پولیس والے سمجھتے ہیں کہ وہ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونک دیں گے ایسا نہیں ہوسکتا: لاہور ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
خلیل الرحمان قمر ہنی ٹریپ مقدمہ سے بری ہونے والے ملزم حسن رضا پر منشیات کے مقدمہ میں 2 ایس پیز لاہور ہائیکورٹ کو مطمئن نہ کرسکے ،عدالت نے ایس پی اورسی سی ڈی لاہور کوطلب کر لیا۔ خلیل الرحمان قمر ہنی ٹریپ مقدمہ سے بری ہونے والے ملزم حسن رضا پر منشیات کے مقدمہ کا معاملہ،لاہور ہائیکورٹ کےجسٹس فاروق حیدر نے نا مکمل ریکارڈ پیش کرنے پر ایس پیز پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ پولیس والے سمجھتے ہیں کہ وہ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونک دیں گے ایسا نہیں ہوسکتا ،پولیس کا کام لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہے مسائل نہیں ۔ ایس پی انویسٹی گیشن اقبال ٹاؤن سدرہ خان، ایس پی انویسٹیگیشن صدر معظم ہائیکورٹ پیش لیکن عدالت کو مطمئن نہ کرسکے،عدالت نے ایس پی ، سی سی ڈی آفتاب پھلروان کو 11 جون کو مکمل ریکارڈ سمیت طلب کرلیا ہے۔ جسٹس فاروق حیدر نے منشیات کے ملزم حسن رضا کی درخواست ضمانت پر سماعت کی ،ایس پی انویسٹیگیشن اقبال ٹاؤن اور صدر ڈویژن ، ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل رانا محمد عمران انجم کے ہمراہ پیش ہوئے ، جسٹس فاروق حیدر نے استفسار کیا کہ کس تھانہ میں مقدمہ درج ہوا اور کب ؟ ، وکیل صفائی نے جواب دیا 23 جولائی دوہزار چوبیس کو تھانہ سندر نے مقدمہ درج کرکے جیل بھجوایا ۔ ایس پی انویسٹیگیشن سدرہ خان نے عدالت کو بتایا کہ دو مقدمات ہیں ، ملزم کے خلاف اغوا کے متعلق مقدمہ تھانہ سندر اور منشیات کا تھانہ سبزہ زار میں درج ہوا ،جو بھی گرفتار ہوئی اس نے چودہ ملزمان کا انکشاف کیا ، 10 کو شناخت پریڈ پر بھیجا گیا ، اس خاتون نے حسن رضا سمیت دیگر کو نامزد کیا ، ضمنی میں بھی لکھا ہے، فاضل جج نے استفسار کیا یہ موجودہ منشیات کی ایف آئی آر کس تاریخ کی ہے، ، اور جس کے انکشاف پر درج ہوئی ،،ایس پی انویسٹیگیشن سدرہ خان نے جواب دیا ۔جسٹس فاروق حیدر نے استفسار کیا کہاں لکھا ہوا ہے کہ ملزم حسن رضا جیل میں بند ہے،تفتیشی افسر متعلقہ دستاویزات عدالت میں پیش نہ کرسکا ، فاضل عدالت نے تفتیشی افسر پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہا آپ کو سمجھ آتی نہیں یا سمجھنا ہی چاہتے ، ایس پی صاحبہ کیا آپ کو عدالت کے سوالات کو سمجھ رہی ہیں یا آپ کو سمجھ نہیں آرہی ، ایس پی سدرہ خان نے جواب دیا ،مجھے عدالت کے سوالات کی سمجھ آرہی ہے۔ جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دئیے کہ ریکارڈ مکمل کیوں پیش نہیں کیا گیا ،آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونک دیں گے، عدالت کے استفسار پر ایس پی سدرہ خان نے بتایا کہ اب منشیات کے مقدمہ کی تفتیش کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے۔عدالت نے ایس پی ، سی سی ڈی لاہور آفتاب پھلروان کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 11 جون تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس فاروق حیدر نے منشیات کے عدالت نے
پڑھیں:
نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
حمیداللہ بھٹی
