Daily Sub News:
2025-06-09@13:26:44 GMT

عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘

اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT

عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘

عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ WhatsAppFacebookTwitter 0 9 June, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

میں اپنے ایک کالم میں عبدالرحمان پیشاوری کا ذکر کرچکا ہوں جس نے چھبیس سال کی عمر میں، علی گڑھ کالج کو الوداع کہا اور ترکوں کے شانہ بہ شانہ ’جنگِ بلقان‘ لڑنے ایک صدی پہلے کے قسطنطنیہ جاپہنچا۔ برادرِ عزیز محترم ’خلیل طوقار‘ کو میں پاکستان میں ترکی کا غیررسمی سفیر کہا کرتا ہوں۔ وہ گذشتہ تین سال سے پاکستان میں ’’یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ‘‘ سے منسلک، خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کمال کی اُردو بولتے ہیں۔ استنبول یونیورسٹی کے شعبۂِ اُردو کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ مارچ کا ذکر ہے کہ وہ ترکی سفارتخانے کے ایک سینئر اہلکار کے ہمراہ مجھے ملنے آئے اور مجھے دو دعوت نامے پیش کئے۔ دونوں ایک ہی تقریب سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دعوت نامہ استنبول یونیورسٹی کی طرف سے تھا اور دوسرا ترکیہ کے عزت مآب سفیر کی طرف سے۔ دو روزہ تقریبات کا تعلق پاکستان کے ایک فرزندِ جلیل وجمیل، عبدالرحمان پیشاوری سے تھا جس کی شہادت کو سو برس ہوچلے تھے۔ ترکیہ عبدالرحمان کی یاد تازہ کرنے کے لئے، برسی کی سوسالہ تقریبات کا اہتمام کر رہا تھا۔ میں بتا چکا ہوں کہ کیسے پشاور کے انتہائی متمول تاجر، بلکہ رئیس التجّار، حاجی غلام صمدانی کا بیٹا عبدالرحمان اعلی تعلیم کے لئے علی گڑھ کالج پہنچا۔ یہ ترکوں پہ اُفتاد کا دور تھا۔ حسرت موہانی جیسے بغاوت سرشت کی صحبت نے عبدالرحمان کی سوچ میں کچھ کر گذرنے کی چنگاری سلگائی۔ استنبول جانے کے لئے ڈاکٹر انصاری مشن کا دریچہ کھُلا تو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ دورانِ سفر 13 دسمبر1912؁ کو بمبئی سے اپنی بہن کے نام خط میں لکھا __ ’’یہ بیان کرنے سے عاجز ہوں کہ کن مشکلات سے اپنا سرمایۂِ سفر فراہم کرکے، کس دِل سے بلقان کی طرف جا رہا ہوں۔ میں اپنے مصارفِ سفر خود ادا کروں گا جن کا اندازہ ایک ہزار فی کس لگایا گیا ہے۔ اِس صورت میں کہ میں نے نہ تو جناب قبلہ والد صاحب کو اطلاع دی اور نہ جناب بھائی (حاجی محمد امین) کو خبر کی اور نہ کسی اور ہی سے امداد طلب کی۔ خیال کرو کہ میں نے یہ رقم کس طرح حاصل کی۔ میری بہن! میں نے اپنا تمام لباس، سوٹ وغیرہ فروخت کردیے۔ کتابیں اور جتنی فالتو چیزیں تھیں، سب طالب علموں نے گراں قیمت پر مجھ سے خرید لیں۔ مبلغ دو سو روپے میرے رفیق فضل امین نے دیے۔ اب میرے پاس صرف چند خاکی سوٹ اور دو جوڑے کپڑے رہ گئے ہیں اور بس! لیکن دِل مطمئن ہے کہ اللہ تعالی نے میر ا دستِ سوال کسی کے سامنے نہ پھیلانے دیا۔ میری بہن! گو کہ میرے پاس اِس وقت بہت کم رقم ہے لیکن غم نہ کرو۔ عبدالرحمان جہاں جائے گا، اپنی روزی پا لے گا اور انشاء اللہ عزت کی روزی حاصل کرے گا۔ آغا لالہ جان نے اس لئے مجھے رقم نہیں بھیجی کہ میں بلقان نہ جاسکوں۔ بہن! نوشتۂِ تقدیر نے فرصت نہیں دی کہ چند روز اور توقف کرتا۔ اپنے محبوب کی محبت، یعنی بلقان پہنچنے کی بے قراری میں ازحد محو رہتا ہوں۔ حتّیٰ کہ اپنی بیماری کو بھی بھول چکا ہوں دَر دیست دردِ عشق کہ اندر علاج اُو ہر چند سعی بیش نُمائی بتر شود

