مصنوعی ذہانت کا بڑھتا استعمال،مائیکروسافٹ نے پھر سینکڑوں ملازمین فارغ کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 جون2025ء) مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اضافے کے نتیجے میں امریکی کمپنی مائیکروسافٹ نے مزید سینکڑوں ملازمین کو فارغ کر دیا، صرف گزشتہ ماہ کے دوران 6 ہزار ملازمین کو نکال دیا گیا تھا۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ برطرفیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کی صنعت کس طرح مصنوعی ذہانت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے اپنے مجموعی اخراجات کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ملازمین کو فارغ کرنے کا رجحان دیگر بڑی ٹیک کمپنیاں جیسے میٹا اور سیلزفورس بھی اپنا رہی ہیں، یہ کمپنیاں اندرونی طور پر مصنوعی ذہانت کو استعمال کرکے اپنی کارکردگی بہتر اور عملے کی تعداد کم کر رہی ہیں۔(جاری ہے)
یہ کمپنیاں روایتی شعبوں بالخصوص سافٹ ویئر انجینئرنگ میں ملازمتیں کم اور وسائل کو مصنوعی ذہانت سے متعلق شعبوں کی طرف منتقل کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ جون 2024 تک مائیکروسافٹ کے کل وقتی ملازمین کی تعداد تقریباً دو لاکھ 28 ہزار تھی جن میں سے 55 فیصد ملازمین امریکا میں کام کر رہے تھے، جیسے جیسےمصنوعی ذہانت ترقی کر رہی ہے ٹیک شعبے کی روایتی ملازمتیں خاص طور پر کوڈنگ، کسٹمر سپورٹ اور مواد کی تیاری جیسے کاموں میں ختم ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے ،تاہم دوسری طرف دوسری طرف اے آئی انجینئرنگ، ڈیٹا سائنس اور مشین لرننگ جیسے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مصنوعی ذہانت کر رہی
پڑھیں:
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرکو مصنوعی طور پر کم رکھا گیا ہے.تولا ایسوسی ایٹس
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 جون ۔2025 )پاکستان معروف ٹیکس اور مالیاتی امور کے ادارے تولا ایسوسی ایٹس نے انکشاف کیا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرکو مصنوعی طور پر کم رکھا گیا ہے اور ڈالر کی روپے کے مقابلے میں حقیقی ویلیو249روپے ہے تاہم مارکیٹ میں ڈالر کی مقررکردہ ویلیو282روپے ہے.(جاری ہے)
ادارے کے تازہ ترین معاشی آﺅٹ لک کے مطابق مالی سال 25 کے جولائی تا اپریل کی مدت کے لیے کرنٹ اکاﺅنٹ بیلنس میں فیکٹرنگ کے بعد پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں حقیقی قدر249روپے ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روپے کو مصنوعی طور پر کم قیمت میں رکھا گیا ہے رپورٹ میں روپے کی مستقبل کی تشخیص کے لیے چار ممکنہ منظرناموں 30 جون 2024 تک کی قیمت‘ مالی سال 24 کے لیے 665 ملین ڈالر کے اصل کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کی بنیاد ‘جی ڈی پی اورمالی ایڈجسٹمنٹ پر تحقیق کی بنیاد پر یہ جائزہ پیش کیا گیا ہے.
تولہ ایسوسی ایٹس کے آﺅٹ لک میں کہا گیا ہے کہ روپے کی قدرمیں مصنوعی کمی کے خاتمے اور ڈالر کی اصل ویلیو سے ممکنہ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ، خوراک کی افراط زر، اور اشیاءکی عالمی قیمتوں میں اضافے جیسے عوامل کا مالیاتی دباﺅ کم کیا جاسکتا ہے تاہم مانیٹری پالیسی کمیٹی نے طے کیا ہے کہ موجودہ مالیاتی پالیسی کا موقف ہدف کی حد میں افراط زر کو مستحکم کرنے کے لیے موزوں ہے. دوسری جانب عالمی سطح پر امریکی ڈالر چھ ہفتوں کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جس کی وجہ امریکہ کی معیشت میں غیر یقینی صورتحال اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارت کی جنگ کا منفی اثر ہے عالمی اسٹاک مارکیٹس نے ٹرمپ کی ٹیرف دھمکیوں کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے باوجود بحالی دکھائی ہے مگر امریکی کرنسی کی قدر کمزور ہو چکی ہے. بزنس ریکارڈر کے مطابق امریکہ میں اگلے دنوں میں جاری ہونے والے فیکٹری اور روزگار کے اعداد و شمار اس بات کی مزید وضاحت کریں گے کہ تجارتی کشیدگی امریکہ کی معیشت پر کتنا منفی اثر ڈال رہی ہے بدھ سے درآمد شدہ اسٹیل اور ایلومینیم پر امریکی ٹیرفز 25 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو جائیں گے اور اسی دن تجارتی مذاکرات میں ممالک کو اپنی بہترین پیشکشیں جمع کروانی ہوں گی. نیشنل آسٹریلیا بینک کے سینئر فارن ایکسچینج اسٹریٹجسٹ روڈریگو کیٹرل نے کہا کہ تجارتی کشیدگی میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی اور اسی وجہ سے ڈالر کی قدر کم ہو رہی ہے انہوں نے کہا کہ اس بار آسٹریلین ڈالر اور نیوزی لینڈ ڈالر نے اچھا مظاہرہ کیا ہے ڈالر انڈیکس جو امریکی کرنسی کو چھ بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں ماپتا ہے، 98.58 کی سطح تک گر گیا جو اپریل کے آخر کے بعد سب سے کم ہے یورو کی قیمت 0.2 فیصد گر کر 1.1454 ڈالر کی سطح تک پہنچ گئی جبکہ نیوزی لینڈ ڈالر اپنی سالانہ بلند ترین سطح 0.6054 تک پہنچا. پچھلے ہفتے ڈالر کو کچھ سہارا ملا تھا جب یورپی یونین کے ساتھ تجارتی مذاکرات بحال ہوئے اور ایک امریکی عدالت نے ٹرمپ کے زیادہ تر ٹیرفز کو روکا، تاہم ایک اپیل عدالت نے ان ٹیرفز کو دوبارہ نافذ کیا اس دوران چین نے امریکہ کی طرف سے ٹریڈ معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات کو سختی سے رد کیا. امریکی مالیاتی مسائل کی وجہ سے ایک ”سیل امریکہ“کا رجحان پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے امریکی اسٹاکس اور ٹریڑری بانڈز کی قدر کم ہو رہی ہے اس ہفتے سینیٹ میں حکومت کا ٹیکس کٹوتی اور اخراجات کا بل زیر غور آئے گا جو اگلے دس سالوں میں وفاقی قرضے میں 3.8 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرے گا.