ہمارامزاج کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کچھ عرصہ پُرسکون گزرے تو بے چین ہوجاتے ہیں اور خود ایسی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بے چینی ا ورہیجان کو فروغ ملے اِس کی وجہ عدم برداشت ، رواداری کا فقدان اور نفرت انگیز بیانیہ ہے۔ اگرکوئی بے بنیاد لیکن سنسنی خیزخبر سنائے تو لوگ نہ صرف دلچسپی اورمزے سے سنتے ہیں بلکہ اپنے رفقاکوبھی سنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں ۔ایسامزاج بالغ نظر معاشرے کانہیں ہوسکتا ۔مزید یہ کہ ہم سچائی کے متلاشی نہیں رہے سُنی سنائی بات پرفوراََ یقین کرلیتے ہیں۔اِس طرح نفرت انگیز بیانیے کے لیے حالات سازگار ہوئے ہیں اور جھوٹ ہمارے مزاج کاحصہ بن گیاہے۔ ہر کوئی جب چاہے کسی پربھی دشنام طرازی کرنے لگتا ہے اور پھراِسے کارنامہ جان کر فخر سے اپنے رفقاکو بتاتاہے کہ فلاں اہم شخص کو اِس طرح بدنام کیا ہے تعجب یہ کہ سُننے والا بھی حوصلہ شکنی کی بجائے واہ واہ کرتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جھوٹ اورنفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن ایسا نہیں ہورہا کیونکہ اکثریت کوسچ سے کوئی غرض نہیںصرف اپنے مزاج کے مطابق سنناہی پسند ہے ۔
ذرائع ابلاغ نے بہت ترقی کرلی ہے اِس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ حقیقت جاننے میں مشکل پیش نہ آئے مگرذرائع ابلاغ کی ترقی نے حقائق سے آگاہی مشکل کردی ہے۔ ویسے لوگ بھی حقیقت جاننے کی جستجو ہی نہیں کرتے اور جب سے سوشل میڈیا کاظہورہوا ہے یہ توبالکل ہی جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اب جس کا جی چاہتا ہے وہ گلہ پھاڑ کر ہرکسی پر کیچڑ اُچھالنے لگتا ہے کیونکہ تدارک کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ لہٰذاسوشل میڈیانے معاشرے کوجھوٹ سُننے اور سنانے کے لیے مادرپدرآزاد کردیاہے ۔یہ سوشل میڈیا کا تعمیری کی بجائے نقصان ہے ۔دنیامیںیہ مقبولیت بڑھانے اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے مہذب معاشروں کے لوگ اخلاق اور دلیل سے بات کرتے ہیں اور سچائی جاننے کی جستجو کرتے ہیں اسی لیے ہلچل وہیجان کم ہوتا ہے۔ اگر کوئی من گھڑت اور بے بنیاد واقعات کی تشہیر کرے توجلدہی کوئی سچ سامنے لے آتا ہے اسی لیے نفرت انگیز بیانیے کی گنجائش نہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنے اطوار کا جائزہ لیں اوربرداشت و رواداری پر مبنی زمہ دارانہ بیانیہ اپنائیں ۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک بتا دیں جس کے شہری اپنے ملک کی بجائے سرِعام خودکودوسرے ملک کاکہیں اپنے علاقوں کو ہمسایہ ملک کا حصہ قراردیں ۔اگر کوئی ایسے کسی فعل کامرتکب ہوتونہ صرف اِداروں کامعتوب ہوتا ہے بلکہ عام شہری بھی ایسی حرکت کابُرامناتے اور نفرت کرتے ہیں مگر زرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کیا ہمارے یہاں بھی ایسا ہے؟ہرگز نہیں۔یہاں تو قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ پاک وطن کا شہری کہلوانے سے گریزاں ہیں۔ اِن کی اولاد بھی ایسا ہی نفرت انگیز بیانیہ رکھتی ہے مگر ریاست خاموش ہے ۔اب تو ایسے ہی ایک قوم پرست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا ہے ۔اِس کا والد قیامِ پاکستان کا مخالف رہا ۔اِس کی اولاد نے پاکستانی سرزمین پر جنم لیا تعلیم حاصل کی اسی ملک کے وسائل استعمال کیے مگرپاک وطن کی وفادار نہیں بلکہ لسانی اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کی علمبردارہے ۔یہ امن کے بجائے لڑائو،گھیرائو اور جلائو پر فریفتہ ہے۔ رواداری اور برداشت سے کوئی سروکار نہیں۔ البتہ سچ پر جھوٹ کو ترجیح دینے سے خاص رغبت ہے اسی خاندان کے سربراہ کا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربن جاناسمجھ سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے خاندان اور شخصیات کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟کیونکہ ایسے چہروں کوعزت و مرتبہ ملنے سے وطن پرستی کی بجائے نفرت انگیز بیانیے کادرس ملتا ہے ۔
