City 42:
2025-06-06@06:22:46 GMT

امریکا کو 249 یوم آزادی کی مبارکباد پیش کرتاہوں؛ وزیراعظم

اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT

سٹی 42 : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عوام کو آزادی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے پرعزم ہیں ۔ 

اسلام آباد میں امریکا کی آزادی کی 249 ویں سالگرہ کے حوالے سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف اور وزیرداخلہ محسن نقوی نے تقریب میں شرکت کی۔ 

وزیراعظم شہبازشریف نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ امریکا کو 249 یوم آزادی کی مبارکباد پیش کرتاہوں، پاکستانی عوام کی جانب سے امریکی عوام کو مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تاریخی تعلقات ہیں، پاکستان اور امریکا کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں، دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط بنانے کے لے پر عزم  ہیں، دونوں ملک جمہوریت روایات اور آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں۔ 

صدرِ مملکت سے سردار سلیم حیدر سمیت پارٹی رہنماؤں کی ملاقات، اہم امور پر تبادلہ خیال

شہباز شریف نے کہاکہ امریکا پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو 1947 میں تسلیم کیا ، امریکا اور پاکستان میں 1950 میں شراکت داری شروع ہوئی، امریکا اور پاکستان دوستی کے نئے رشتے میں داخل ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر میں امریکا نے تعاون کیا ۔ 

پہلگام واقعہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن تھا، پاکستان اور بھارت کی جنگ 4 دن جاری رہی، بھارت پہلگام واقعہ کے ثبوت دنیا کونہیں دکھا سکا، پاکستان نے بھارت کے 6 طیارے مار گرائے، بھارت نے پاکستان کی شہری آبادی اور بچوں کو نشانہ بنایا، پاکستان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں اپنے دفاع کا حق استعمال کیا ، پاکستان کے بھرپور جواب پر جنگ بندی کی پیش کش ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ امریکی دوستوں نے خلوص سے کہا پاکستان کو تحمل کامظاہرہ کرناچاہیے، پاکستان نے امن کیلئے سیز فائر کی درخواست قبول کی ۔ 

متحدہ عرب امارات میں عید الاضحیٰ پر 3 ہزار قیدیوں کی رہائی کا حکم

وزیراعظم نے قیام امن کیلئے امریکی صدر کے کردار کی تعریف کی ۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کولڈ وار، اور ہاٹ وار کے خلاف ہیں، صدر ٹرمپ نے بلاشبہ ثابت کردیا وہ امن کے پیامبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدرنے پاکستان اور بھارت پرتجارت اور سرمایہ کاری کیلئے زوردیا ۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ پاکستان اور

پڑھیں:

پاک امریکا تعلقات، نئے دورکا آغاز

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ امریکا کی مداخلت پر پاک بھارت جنگ بندی ہوئی، صدر ٹرمپ نے ثابت کیا وہ امن کے پیامبر ہیں۔

انھوں نے پاکستان اور بھارت دونوں کو تجارت، سرمایہ کاری اور جنگ بندی کی تجویز دی۔ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں پاکستان ہمیشہ خطے میں امن استحکام اور خوشحالی کا خواہشمند رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے امریکی سفارتخانے میں امریکی یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

 بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ کے بعد پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پاکستان کو اپنی سفارتی حکمت عملی کے باعث اقوام عالم کی اخلاقی اور سفارتی حمایت حاصل ہوئی ہے ۔

