اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچستان، پاکستان کا حصہ ہے اور کبھی الگ نہیں ہو سکتا جبکہ صوبے میں دہشت گردی کے پیچھے کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی تصور، بلکہ یہ صرف بھارت کی سپانسر شدہ ہے۔ پورے خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار صرف ہندوستان ہے۔ آئی ایس پی آر کے زیراہتمام ہلال ٹالکس 2025ء پروگرام کے دوران اساتذہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاک فوج  کے ترجمان نے کہا  یہ جو گمراہ قسم کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کبھی علیحدہ ہوسکتا ہے، بلوچستان کبھی علیحدہ نہیں ہوسکتا ہے کیوں کہ بلوچستان پاکستان کی معیشت اور معاشرت میں رچا بسا ہے۔ بلوچ، سندھی، پختون، پنجابی، کشمیری، بلتی ہم سب بہن بھائی ہیں اور اکٹھے ہیں، ہمیں کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتا۔ جتنی بلوچ دہشتگردی ہے، اس لیے ہم نے اس کو فتنہ الہندوستان کا نام دیا ہے کیوں کہ یہ ان کو پیسے دیتے ہیں، ان کے لیڈروں کا وہاں پر علاج کرتے ہیں، ان کے پاسپورٹ بناتے ہیں اور ان کی ٹریننگ بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ بیس آف آپریشن افغانستان کو استعمال کرتے ہیں۔ دراصل یہ بلوچستان کی ترقی اور عوام کے دشمن ہیں۔ چونکہ یہ دہشت گرد عوام میں رہتے ہیں، اس لیے بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ آنا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ یہاں پر ترقی ہوگئی تو یہاں پر بچوں کے پاس علم، نوکری، روزگار، پیسے اور شعور آجائے گا تو بھارت کی موت ہوجائے گی۔ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے ان دہشتگردوں کا آلہ کار نہیں بننا۔ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ علم حاصل کرنا ہے، ٹیکنالوجی حاصل کرنی ہے۔ اس صوبے کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ بلوچستان، انشاء اللہ پاکستان کا سب سے امیر صوبہ بنے گا۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آپ کو کچھ حقیقت علوم ہونی چاہیے کہ یہ جو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، فتنہ الہندوستان ہے، اس کے لیڈرز کہاں ہیں؟۔ وہ بھارت میں ہیں، وہ جو فتنہ الخوارج والا ہے وہ کہتا ہے، ہماری بھارت مدد کرے۔ یہ ہندوستان کے زرخرید غلام ہیں، یہ ان سے پیسے اور ڈالرز لیتے ہیں۔ انہوں نے ماہ رنگ بلوچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ان ڈاکٹر صاحبہ کا نام لیا، ان ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھیں کہ آپ ایک طرف روتی ہیں کہ میں تو سکالرشپ پر پڑھی ہوں، لیکن تمہیں ناروے کے ٹکٹ اور پیسے کون دے رہا ہے اور جلسوں کا خرچہ کون اٹھا رہا ہے اور یہ جو یہود وہنود تمہاری اتنی حمایت کیوں کرتے ہیں؟۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوتا ہے، ان دہشت گردوں کی لاشوں سے تمہارا کیا تعلق ہے؟ وہ تو دہشتگرد ہیں، انہوں نے عورتوں اور بچوں کو مارا ہے اور اپنے ہی جلسوں میں اپنے ہی لوگوں کو مروا کر ان کی لاشیں لے کر پھرتی ہیں اور ان پر سیاست کرتی ہو تو تم کیا ہو۔ تم خود بھی دہشت گردوں کی ایک پراکسی ہو۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ سب فتنہ الہندوستان ہیں اور آپ سب یعنی بلوچستان کے عوام کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت کی پاکستان سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ بلوچستان سے کوئی ہمدردی ہے۔ وہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ ان کا انسانیت یا بلوچوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ واجب القتل ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ جو آپ کو بیوقوف بنارہے ہیں، آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے دہشتگردوں کے آلہ کار نہیں بننا۔ ہم جب کہتے ہیں کشمیر بنے گا پاکستان، تو یہ کشمیری کہتے ہیں ’کشمیر بنے گا پاکستان‘۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر نے تو پاکستان بننا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہمارا تو یقین ہے کہ کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ جانا ہے کیوں کہ ہمارا جو تعلق ہے وہ خون، تہذیب اور مذہب کا تعلق ہے، وہ بھائی، بھائی کا تعلق ہے۔ ہم دونوں نے ملکر بھارت کا ظلم برداشت کیا ہے، ہمیں قوی یقین ہونا چاہیے کہ کشمیر نے پاکستان ہی بننا ہے۔ پاکستان کی عوام اور افواج کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، یہ عوام کی فوج ہے، فوج عوام سے اور عوام فوج سے ہے۔ عوام اور فوج کے درمیان کوئی نہیں آسکتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا کی واحد فوج ہے جو اپنے عوام کے لیے کرونا، پولیو کے قطرے پلانے، بھل صفائی کے لیے بھی تیار ہوجاتی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف بھی لڑ رہی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے خلاف بھی لڑ رہی ہوتی ہے۔ یہ جو معرکہ حق ہے، بھارت نے سوچا کہ وہ پاکستان پر حملہ کردے گا تو اس کے پیچھے اس کی ناقص حکمت عملی تھی جس میں ایک مفروضہ جو ان کے دانشوروں نے بتایا تھا کہ ’آپ حملہ کردو‘، پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج آپس میں ایک ساتھ ہی نہیں ہے۔ ’اسی طرح کسی سیانوں نے ان کو یہ بھی بتایا تھا کہ آپ حملہ کریں اور پھر دیکھیں یہاں کے دہشت گرد ایسا محاذ کھڑا کریں گے کہ ان کو سمجھ نہیں آئے گی کہ آپ سے لڑیں یا دہشت گردوں سے لڑیں‘۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ حملہ کریں، ان کی حالت ہی کوئی نہیں ہے، نہ ان کے پاس سازوسامان ہے، نہ یہ لڑسکتے ہیں، ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہے، آپ طاقتور ہیں، ہم ان کو ماریں گے۔ احمد شریف چودھری نے شرکاء کو بتایا کہ ایک دانشور نے ان کو یہ بھی کہا تھا کہ آپ حملہ کریں، پاکستان کے ساتھ کون کھڑا ہوگا، نہ سعودی عرب اور نہ ہی امریکا، سب انہیں چھوڑ چکے ہیں۔ مزید کہا کہ ’یہ بھی کہا گیا آپ حملہ کریں، ماریں بچوں اور عورتوں کو اور مساجد پر حملہ کریں۔ آپ جو جھوٹ بولیں گے، آپ کا میڈیا طاقتور ہے، آپ کا دنیا میں بہت اثرورسوخ ہے، آپ جو کہیں گے وہ بک جائے گا‘۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہاں گئے وہ پانچوں مفروضے، وہ مٹی میں مل گئے یا نہیں۔ واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر، آئی ایس پی آر کے زیراہتمام ہلال ٹالکس 2025 پروگرام میں ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 1950 اساتذہ کرام شریک ہو رہے ہیں۔ پروگرام میں نامور تعلیمی شخصیات اور صحافیوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔پروگرام کا مقصد سوشل میڈیا پر ملک دشمن عناصر کے حربے اور مذموم مقاصد سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر ا پ حملہ کریں کہ بلوچستان ہیں اور ا کرتے ہیں تھا کہ ا کرنا ہے نہیں ہے تعلق ہے کے ساتھ کہا کہ ہے اور یہ بھی نے کہا کے پاس

پڑھیں:

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !

آواز
ایم سرور صدیقی

وفاقی حکومت نے جناتی اندازکا نیا بجلی کا سلیب سسٹم جاری کردیاہے جوطلسم ِ ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے؟ شاید عوام کو چکر پہ چکر دینامقصودہے کہ عام آدمی سکھ کا سانس بھی نہ لے پائے ۔کہا یہ جارہاہے کہ بجلی ٹیرف کا پہلے جو 200 یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑھا کر 300 یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے یعنی مرے کو مارے شاہ مدار۔بجلی ٹیرف کے پرانے نظام میںپہلے 100 یونٹس پر ریٹ 9 روپے فی یونٹ تھا ۔اس کے بعد کے یونٹس (100) پر ریٹ ہوتا تھا 13 روپے فی یونٹ اور اگر آپ کا بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کا اضافی ادا کرناپڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط عائد تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200 یونٹ سے کم پر آ جائیں تو صارفین کے بجلی کاریٹ واپس 9 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتا تھا۔ مطلب اگر کوئی صارف کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔ اب جناتی اندازکے نئے بجلی کے سلیب سسٹم میں 1 یونٹ سے لے کر 300 یونٹس تک کا ریٹ سیدھا 33 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے(ہور چوپو)صاف صاف ظاہرہے اب کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا کوئی 6 مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا ۔جو صارف پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200 یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا۔ اب اس کو بھی وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا ۔اس کا نتیجہ ہے کہ 300 یونٹ کے نام پر عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکا دیا گیا ہے کہ 300 یونٹ تک رعایت ہے لیکن حقیقتاً اب سب صارفین کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6 مہینے بعد سستے ریٹ کی اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے یہ تو سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سنگین مذاق ہے، اور معاشی قتل کے مترادف ہے اس لئے حکمرانوںکا مطمح نظرہے کہ بھاری بل آنے والے پرجو کم وسائل، غریب اور مستحقین ہے وہ خودکشی کرتے ہیں تو کرتے پھریں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔صارفین کو اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔واپڈا کے ” سیانوں” نے عوام کو ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا گیا ہے ۔یہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔اس پر کون آواز اٹھائے گا کوئی نہیں جانتا ۔دوسری طرف بجلی بلوں کی تقسیم کا نیا نظام رائج کرتے ہوئے حکومت نے خسارے میں چلنے والے محکمہ پاکستان پوسٹ کو اہم ذمے داری سونپ دی گئی ملک بھر میں بجلی بلوں کی پرنٹنگ اور تقسیم کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے بل اب پاکستان پوسٹ کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔ابتدائی مرحلے میں یہ نظام آزمائشی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ ہر ڈسکوز کے ایک سب ڈویژن میں پاکستان پوسٹ کا عملہ بجلی بل تقسیم کرے گا۔ پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں اسے مرحلہ وار پورے ملک تک توسیع دی جائے گی۔ آئندہ چھ ماہ میں بلوں کی مکمل تقسیم کا نظام پاکستان پوسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا، جبکہ حتمی مرحلے میں بجلی بلوں کی چھپائی کا عمل بھی پاکستان پوسٹ انجام دے گا۔ اس نئے نظام کے نفاذ کے سلسلے میں تمام ریجنل پوسٹ ماسٹر جنرلز کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاکہ عملہ پیشگی تیاری کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں کے الیکٹرک کے ساتھ بھی بجلی بلوں کی تقسیم کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔یہ اقدام بلوں کی بروقت ترسیل، شفافیت اور لاگت میں کمی کے لئے حکومت کی ایک بڑی اصلاحاتی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔بہرحال یہ تو انتظامی ترجیحات ہیں لیکن بجلی کے بلوںکے حوالے سے عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے پوری دنیا میں ایسا ناروا سلوک کوئی حکومت اپنے ہم وطنوں کے ساتھ نہیں کررہی شاید اسی بناء پرایک مہینے کے دوران نیا ریکارڈ قائم ہواہے۔ صرف مئی میں تقریباً 60 ہزار پاکستانی ملک چھوڑ گئے، بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں اپریل کے مقابلے میں 12.7 فیصد اضافہ، سال کے پہلے 5 مہینوں میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 85 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ لاکھوںپاکستانی اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور اس لئے ہورہے ہیں کہ بجلی کے بلوںمیں ایک درجن ٹیکسز دینے کے باوجودملک میں ان کا تحفظ، سیکیورٹی نہ ہونے کے برابرہے۔ صفائی کی صورت ِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ گلی کوچوںمیں گندگی، اُبلتے گٹر وں نے الگ جینا عذاب بنارکھاہے ۔عام آدمی کے ساتھ ائیرپورٹ تھانوں اورکچہریوں میں جو سلوک ہوتاہے ،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی عام آدمی سرکاری دفاتر میں روز ذلیل ہوتاہے۔ سڑکوں پر ٹریفک وارڈن اتنی عزت ِ نفس مجروح کرتے ہیں کہ انسان سوچتاہے اتنا بے عزت ہونے کی بجائے خودکشی کرلے تو بہترہے ۔ یہی عوام (1) انکم ٹیکس (2) جنرل سیلز ٹیکس (3) کیپیٹل ویلیو ٹیکس (4) ویلیو ایڈڈ ٹیکس (5) سینٹرل سیلز ٹیکس (6) سروس ٹیکس (7) فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (8) پیٹرول لیوی (9) ایکسائز ڈیوٹی (10) کسٹمز ڈیوٹی (11) اوکٹرائے ٹیکس (میونسپل ایریا میں سامان کے داخلے پر عائد ٹیکس) (12) ٹی ڈی ایس ٹیکس (ٹیکس ڈیڈکشن ایٹ سورس) (13) ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس (ESI ٹیکس) (14) پراپرٹی ٹیکس (15) گورنمنٹ اسٹیمپ ڈیوٹی (16) آبیانہ (زرعی زمین کے پانی پر ٹیکس) (17) عشر (18) زکوٰة (بینکوں میں موجود رقم سے کٹوتی) (19) ڈھال ٹیکس (20) لوکل سیس (21) ہرقسم لائسنس کی فیس (22) دفاتر،ہسپتالوں اور کئی قسمکی پارکنگ فیس (23) کیپیٹل گینز ٹیکس (CGT) (24) واٹر ٹیکس (25) فلڈ ٹیکس (یا اللہ! معاف فرما) (26) پروفیشنل ٹیکس (27) روڈ ٹیکس (28) ٹول گیٹ فیس (29) سیکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس (STT) (30) ایجوکیشن سیس (31) ویلتھ ٹیکس (32) ٹرانزیئنٹ اوکیوپینسی ٹیکس (TOT) (33) کنجیشن لیوی لازمی کٹوتی (34) سپر ٹیکس (3 سے 4%) (35) ودہولڈنگ ٹیکسز (36) ایجوکیشن فیس (5%) کے علاوہ (a) بھاری تعلیمی فیسیں (b) اسکولوں میں عطیات (c) ہر چوراہے پر بھکاریوں کی جذباتی بلیک میلنگ کے عوض کیا ملتاہے بے عزتی، رسوائی اورہوکے اور کچیچیاں ۔لگتاہے عوام اشرافیہ کو ٹیکسز دینے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں شاید اقبال تو اس لئے کہا تھا
نہ کہیںجہاںمیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟

متعلقہ مضامین

  • ایف ٹی اے ہندوستان کی صنعتی پالیسی میں ایک خطرناک تبدیلی ہے، جے رام رمیش
  • پاکستان علما کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیدیا
  • پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا
  • نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
  • وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس
  • سینیٹ انتخابات اور عوام کی امیدیں
  • ایران اپنے میزائل اور جوہری پروگرام سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا، صیہونی اپوزیشن لیڈر
  • سانحہ قلات میں زخمی صابری قوال کے رکن شہباز اب شائد کبھی طبلہ نہیں بجا سکیں گے
  • اگر شام ٹکڑے ٹکڑے ہوا تو ہم میدان میں کود پڑیں گے، ترکیہ
  • تحریک انصاف کیلئے 9 مئی کے بعد کوئی دن آسان نہیں: زرتاج گل