اپنے وطن کی ترقی پر شہری خوش ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا رواج نہیں ہمارے حکمرانوں کوکہیں عزت واہمیت ملے تویہاں رنجیدگی ظاہر کی جاتی ہے لیکن بے عزتی ہونے کواُچھالتے ہوئے سوشل میڈیاپر لوگ جھوم جھوم جاتے ہیں ۔ارے بھئی کوئی ملک اگر ہمارے حکمرانوں کو عزت دیتا ہے تو یہ ایک حکومتی شخص کی نہیں بلکہ پاکستان کی عزت ہے۔ اگر کسی کوسیاسی ،علاقائی ،لسانی یاقومیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تواظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں یہ طریقہ تو کوئی مناسب نہیں کہ ملک کوعزت ملنے پر غمزدہ ہواجائے اور بے عزتی پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں۔
بھارت نے پاک وطن کو نیچا دکھانے اور خطے پر بالادستی ثابت کرنے کے لیے رواں برس چھ سے دس مئی کے دوران جارحیت کاارتکاب کیا جس کاجواب پاک فوج نے دندان شکن دیادشمن کی جارحیت پر موثر،شاندار اور نپے تُلے ردِعمل نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دیے بھارت کے جنگی طیارے کچھ اِس طرح گرائے جیسے شکاری شکارکے دوران پرندے گراتا ہے۔ اِس بے مثال کامیابی کو دنیا نے تسلیم کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ہر اہم تقریب میں خوشی سے تذکرہ کرتا ہے وہی امریکہ جہاں ماضی میںہمارے وزیرِ اعظم کا ٹیلی فون سُننے تک سے اجتناب کیاجاتا تھا اب پاکستان پر فداہے ۔ہمارے حکمرانوں کی عزت افزائی کرتا اور فیلڈمارشل کو پسندیدہ قرار دیتا ہے دنیا کی تینوں بڑی طاقتیں امریکہ ،روس اور چین اِس وقت پاکستان پر مہربان ہیں جس کی وجہ پاک فوج کی مہارت وطاقت ہے تینوں بڑی عالمی طاقتوںکو معلوم ہے کہ پاک فوج میں حیران کردینے والی صلاحیت ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کی الگ سعادت ملی ہے جبکہ بھارت کی سفارتی تنہائی عیاں ہے مگر یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جواب بھی نفرت انگیز بیانیہ رکھتے اور مایوسی کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ چاہتے ہیں ہماری حکومت اور فوج ہر جگہ ماردھاڑ کرے اور بے عزت ہواگر ایسا ہی ہے تویہ وطن پرستی ہر گز نہیں ارے بھئی پاکستان کوبھی ترقی کرنے کا حق ہے تاکہ ہر شہری خوشحال ہو اور دنیا میں عزت وتکریم کاحقدار ٹھہرے۔
شمال مغربی سرحد کی صورتحال پر ہر پاکستانی فکرمند ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان سے دوبدوہونے کی نوبت نہ آئے حکومت اور فوج کی بھی یہی سوچ ہے مگر ڈالرزملنے کی وجہ سے طالبان قیادت پاک وطن کے خلاف بھارت کی پراکسی بن چکے ہیں۔ بار بارسمجھانے اوردہشت گردی کے ثبوت دینے کے باوجود وہ نمک حرامی ترک نہیں کر رہے۔ قطر اور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات بھی اسی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اب پاکستان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں رہا کہ نمک حراموں کو طاقت سے کچل دے لیکن سوشل میڈیا پر ایسے نا ہنجاربھی ہیں جو مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان لڑنے کی بجائے افغانستان سے ہونے والے حملوں کو برداشت کرے کیوں بھئی؟کیوں برداشت کرے؟ جب پاک فوج خود سے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دھول چٹاسکتی ہے توافغانستان کے چند ہزارگوریلا جنگ لڑنے والوں کی کیا حیثیت ؟ کا ش نفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے یہ حقیقت سمجھ جائیں اور سیاست پر رواداری اور برداشت کو ترجیح دیں۔ ملک اور اداروں کا ساتھ دیناوطن پرستی ہے جس دن ایسا ہوگیا وہ دن پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ثابت ہوگا۔
٭٭٭