(عشق کا دَرد بھی کیا دَرد ہے کہ اُس کے علاج کے لئے جس قدر بھی کوشش کی جائے، اُسی قدر بڑھتا چلا جاتا ہے۔)

علامہ اقبال نے اِس دَردِ عشق کو ’’لذّتِ آشنائی‘‘ کا نام دیا ہے دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دِل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی عبدالرحمان پیشاوری، اپنے رَگ وپے میں لذّتِ آشنائی کی آگ لئے، رشتہ وپیوند کے سارے بندھنوں سے آزاد ہوکر، اپنے رئیس التجّار باپ کی بے کراں دولت اور جاگیروں کو مُشتِ خس وخاشاک جان کر ’دیارِ عشق‘ کو نکل گیا اور وہیں کا ہوکے رہ گیا۔ 1921؁ میں جب مصطفی کمال پاشا نے عبدالرحمان پیشاوری کو ترکی کا پہلا سفیر نامزد کرکے کابل بھیجا تو خاندان والوں نے اُسے پشاور آنے اور ایک بڑا جشن بپا کرنے کی دعوت دی۔ عبدالرحمان نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں ایک غلام زمین پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ 1922 ؁ میں والد حاجی غلام صمدانی بیٹے سے ملنے کابل گئے تو اُس نے ایک فرمانبردار بیٹے کے طورپر بے پناہ خدمت کی۔ باپ نے ایک دِن ایک تھیلی کھول کر پچاس ہزار روپے (جو آج کے پتہ نہیں کتنے کروڑ ہوں گے) عبدالرحمن کو دیتے ہوئے کہا __ ’’بیٹا یہ میرے مال وجائیداد سے تمہارا حصہ ہے۔‘‘ عبدالرحمان نے معذرت کی۔ والد نے اصرار کیا تو یہ رقم ترکی اور ہند کے مدارس اور تعلیمی اداروں میں تقسیم کردی۔ استنبول یونیورسٹی کے ایک ہال میں پیشاوری سے متعلق ایک سو کے لگ بھگ انتہائی نادر ونایاب تصاویر کی خوبصورت نمائش آراستہ تھی۔ مجھے، استنبول کے ڈپٹی گورنر کے ہمراہ اِس نمائش کے افتتاح کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہر تصویر، تاریخ کا ایک ورق تھی جو ایک داستان کہہ رہی تھی۔ پتہ چلا کہ یہ تحقیقی کاوش بھی میرے دوست خلیل طوقار کی ہے۔ کاش پاکستان کا کوئی ادارہ اِن تصاویر کو، تاریخی حوالوں کے ساتھ، البم کی شکل میں شائع کرسکے۔ 1979؁ میں، عبدالرحمان پیشاوری کے چھوٹے بھائی محمد یوسف نے ’’غازی عبدالرحمان شہید پیشاوری‘‘ کے عنوان سے کوئی ڈیڑھ سو صفحات کی ایک چھوٹی سی کتاب بھی مرتب کی جس پر مصنف کے طورپر پروفیسر ابوسلمان شاہجہانپوری کا نام درج ہے۔ دیباچے میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی مسودہ معروف شاعر حفیظ ہوشیارپوری نے اُس وقت تیار کیا تھا جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے۔ اِس کتاب کو بھی نئے اضافوں کے ساتھ بہ اندازِ نو چھپنا چاہیے۔ صحابی رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزارِ اقدس پر حاضری کے اگلے دِن، تقریباتی مصروفیات سے فارغ ہوکر میں، دو جواں سال دوستوں کے ہمراہ یونیورسٹی سے نکلا اور اُس قدیم تاریخی قبرستان کا رُخ کیا جہاں عبدالرحمان پیشاوری آسودۂِ خاک ہے۔ ماشکا نامی قبرستان، ایک جنگل کی طرح ہے جس میں سایہ دار درختوں کی گھنی چھائوں میں قدیم پشتوں اور شکستہ کتبوں والی قبریں حدِّ نگاہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جب 1925؁ میں عبدالرحمان کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیاگیا، تو پہلو میں جمال الدین افغانی کی قبر تھی جو 1897؁ میں استنبول میں ہی انتقال کرگئے تھے۔ 1944؁ میں ظاہر شاہ کی درخواست پر اُن کی میّت افغانستان لا کر کابل یونیورسٹی کے احاطے میں دفنا دی گئی۔ پیشاوری کی لوحِ مزار پہ دو پرچم کندہ ہیں۔ ایک ترکی اور دوسرا پاکستان کا۔ نیچے ترکی زبان میں لکھا ہے __ ’’فاتحہ عبدالرحمن غلام صمدانی کی روحِ پاک پر، جو جنگ بلقان کے زمانے میں، ہلالِ احمر ہند کے ساتھ استنبول آیا۔ جنگِ بلقان اور جنگِ آزادی میں، ترکی کے لئے اپنا خون بہایا۔ 1925؁ میں اُسے ایک نامعلوم شخص نے شہید کردیا۔ پیشاوری نے افغانستان میں پہلے ترک سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔‘‘ میں فاتحہ پڑھ کے گاڑی کی طرف چلا تو ہمراہی نوجوان بولا__ ’’کوئی دو ماہ پہلے پاکستان کے چیف جسٹس، عزت مآب یحییٰ آفریدی بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ عبدالرحمان پیشاوری کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آئے تھے۔ غالباً اُن کی بیگم صاحبہ، پیشاوری کے خاندان سے ہیں۔‘‘ مجھے اِس کا علم نہیں۔ اگر ایسا ہے تو بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ایک بوڑھی ترک خاتون، فصیلِ قبرستان سے لگی بیٹھی تھی۔ بولی ’’یہاں تو میرے خاندان کی قبریں ہیں۔ تم لوگ کس لئے آئے ہو؟ میرے ساتھ آئے نوجوان نے ترکی میں اُسے بتایا تو وہ بولی __ ’’ہاں ہاں! وہ بھی تو ہمار ا ہی ہے۔‘‘ واقعی ’’عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی‘‘

