرت کی خاطر بیٹی کو قتل کیا، جو روایات کے مطابق تھا۔ پاکستان علماء کونسل نے اس بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کوئٹہ میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خاتون کی والدہ نے متنازعہ بیان دیتے ہوئے اپنی بیٹی کے قتل کو درست قرار دے دیا، جبکہ پاکستان علماء کونسل نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے والدہ کے بیان کو قرآن اور سنت کے خلاف قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ کا ویڈیو بیان منظر عام پر آیا ہے جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کے قتل کو بلوچی رسم و رواج کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس قتل کو 'سزا' قرار دیا ہے۔ ویڈیو میں خاتون قرآن پاک کے ساتھ نظر آ رہی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی۔ جن کی عمر 6 سے 18 سال تک ہیں۔
خاتون نے دعویٰ کیا کہ میری بیٹی بانو اور احسان اللہ پڑوسی تھے۔ بانو 25 دن کیلئے احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ وہ واپس آئی تو بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اس کو معاف کردیا اور رہنے کو تیار تھا، مگر احسان اللہ پھر بھی باز نہیں آیا۔ وہ ہمہیں ٹک ٹاک بنا کر ویڈیو بھیجتا تھا۔ ہمیں دھمکی دیتا تھا۔ اتنی رسوائی ہم برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ خاتون نے کہا کہ ہم نے انہیں قتل کرکے کوئی بیغیرتی نہیں کی، بلکہ بلوچ رسم کے مطابق انہیں مارا ہے۔ سرفراز بگٹی ہمارے گھر چھاپے کیلئے پولیس بھیجتے ہیں۔ خاتون نے کہا کہ اس فیصلے میں سردار شیر باز ساتکزئی کا کوئی کردار نہیں تھا اور جرگہ میں جو فیصلہ ہوا، وہ ان کے ساتھ نہیں بلکہ بلوچی جرگے میں ہوا۔ سردار شیر باز ساتکزئی سمیت گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
دوسری جانب اس بیان پر پاکستان علما کونسل نے ردعمل دیتے ہوئے خاتون کی والدہ کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا ہے۔ پاکستان علما کونسل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ والدین کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ خاتون کے بہیمانہ قتل میں والدین کی مرضی شامل تھی۔ خاتون کے قتل میں والدین کی مرضی شامل ہونا افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ قاتلوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ والدین کا بیان قرآن و سنت کے احکامات اور آئین اور دستور کیخلاف ہے جسے مکمل طور پر مسترد کیا جاتا ہے۔ اگر ظلم میں قریبی عزیز بھی شامل ہو تو اسے بھی سزا ملنی چاہئے۔ امید ہے کہ ریاست قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتے گی۔