بلوچستان کبھی پاکستان سے علیحدہ نہیں ہو سکتا، یہ ہماری معیشت اور ثقافت کا حصہ ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
ترجمان پاک فوج میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچستان کبھی پاکستان سے علیحدہ نہیں ہو سکتا، یہ ہماری معیشت اور ثقافت میں رچا بسا ہے۔ وہ Hilal Talks 2025 پروگرام میں ملک بھر سے آئے اساتذہ کرام سے خطاب کر رہے تھے، جس میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 1950 اساتذہ شریک ہوئے۔
پروگرام کا مقصد سوشل میڈیا پر ملک دشمن عناصر کے جھوٹے پراپیگنڈے اور سازشوں سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔ اس موقع پر نامور تعلیمی شخصیات اور صحافیوں نے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر سے گفتگو کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت بلوچستان میں دہشتگردی کا سرپرست ہے اور پورے خطے میں عدم استحکام کی جڑ بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فتنہ الہند کے ایجنٹ بلوچستان کی ترقی کے دشمن ہیں، یہ دہشتگرد بھارت سے پیسے اور تربیت لیتے ہیں اور اسی کی سہولت کاری سے پاکستان میں دہشتگردی پھیلاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی پر وزیر اطلاعات اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی سیاسی قیادت کو بریفنگ
انہوں نے واضح کیا کہ دہشتگردوں کا مقابلہ تعلیم، روزگار اور ترقی سے ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ دہشتگردوں کی لاشوں پر سیاست کرتے ہیں، وہ دراصل دہشتگردی کے سہولت کار ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کشمیر کے مسئلے پر دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان کا ہے اور رہے گا، اس میں کوئی شک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ افواجِ پاکستان، عوام کی فوج ہے اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔ یہ فوج پولیو کے خاتمے سے لے کر دہشتگردی کے خلاف جنگ تک، ہر محاذ پر عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ بھارت کی اسٹریٹیجک غلط فہمیاں خاک میں مل چکی ہیں۔
پروگرام کے اختتام پر اساتذہ کرام نے Hilal Talks جیسے علمی و فکری پروگرامز کے تسلسل کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے پلیٹ فارمز قومی بیانیے کے فروغ اور سچائی کے دفاع میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Hilal Talks 2025 ترجمان پاک فوج ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ترجمان پاک فوج ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری ڈی جی آئی ایس پی آر
پڑھیں:
’’ سیاسی بیانات‘‘
پی ٹی آئی کی طرف سے بنائی گئی تحریک تحفظ آئین کے سربراہ، بلوچستان سے قومی اسمبلی کے رکن اور ماضی میں شریف فیملی سے نہایت قریبی تعلق رکھنے والے سیاستدان محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں آئین معطل ہو چکا، ہماری پارلیمنٹ کے اختیارات و بنیادی انسانی حقوق، جلسہ و جلوس، تحریر و تقریر اور احتجاج کرنے کی آزادی سب کچھ چھین لیے گئے ہیں اور ہمیں یہ خوف ہے کہ پاکستان ہماری اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ڈوب رہا ہے اور ملک کے تمام ادارے کرپشن میں مبتلا ہیں، جس کے خلاف ہر پاکستانی کو نکلنا ہوگا اور موجودہ حکومت کا خاتمہ بے حد ضروری ہو چکا ہے۔
حکومت مخالف سیاستدانوں کے ایسے بیانات آتے رہے ہیں تاہم جناب محمود اچکزئی نے نیا انکشاف یہ کیا ہے کہ ملک کا آئین معطل ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف وہ اسی آئین کے تحت قائم قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور ایوان میں جا کر دھواں دھار تقریرکرتے اور موجودہ حکومت کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام کو نظرانداز کر کے ارکان پارلیمنٹ کی بہت زیادہ تنخواہ اور مراعات بڑھائی ہیں جو تمام ارکان پارلیمنٹ باقاعدگی سے وصول کر رہے ہیں، ان ارکان میں وہ بھی شامل ہیں جو ایوان میں موجود رہنا گوارا نہیں کرتے۔ اگر آتے ہیں تو حاضری لگا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