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپرتگال نے یوئیفانیشنز لیگ کا ٹائٹل دوسری بار جیت لیا غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ مُودی کا ”نیو نارمل”  اور  راکھ ہوتا سیندور! اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دن سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقے ارتھنگ: فطرت کے لمس میں شفا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: عبدالرحمان پیشاوری عجب چیز ہے لذ کے ہمراہ کے ساتھ نے ایک کی طرف کے لئے کہ میں

پڑھیں:

عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘

عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ WhatsAppFacebookTwitter 0 9 June, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

میں اپنے ایک کالم میں عبدالرحمان پیشاوری کا ذکر کرچکا ہوں جس نے چھبیس سال کی عمر میں، علی گڑھ کالج کو الوداع کہا اور ترکوں کے شانہ بہ شانہ ’جنگِ بلقان‘ لڑنے ایک صدی پہلے کے قسطنطنیہ جاپہنچا۔ برادرِ عزیز محترم ’خلیل طوقار‘ کو میں پاکستان میں ترکی کا غیررسمی سفیر کہا کرتا ہوں۔ وہ گذشتہ تین سال سے پاکستان میں ’’یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ‘‘ سے منسلک، خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کمال کی اُردو بولتے ہیں۔ استنبول یونیورسٹی کے شعبۂِ اُردو کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ مارچ کا ذکر ہے کہ وہ ترکی سفارتخانے کے ایک سینئر اہلکار کے ہمراہ مجھے ملنے آئے اور مجھے دو دعوت نامے پیش کئے۔ دونوں ایک ہی تقریب سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دعوت نامہ استنبول یونیورسٹی کی طرف سے تھا اور دوسرا ترکیہ کے عزت مآب سفیر کی طرف سے۔ دو روزہ تقریبات کا تعلق پاکستان کے ایک فرزندِ جلیل وجمیل، عبدالرحمان پیشاوری سے تھا جس کی شہادت کو سو برس ہوچلے تھے۔ ترکیہ عبدالرحمان کی یاد تازہ کرنے کے لئے، برسی کی سوسالہ تقریبات کا اہتمام کر رہا تھا۔ میں بتا چکا ہوں کہ کیسے پشاور کے انتہائی متمول تاجر، بلکہ رئیس التجّار، حاجی غلام صمدانی کا بیٹا عبدالرحمان اعلی تعلیم کے لئے علی گڑھ کالج پہنچا۔ یہ ترکوں پہ اُفتاد کا دور تھا۔ حسرت موہانی جیسے بغاوت سرشت کی صحبت نے عبدالرحمان کی سوچ میں کچھ کر گذرنے کی چنگاری سلگائی۔ استنبول جانے کے لئے ڈاکٹر انصاری مشن کا دریچہ کھُلا تو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ دورانِ سفر 13 دسمبر1912؁ کو بمبئی سے اپنی بہن کے نام خط میں لکھا __ ’’یہ بیان کرنے سے عاجز ہوں کہ کن مشکلات سے اپنا سرمایۂِ سفر فراہم کرکے، کس دِل سے بلقان کی طرف جا رہا ہوں۔ میں اپنے مصارفِ سفر خود ادا کروں گا جن کا اندازہ ایک ہزار فی کس لگایا گیا ہے۔ اِس صورت میں کہ میں نے نہ تو جناب قبلہ والد صاحب کو اطلاع دی اور نہ جناب بھائی (حاجی محمد امین) کو خبر کی اور نہ کسی اور ہی سے امداد طلب کی۔ خیال کرو کہ میں نے یہ رقم کس طرح حاصل کی۔ میری بہن! میں نے اپنا تمام لباس، سوٹ وغیرہ فروخت کردیے۔ کتابیں اور جتنی فالتو چیزیں تھیں، سب طالب علموں نے گراں قیمت پر مجھ سے خرید لیں۔ مبلغ دو سو روپے میرے رفیق فضل امین نے دیے۔ اب میرے پاس صرف چند خاکی سوٹ اور دو جوڑے کپڑے رہ گئے ہیں اور بس! لیکن دِل مطمئن ہے کہ اللہ تعالی نے میر ا دستِ سوال کسی کے سامنے نہ پھیلانے دیا۔ میری بہن! گو کہ میرے پاس اِس وقت بہت کم رقم ہے لیکن غم نہ کرو۔ عبدالرحمان جہاں جائے گا، اپنی روزی پا لے گا اور انشاء اللہ عزت کی روزی حاصل کرے گا۔ آغا لالہ جان نے اس لئے مجھے رقم نہیں بھیجی کہ میں بلقان نہ جاسکوں۔ بہن! نوشتۂِ تقدیر نے فرصت نہیں دی کہ چند روز اور توقف کرتا۔ اپنے محبوب کی محبت، یعنی بلقان پہنچنے کی بے قراری میں ازحد محو رہتا ہوں۔ حتّیٰ کہ اپنی بیماری کو بھی بھول چکا ہوں دَر دیست دردِ عشق کہ اندر علاج اُو ہر چند سعی بیش نُمائی بتر شود

