نریندر مودی کو ابھی تک جی7اجلاس میں شرکت کی دعوت موصول نہیں ہوئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 جون2025ء) بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ابھی تک کینیڈا میں منعقد ہونے والے جی7 سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔ کینیڈا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے بعد 6برس میں یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کو جی7 اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہےجس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ظاہر ہوتی ہے ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جی7 سربراہی اجلاس15سے 17جون تک کینیڈا میں منعقد ہو رہاہے۔ نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایاکہ ابھی تک نریندر مودی کو اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔وزارت کے ترجمان رندھیر جیسوال نے 22 ئی کو نامہ نگاروں کو بتایاتھا، ان کے پاس نریندر مودی کے اجلاس میں شرکت کے بارے میں اس وقت کوئی معلومات موجودنہیں ہیں۔(جاری ہے)
کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کے ترجمان نے کہا ہے کہ اجلاس کے شرکاء کی تصدیق مناسب وقت پر کی جائیگی ۔ بھارت جی 7کا رکن نہیں ہے، جو دنیا کے سات امیر ترین ممالک کا ایک گروپ ہے۔ گروپ میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، کینیڈا اور جاپان شامل ہیں تاہم بھارت کو 2019سے ہر سال اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔کینیڈا میں سکھ رہنمائوں کے قتل اوردیگر جرائم میں مودی حکومت کے ملوث ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں ۔ سکھ خالصتان کے نام سے بھارت سے ایک علیحدہ آزادوطن کی کوشش کررہے ہیں ۔ ستمبر 2023میں اس وقت وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ممتاز سکھ رہنما اورکینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا انکشاف کیاتھا،جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ اور سفارتی روابط منقطع ہیں۔کینیڈا نے گروپ کے دیگر ممالک رہنمائوں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دے دی ہے جن میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانی اور میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام شامل ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اجلاس میں شرکت کی دعوت
پڑھیں:
نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیڈ لائن کے آگے جھک جائیں گے، راہل گاندھی
رپورٹ کے مطابق ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ایک عبوری تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوششیں جاری ہیں، کیونکہ امریکہ کیجانب سے ہندوستانی مصنوعات پر عائد جوابی ٹیرف کو عارضی طور پر 90 دن کیلئے معطل کیا گیا تھا، جسکی مدت 9 جولائی کو ختم ہورہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ انہوں نے ایکس پر پیوش گوئل کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے طنز کیا کہ پیوش گوئل جتنی چاہیں اپنی چھاتی پیٹ سکتے ہیں، مگر میرے الفاظ یاد رکھیں، ٹرمپ کی ٹیرف ڈیڈ لائن کے سامنے مودی آسانی سے جھک جائیں گے۔ راہل گاندھی کا یہ بیان پیوش گوئل کے اس تبصرے کے بعد آیا ہے جو انہوں نے جمعہ کو نئی دہلی میں منعقدہ 16ویں ٹوائے بز بی ٹو بی ایکسپو کے موقع پر دیا تھا۔ مرکزی وزیر تجارت و صنعت پیوش گوئل نے کہا تھا کہ ہندوستان کسی ڈیڈلائن کی بنیاد پر کوئی تجارتی معاہدہ نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان صرف اس وقت معاہدہ کرے گا جب وہ مکمل طور پر پختہ، اچھی طرح سے بات چیت شدہ اور قومی مفاد میں ہوگا۔
گوئل نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب دونوں فریقوں کو فائدہ ہو، قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔ ہندوستان ہمیشہ ترقی یافتہ ممالک سے بہتر معاہدوں کے لئے تیار ہے، بشرطیکہ وہ ہندوستان کے مفاد میں ہوں۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ایک عبوری تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوششیں جاری ہیں، کیونکہ امریکہ کی جانب سے ہندوستانی مصنوعات پر عائد جوابی ٹیرف کو عارضی طور پر 90 دن کے لئے معطل کیا گیا تھا، جس کی مدت 9 جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں ہندوستان اپنی مزدوروں سے متعلق مصنوعات کو عالمی مارکیٹ میں بہتر رسائی دلوانا چاہتا ہے، وہیں امریکہ اپنی زرعی مصنوعات پر ٹیرف میں رعایت چاہتا ہے۔ اس معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان کئی دور کی بات چیت ہو چکی ہے۔
پیوش گوئل کے بیان میں ہندوستانی مؤقف کو سخت اور اصولوں پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صرف ڈیڈلائن کے دباؤ میں کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔ تاہم راہل گاندھی نے حکومت کے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم مودی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مقرر کردہ ٹیرف ڈیڈلائن کے سامنے جھک جائیں گے۔ ان کا یہ تبصرہ اپوزیشن کی طرف سے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور عالمی مذاکرات پر بڑھتی تنقید کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2 اپریل کو امریکہ نے ہندوستانی مصنوعات پر 26 فیصد اضافی جوابی ٹیرف نافذ کیا تھا، جسے بعد میں 90 دنوں کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ البتہ 10 فیصد بنیادی ٹیرف اب بھی لاگو ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ 9 جولائی سے قبل کوئی عبوری معاہدہ طے پا سکتا ہے لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت صرف دباؤ میں آ کر یہ معاہدہ کرے گی، جس سے قومی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