پاکستان نے جنگی محاذ پر چینی ٹیکنالوجی سے بھارت کو فوجی شکست سے دوچارکیا ، اس کے بعد سفارتی محاذ پر کامیابی یوں حاصل کی کہ امریکا کی حمایت حاصل کرلی، اب مسئلہ کشمیر کو عالمی ایجنڈے پر لانے کی پاکستان کی دیرینہ خواہش کی تکمیل بھی ہوگئی ہے۔ جموں وکشمیر جیسے بنیادی مسائل کے پائیدار حل کے لیے امریکا سمیت عالمی برادری کی مسلسل توجہ اور مداخلت ناگزیر ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جنوبی ایشیاء میں بالا دستی کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے، گو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور پالیسی جوں کی توں ہے لیکن بھارت کو حالیہ جنگ نے بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ عالمی سطح پر بھارت کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ داخلی طور پر مودی کو شدید سیاسی تنقید کا سامنا ہے کہ اس تنقید کا گرداب مودی کے سیاسی مستقبل کو ڈبو دے گا۔ مودی نے عالمی تنہائی سے نکلنے کے لیے ایک سفارتی مہم شروع کی ہے، جس میں کانگریس کے رہنماششی تھرور اور حیدر آباد کے مسلم سیاسی لیڈر اسد الدین اویسی شامل ہیں، لیکن پاکستان نے بھی اِس ضمن میں ایک وسیع البنیاد اور موثر سفارت کاری شروع کر رکھی ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخی گہرائی اور وسعت بیکراں ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کا آغاز 15 اگست 1947 کو اس وقت ہوا جب امریکی صدر ہیری ٹرومین نے بانی پاکستان کو ایک مخلصانہ خط کے ذریعے دوستانہ روابط کی بنیاد رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اب پاک امریکا تعلقات کا نیا دور مضبوط اقتصادی تعاون سے عبارت ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان تزویراتی شراکت داری باہمی مفادات اور خطے کے استحکام پر مبنی ہوگی۔

صدر ٹرمپ نے نہ صرف ایپل کمپنی کو بھارت میں سرمایہ کاری سے روک دیا بلکہ ہدایت کی کہ وہ امریکا میں صنعت لگائے تاکہ مقامی معیشت کو فروغ ملے۔ اس کے برعکس انھوں نے پاکستان کے ساتھ کاروباری تعلقات بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا اور پاکستانی قوم کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ امریکی صدر پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت، امن کے قیام میں کردار اور بین الاقوامی امور میں متوازن رویے کو سراہ رہا ہے۔

افغان امن عمل میں پاکستان کی کوششوں کو واشنگٹن میں بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ’’ پاکستان ایک اہم جغرافیائی اور اسٹرٹیجک پارٹنر ہے جس کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔‘‘ یہ بیانات محض وقتی سیاسی تقاریر نہیں بلکہ ان کے پیچھے عالمی سیاسی منظر نامے میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیاں کارفرما ہیں۔

بھارت کی داخلی انتہا پسند پالیسیوں، مذہبی اقلیتوں کے خلاف جارحیت اور پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی نے امریکا کو مجبورکیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں توازن قائم رکھنے کے لیے پاکستان کو دوبارہ سنجیدگی سے لے۔ اسی طرح پاکستانی سیاسی قیادت کو بھی مثبت انداز میں پیش کیا گیا، جو ایک طویل عرصے کے بعد کسی امریکی صدرکی جانب سے پذیرائی کا مظہر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوری، عسکری اور سفارتی قیادت بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

 ٹرمپ کی طرف سے پاکستانی مصنوعات کی تعریف نہ صرف ہماری صنعت کے لیے اعزاز ہے بلکہ یہ ایک اقتصادی موقع بھی ہے جس سے فائدہ اٹھانا ہماری حکومتی اور نجی شعبے کی ذمے داری ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستانی صنعت کار اور کاریگر اپنی محنت، خلوص اور معیار سے دنیا میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ عالمی برادری میں پاکستان کے اقتصادی امیج کو ایک نیا رنگ دیتا ہے۔

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو برآمدات کا سب سے بڑا شعبہ ہے، آج امریکا، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں انتہائی مقبول ہے۔ ہماری کاٹن، بیڈ شیٹس، ہوم ٹیکسٹائل اور اسپورٹس ویئر کی وہ اقسام جو فیصل آباد،کراچی اور لاہور میں بنتی ہیں، بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہیں۔ سیالکوٹ کے سرجیکل آلات،گوجرانوالہ اور وزیرآباد کی کٹلری اور پاکستان کا اسپورٹس سامان، یہ سب امریکا اور یورپ کی بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے معیار کی علامت بن چکے ہیں۔ پاکستان کے آم، کینو، باسمتی چاول اور مصالحہ جات بھی امریکی منڈیوں میں پسند کیے جاتے ہیں۔

