پی ٹی آئی کی طرف سے بنائی گئی تحریک تحفظ آئین کے سربراہ، بلوچستان سے قومی اسمبلی کے رکن اور ماضی میں شریف فیملی سے نہایت قریبی تعلق رکھنے والے سیاستدان محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں آئین معطل ہو چکا، ہماری پارلیمنٹ کے اختیارات و بنیادی انسانی حقوق، جلسہ و جلوس، تحریر و تقریر اور احتجاج کرنے کی آزادی سب کچھ چھین لیے گئے ہیں اور ہمیں یہ خوف ہے کہ پاکستان ہماری اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ڈوب رہا ہے اور ملک کے تمام ادارے کرپشن میں مبتلا ہیں، جس کے خلاف ہر پاکستانی کو نکلنا ہوگا اور موجودہ حکومت کا خاتمہ بے حد ضروری ہو چکا ہے۔
حکومت مخالف سیاستدانوں کے ایسے بیانات آتے رہے ہیں تاہم جناب محمود اچکزئی نے نیا انکشاف یہ کیا ہے کہ ملک کا آئین معطل ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف وہ اسی آئین کے تحت قائم قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور ایوان میں جا کر دھواں دھار تقریرکرتے اور موجودہ حکومت کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام کو نظرانداز کر کے ارکان پارلیمنٹ کی بہت زیادہ تنخواہ اور مراعات بڑھائی ہیں جو تمام ارکان پارلیمنٹ باقاعدگی سے وصول کر رہے ہیں، ان ارکان میں وہ بھی شامل ہیں جو ایوان میں موجود رہنا گوارا نہیں کرتے۔ اگر آتے ہیں تو حاضری لگا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
سبسڈائز کیفے ٹیریا انجوائے کرتے ہیں، پارلیمنٹ لاجز میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اسمبلی میں کورم پورا کرنا اپنی آئینی ذمے داری نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے ارکان پارلیمنت کی آمد کا واحد مقصد حاضری لگا کر تنخواہ اور مراعات وصول کرنا اور اسلام آباد کے آرام دہ ایم این اے ہاسٹلز میں رہنا اور ذاتی کام نمٹانا رہ گیا ہے اور اس ایوان میں بعض ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں جنھوں نے اسمبلی میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا مگر ضرورت پر انھیں ڈیسک بجاتے ضرور دیکھا گیا ہے اور وہ کسی احتجاج کا حصہ بھی نہیں بنتے مگر آئین کے تحت وہ رکن پارلیمنٹ ہیں اور حکومت کی فراہم کردہ مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔
محمود اچکزئی آجکل پی ٹی آئی کے حامی ہیں اورموجودہ حکومت کو پی ٹی آئی کے بیانیے کی طرح خود بھی غیر قانونی اور فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ لیکن جہاں استحقاق اور مراعات وغیرہ کا معاملہ ہو تو سب ایک ہوتے ہیں اور یہی اسمبلیاں آئینی بھی ہوتی ہیں۔ تمام ارکان موجودہ حکومت کی بڑھائی گئی تمام مراعات سے مستفید بھی ہو رہے ہیں اور کسی ایک نے بھی مراعات لینے سے انکار نہیں کیا۔
سیاست میں دوستی اور دشمنی وقت کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی محمود خان اچکزئی پاکستان کے کوئی قومی لیڈر نہیں بلکہ اپنے بلوچستان کے بھی مسلمہ لیڈر نہیں ہیں، وہ بلوچستان میں بسنے والے پشتو بولنے والوں کی نمایندگی کرتے ہیں،، بلوچستان کے سارے پختون بھی ان کے ووٹر نہیں ہیں۔وہ بلوچستان کے ضلع پشین میں زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے پختون لیڈر شمار ہوتے ہیں مگر اپنا اظہار خیال وہ خود کو قومی رہنما سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ آئین نے انھیں ہر قسم کی تقریر کا حق دیا ہوا ہے۔
ملک کے 1973 کے متفقہ آئین نے پاکستان کے ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے۔ کیا کسی اور ملک میں اپنے ہی ملک کے بارے میں متنازع اور غیر محتاط تقریریں ہوتی ہیں؟ بلوچستان میں ہے جہاں آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی ہیں، مگرقوم پرست لیڈر بولیں گے تو وفاق کے خلاف یا بھی پنجاب کے بارے میں اشتعال تقاریر کریں گے۔سیکیورٹی اداروں کو برا بھلا کہیں گے لیکن دہشت گردوں کے خلاف بات نہیں کریں اور نہ ان کے سہولت کاروں کا کوئی ذکر ہوگا، اگر کوئی بات ہوگی تو وہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے انداز میں ہوگی۔ بلوچستان کے سماجی نظام میں اصلاحات لانے کا مطالبہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے تحفظ کی بات کریں گے۔
