عید الاضحیٰ پر لذیذ گوشت کے پکوان جہاں خوشیوں کا حصہ بنتے ہیں، وہیں بے احتیاطی اور بسیار خوری شہریوں کو اسپتال بھی پہنچا دیتی ہے۔

طبی ماہرین نے خبردار کردیا ہے کہ گوشت کے حد سے زیادہ استعمال، مصالحے دار کھانوں اور غیرمحفوظ طریقے سے گوشت ذخیرہ کرنے کے باعث معدے کی بیماریاں، اسہال اور ہیضہ کے کیسز بڑھنے لگتے ہیں جو اسپتالوں پر دباؤ کا سبب بن رہے ہیں۔

شہری گوشت کو پلاسٹک کے تھیلیوں کے بجائے پالیتھن بیگز اور ایئر ٹائٹ جار میں رکھیں۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ عید کی خوشیاں برقرار رکھنے کے لیے کھانے میں اعتدال اور احتیاط ضروری ہے۔

عید الاضحیٰ کے موقع پر گوشت کے پکوان دسترخوان کی زینت بنتے ہیں لیکن بسیار خوری شہریوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادیتی ہے۔ طبی ماہرین نے کہا کہ زیادہ گوشت کھانے سے نہ صرف معدے کے مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ اسپتالوں کی ایمرجنسی میں ہیضے، اسہال اور پیٹ درد کے مریضوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔

سول اسپتال کراچی کے ایمرجنسی انچارج ڈاکٹر عمران سرور نے کہا کہ عید کے پہلے ہی دن اسپتال میں پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا جاتا ہے جو بیشتر صورتوں میں بسیار خوری اور مصالحے دار کھانوں کے بے جا استعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ گوشت کو محفوظ طریقے سے استعمال کیا جائے اور روزانہ محدود مقدار میں کھایا جائے۔ طبی ماہرین نے واضح کیا کہ ایک بالغ فرد روزانہ 100 سے 150 گرام گوشت کھا سکتا ہے، بچے 70 گرام گوشت یومیہ کھا سکتے ہیں جبکہ دائمی امراض میں مبتلا افراد کے لیے اس سے بھی کم مقدار تجویز کی گئی ہے۔

بلڈ پریشر، شوگر، کولسٹرول یا یورک ایسڈ کے مریضوں کو خاص احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عمران سرور کا مزید کہنا تھا کہ بکرے کا گوشت گائے کے گوشت کے مقابلے میں ہلکا اور صحت بخش سمجھا جاتا ہے، لیکن اسے بھی ہلکے مصالحوں میں پکایا جائے اور دہی، سلاد، پھل و سبزیوں کے ساتھ استعمال کیا جائے تاکہ ہاضمے کے مسائل سے بچا جا سکے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان بسیار خوری ماہرین نے گوشت کے

پڑھیں:

پاکستان میں عید الاضحیٰ پر کون سی نسلوں کے جانور قربان کیے جاتے ہیں؟

دنیا بھر میں مسلمان ہر سال سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں جس کے لیے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ خوبصورت اور زیادہ اچھا جانور اللّٰہ کی راہ میں قربان کرے۔ پاکستان میں بھی ہر سال لاکھوں لوگ خوبصورت، بھاری بھرکم اور نایاب نسل کے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔

پاکستان کے ہر صوبے میں قربانی کے لیے مختلف نسل کے بیل پسند کیے جاتے ہیں۔ پنجاب میں ساہیوالی، فتح جنگی(دہنی)، براہمن، سندھ میں سلگر، چولستانی، کراس، خیبرپختونخوا میں آسٹریلین کراس اور بھینسے جبکہ بلوچستان میں ساہیوالی، بھگ ناڑی اور داجلی نسل کے جانور قربانی کے لیے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔

ساہیوالی نسل کے بیل

پاکستان میں ساہیوال نسل کی گائے اپنے دودھ کے معیار کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس نسل کے بیل تیز براؤن رنگ کے ہوتے ہیں۔ ان  کا قد درمیانہ ہوتا ہے البتہ ان کا وزن اور جسامت بہت بھاری ہوتی ہے۔ اس نسل کو اس لیے بھی پسند کیا جاتا ہے کہ یہ زیادہ مستی کرنے والے نہیں ہوتے اور گھروں میں بچے آرام سے ان کے خدمت کر لیتے ہیں۔