سبسڈائز کیفے ٹیریا انجوائے کرتے ہیں، پارلیمنٹ لاجز میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اسمبلی میں کورم پورا کرنا اپنی آئینی ذمے داری نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے ارکان پارلیمنت کی آمد کا واحد مقصد حاضری لگا کر تنخواہ اور مراعات وصول کرنا اور اسلام آباد کے آرام دہ ایم این اے ہاسٹلز میں رہنا اور ذاتی کام نمٹانا رہ گیا ہے اور اس ایوان میں بعض ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں جنھوں نے اسمبلی میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا مگر ضرورت پر انھیں ڈیسک بجاتے ضرور دیکھا گیا ہے اور وہ کسی احتجاج کا حصہ بھی نہیں بنتے مگر آئین کے تحت وہ رکن پارلیمنٹ ہیں اور حکومت کی فراہم کردہ مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔
محمود اچکزئی آجکل پی ٹی آئی کے حامی ہیں اورموجودہ حکومت کو پی ٹی آئی کے بیانیے کی طرح خود بھی غیر قانونی اور فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ لیکن جہاں استحقاق اور مراعات وغیرہ کا معاملہ ہو تو سب ایک ہوتے ہیں اور یہی اسمبلیاں آئینی بھی ہوتی ہیں۔ تمام ارکان موجودہ حکومت کی بڑھائی گئی تمام مراعات سے مستفید بھی ہو رہے ہیں اور کسی ایک نے بھی مراعات لینے سے انکار نہیں کیا۔
سیاست میں دوستی اور دشمنی وقت کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی محمود خان اچکزئی پاکستان کے کوئی قومی لیڈر نہیں بلکہ اپنے بلوچستان کے بھی مسلمہ لیڈر نہیں ہیں، وہ بلوچستان میں بسنے والے پشتو بولنے والوں کی نمایندگی کرتے ہیں،، بلوچستان کے سارے پختون بھی ان کے ووٹر نہیں ہیں۔وہ بلوچستان کے ضلع پشین میں زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے پختون لیڈر شمار ہوتے ہیں مگر اپنا اظہار خیال وہ خود کو قومی رہنما سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ آئین نے انھیں ہر قسم کی تقریر کا حق دیا ہوا ہے۔
ملک کے 1973 کے متفقہ آئین نے پاکستان کے ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے۔ کیا کسی اور ملک میں اپنے ہی ملک کے بارے میں متنازع اور غیر محتاط تقریریں ہوتی ہیں؟ بلوچستان میں ہے جہاں آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی ہیں، مگرقوم پرست لیڈر بولیں گے تو وفاق کے خلاف یا بھی پنجاب کے بارے میں اشتعال تقاریر کریں گے۔سیکیورٹی اداروں کو برا بھلا کہیں گے لیکن دہشت گردوں کے خلاف بات نہیں کریں اور نہ ان کے سہولت کاروں کا کوئی ذکر ہوگا، اگر کوئی بات ہوگی تو وہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے انداز میں ہوگی۔ بلوچستان کے سماجی نظام میں اصلاحات لانے کا مطالبہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے تحفظ کی بات کریں گے۔
صوبہ سندھ میں پاکستان کھپے کا نعرہ بھی لگا ، سندھ میں پی پی کی 17 سال سے حکومت ہے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت بھی قوم پرستوں کو نہ سمجھا پائی ہو کہ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ سندھ کا امن برقرار رکھیں۔ سیاستدان حکومتی مراعات کا بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور حکومت کے خاتمے کو ضروری سمجھتے ہوں۔ ملک کی عدالتوں سے حکومت مخالفین کو آئین کے مطابق سہولیات بھی مل رہیہیں لیکن وہ کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ آئین معطل ہو چکا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کس قسم کی سیاست ہے اور کس نظریے کی نمایندگی کرتی ہے؟