صوبہ سندھ میں پاکستان کھپے کا نعرہ بھی لگا ، سندھ میں پی پی کی 17 سال سے حکومت ہے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت بھی قوم پرستوں کو نہ سمجھا پائی ہو کہ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ سندھ کا امن برقرار رکھیں۔ سیاستدان حکومتی مراعات کا بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور حکومت کے خاتمے کو ضروری سمجھتے ہوں۔ ملک کی عدالتوں سے حکومت مخالفین کو آئین کے مطابق سہولیات بھی مل رہیہیں لیکن وہ کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ آئین معطل ہو چکا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کس قسم کی سیاست ہے اور کس نظریے کی نمایندگی کرتی ہے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موجودہ حکومت بلوچستان کے کرتے ہیں آئین کے ہیں اور رہے ہیں ہو چکا ہے اور
پڑھیں:
عدالت نے آئین و قانون کے تحت 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں سنائیں، بیرسٹر عقیل ملک
وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے آئین و قانون کے تحت 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں، جن ملزمان کو سزائیں ہوئی ہیں، ان میں سرفہرست پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد بچہ کو 10 سال کی سزا ہوئی ہے، اسی طرح ایم این اے احمد چٹھہ کو بھی 7 سال کی سزا ہوئی ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ 9 مئی کیسز کا آج فیصلہ سنایا گیا، ان کیسز میں قانونی تقاضے پورے ہوئے، گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، گواہان پر جرح بھی ہوئی اور آج عدالت نے فیصلہ سنایا، عدالتی فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی کیس: اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بچھر سمیت پی ٹی آئی کارکنوں کو 10،10 سال قید کی سزا
بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ میانوالی کا پولیس اسٹیشن ہو یا ایئربیس ہو، یا جو دیگر حساس مقامات یا آفیشل مقامات تھے، جہاں پر پوری منصوبہ بندی سے یہ تمام تر معاملہ کیا گیا، جن ملزمان کو سزائیں ہوئی ہیں ان میں سرفہرست پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد بچہ کو 10 سال کی سزا ہوئی ہے، اسی طرح ایم این اے احمد چٹھہ کو بھی 7 سال کی سزا ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سابق ایم این اے بلال اعجاز کو بھی 10 سال کی سزا ہوئی ہے، اس کے علاوہ 32 اور ملزمان تھے جن کی ذہن سازی کرکے منصوبہ بندی سے حساس مقامات پر منتقل کرکے توڑ پھوڑ کی گئی، یہ لوگ سرکاری املاک پر حملہ آور ہوئے، ان 32 ملزمان کو بھی سزائیں سنائی گئیں، ظاہر بات ہے کوئی بھی ریاست اپنی رٹ ہر حال میں قائم رکھتی ہے، جب آپ حساس تنصیبات یا فوجی تنصیبات پر منصوبہ بندی کے تحت حملہ آور ہوں گے تو ریاست اپنی رٹ قائم کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بچھر کا 9 مئی کیس میں سزا پر ردعمل آگیا
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے کیسز کے جتنے بھی ملزمان ہیں، ان کے خلاف ثبوت موجود ہیں، بیشتر کیسز میں ثبوت دن اور رات کی طرح سامنے موجود ہیں، پی ٹی آئی لیڈرز کی حرکات و سکنات کا ریکارڈ موجود ہے، سوشل میڈیا پر ویڈیوز موجود ہیں، سی سی ٹی وی ویڈیوز بھی موجود ہیں، سی سی ٹی وی کی بڑی ڈیمانڈ کی جاتی ہے تو سی سی ٹی وی بھی بالکل منظرِ عام پر آ چکی ہے۔
بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ جب آپ قانون ہاتھ میں لیں گے، چاہے آپ ایم این اے ہوں یا کوئی بھی رتبہ رکھتے ہوں تو وہ کوئی معنی نہیں رکھتا، قانون سب کے لیے برابر ہے، سرگودھا کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی کیسز we news انسداد دہشتگردی عدالت بیرسٹر عقیل ملک سرگودھا سزائیں ملزمان