دھنی نسل کے بیل

دھنی نسل کے بیل خطہ پوٹھوار میں بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ نسل پنجاب کے علاقوں اٹک اور فتح جنگ سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے فتح جنگی نسل بھی کہا جاتا ہے۔ اس نسل کے بیلوں کے شوقین افراد اٹک، راولپنڈی، گجر خان، فتح جنگ، تلہ گنگ، چکوال میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس نسل کے بیل اونچے قد کے ہوتے ہیں اور ان میں غصے والا نخرہ پایا جاتا ہے۔ ان بیلوں کو رکھنا یا سنبھالنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس نسل کے بیلوں کو بیل ریس میں دوڑایا بھی جاتا ہے۔

براہمن اور سلگر نسل کے بیل

پاکستان میں ویسے تو مقامی نسل جسے دیسی کہا جاتا ہے زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ تاہم اب چند سالوں سے باہر ملک کی نسلوں کو بھی زیادہ پسند کیا جاتا ہے ان میں براہمن اور سلگر نسل کو کراچی اور پنجاب کے کچھ شہروں میں قربانی کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔ اس نسل کے بیلوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ دیسی نسل کے بیلوں سے کئی گنا زیادہ وزن کے ہوتے ہیں اور ان کا قد بھی دیسی نسل کے جانوروں سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

بھاگ ناڑی نسل کے بیل

بھاگ ناڑی بلوچستان کے ضلع بولان میں واقع ہے۔ یہ ایک زرخیز وادی ہے جو قدرتی چراگاہوں سے مالا مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بیل قدرتی غذا، کھلی چراگاہوں اور خاص مقامی نسل کی بدولت نہایت توانا، مضبوط اور دیدہ زیب ہوتے ہیں۔ ان جانوروں کی خاص بات ان کا قد، وزن، مضبوط جسمانی ساخت اور سفید و سیاہ دھاری دار رنگت ہے، جو دور سے ہی لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ یہ بیل نہ صرف قربانی کے لیے پسند کیے جاتے ہیں بلکہ انہیں روایتی بیل دوڑوں اور مقابلہ حسن میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔

چولستانی نسل کے بیل

صوبہ پنجاب کے علاقے راجن پور اور رحیم یار خان کی ’چولستانی نسل‘ کو بھی قربانی کے لیے پنجاب اور کراچی میں پسند کیا جاتا ہے۔ اس نسل کے بیلوں کو نکرہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان بیلوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی آنکھیں، کان اور ناک گلابی ہوتے ہیں اس لیے انہیں گلابی بھی کہا جاتا ہے۔ اور ان بیلوں کا رنگ زیادہ تر سفید ہوتا ہے جبکہ کچھ میں ہلکے ہلکے نقطوں کے نشان ہوتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بیل پاکستان عیدالاضحیٰ

متعلقہ مضامین

  • عید کی دعوتیں اُڑائیں لیکن اعتدال کا دامن نہ چھوڑیں: ماہرین کا مشورہ
  • عید کی دعوتیں اُڑائیں مگر شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کیلئے ماہرین کا مشورہ
  • کوئٹہ، عید الاضحیٰ کے دوران تفریحی مقامات پر پابندی
  • عید پر گوشت کا استعمال اور صحت کا خیال کیسے رکھا جائے؟
  • شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ کے باوجود عید پر قربانی کا گوشت کیسے محفوظ کر سکتے ہیں؟ ماہرین نے بتا دیا
  • عید قرباں سے قبل مارکیٹوں میں منافع خوری عروج پر پہنچ گئی
  • پاکستان میں عید الاضحیٰ پر کون سی نسلوں کے جانور قربان کیے جاتے ہیں؟
  • اگلی جنگ ہوئی تو ٹرمپ کو رکوانے کا وقت نہیں مل پائے گا، بلاول بھٹو نے خبردار کردیا
  • عید الاضحیٰ پر حکومت پنجاب کی تیاریاں مکمل، ہزاروں لیٹر عرق گلاب اور فینائل استعمال کیا جائے گا