 اگر تجارتی تعلقات میں بہتری آتی ہے تو پاکستانی برآمدات کو امریکا میں نئی راہیں مل سکتی ہیں، جس سے معیشت کو غیر معمولی سہارا ملے گا۔ ثقافتی تبادلے، تعلیمی وظائف، تحقیقاتی اشتراک اور IT کے میدان میں باہمی تعاون کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں، اگر پاکستان اپنے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم، ٹیکنالوجی اور مہارت میں خود کفیل بنانے پر توجہ دے تو امریکا جیسی بڑی منڈی پاکستان کے لیے معاشی انقلاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات صرف وقتی مفادات یا سیاسی شعبدہ بازی نہیں بلکہ بین الاقوامی سفارت کاری میں بدلتے رجحانات کا پتہ دیتے ہیں۔ امریکا اگر بھارت سے مایوس ہو کر پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے تو یہ ہماری کارکردگی کا نتیجہ ہے اور ہمیں اس پر شکر گزار ہونے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ بھی ہونا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفاد کو ہر معاملے میں مقدم رکھے، دوستیاں کرے مگر عزت و وقار کے ساتھ۔ اعتماد کی جو شمع دوبارہ روشن ہو رہی ہے، اسے حکمت، وقار اور مستقل مزاجی کے ساتھ فروغ دینا ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ پاکستان اب دنیا کے نقشے پر ایک مؤثر، باعزت اور فیصلہ کن طاقت کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی پیغام ہمیں دنیا کو دینا ہے۔

 امریکا کی اس نئی سوچ کا جواب پاکستان کو نہایت دانشمندی اور بالغ نظری سے دینا ہو گا۔ ہمیں داخلی استحکام، ادارہ جاتی مضبوطی، شفافیت اور بدعنوانی کے خلاف عملی اقدامات کے ذریعے ایک قابلِ بھروسہ ریاست کا تاثر قائم رکھنا ہوگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں بین الاقوامی سطح پر اپنی سفارتی ٹیموں کو فعال بنانا ہوگا تاکہ یہ موجودہ موقع کو دیرپا مفاد میں بدل سکیں۔

دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید بہتر بنایا جائے گا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف قربانیاں دیں بلکہ ملکی معیشت اور عوام کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے یہ رابطہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط کا غماز ہے اور آیندہ دنوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو ایک نئی سمت دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

 بلاشبہ پاکستان نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے جنگی اور سفارتی محاذ پر بے پناہ کامیابی حاصل کی ہے حکومت اب داخلی سطح پر اکانومی کو بہتر بنانے کے لیے سرگرداں ہے اور اِس ضمن میں اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ عید کی چھٹیوں کے فوری بعد بجٹ پیش کیاجائے گا لیکن لگتا ہے کہ حکومت بہت سے ترقیاتی فیصلوں کو موخر کرے گی جب کہ عالمی مالیاتی اداروں کی توقعات سے بڑھ کر جی ڈی پی کی شرح افزائش کا ہدف مقرر کیا جا رہا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ حکومت اپنے معاشی اہداف کے لیے بجٹ میں کیا پالیسیاں اپناتی ہے۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق حالیہ پالیسی، بیانات اور اشارے ایک ایسے نئے دورکی شروعات کا پتہ دے رہے ہیں جس میں پاکستان کو محض ایک ضمنی کردار نہیں بلکہ ایک حقیقی شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے مستقبل کی جانب اعتماد کے ساتھ بڑھیں۔سی پیک کی صورت میں پاکستان پہلے ہی چین کے ساتھ ایک مضبوط اقتصادی راستہ اختیار کر چکا ہے، اب اگر امریکا کے ساتھ بھی معاشی تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے لیے ایشیا کے مرکز میں ایک ’’بزنس حب‘‘ بننے کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک امریکا تعلقات، نئے دورکا آغاز
  • پاکستان اور امریکا کے مابین دیرینہ اور ہمہ جہت تعلقات ہیں، گورنر خیبر پختونخوا
  • پاک بھارت جنگ بندی سے ٹرمپ نے ثابت کیا امن کے پیامبر ہیں، شہباز شریف
  • ثابت ہوگیا پہلگام واقعہ فالس فلیگ آپریشن تھا، بھارت دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا، وزیراعظم
  • پاکستان اور امریکا کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں، وزیراعظم
  • صدر ٹرمپ دنیا میں امن کے داعی، پاک بھارت جنگ بندی میں کردار کو سراہتے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • پاکستان اور امریکا تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے پر عزم ہیں، وزیراعظم
  • پاک امریکا تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں: شہباز شریف
  • پاکستان اور امریکا کے تعلقات نئے دور میں داخل ہورہے ہیں، وزیراعظم