(عشق کا دَرد بھی کیا دَرد ہے کہ اُس کے علاج کے لئے جس قدر بھی کوشش کی جائے، اُسی قدر بڑھتا چلا جاتا ہے۔)

علامہ اقبال نے اِس دَردِ عشق کو ’’لذّتِ آشنائی‘‘ کا نام دیا ہے دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دِل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی عبدالرحمان پیشاوری، اپنے رَگ وپے میں لذّتِ آشنائی کی آگ لئے، رشتہ وپیوند کے سارے بندھنوں سے آزاد ہوکر، اپنے رئیس التجّار باپ کی بے کراں دولت اور جاگیروں کو مُشتِ خس وخاشاک جان کر ’دیارِ عشق‘ کو نکل گیا اور وہیں کا ہوکے رہ گیا۔ 1921؁ میں جب مصطفی کمال پاشا نے عبدالرحمان پیشاوری کو ترکی کا پہلا سفیر نامزد کرکے کابل بھیجا تو خاندان والوں نے اُسے پشاور آنے اور ایک بڑا جشن بپا کرنے کی دعوت دی۔ عبدالرحمان نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں ایک غلام زمین پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ 1922 ؁ میں والد حاجی غلام صمدانی بیٹے سے ملنے کابل گئے تو اُس نے ایک فرمانبردار بیٹے کے طورپر بے پناہ خدمت کی۔ باپ نے ایک دِن ایک تھیلی کھول کر پچاس ہزار روپے (جو آج کے پتہ نہیں کتنے کروڑ ہوں گے) عبدالرحمن کو دیتے ہوئے کہا __ ’’بیٹا یہ میرے مال وجائیداد سے تمہارا حصہ ہے۔‘‘ عبدالرحمان نے معذرت کی۔ والد نے اصرار کیا تو یہ رقم ترکی اور ہند کے مدارس اور تعلیمی اداروں میں تقسیم کردی۔ استنبول یونیورسٹی کے ایک ہال میں پیشاوری سے متعلق ایک سو کے لگ بھگ انتہائی نادر ونایاب تصاویر کی خوبصورت نمائش آراستہ تھی۔ مجھے، استنبول کے ڈپٹی گورنر کے ہمراہ اِس نمائش کے افتتاح کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہر تصویر، تاریخ کا ایک ورق تھی جو ایک داستان کہہ رہی تھی۔ پتہ چلا کہ یہ تحقیقی کاوش بھی میرے دوست خلیل طوقار کی ہے۔ کاش پاکستان کا کوئی ادارہ اِن تصاویر کو، تاریخی حوالوں کے ساتھ، البم کی شکل میں شائع کرسکے۔ 1979؁ میں، عبدالرحمان پیشاوری کے چھوٹے بھائی محمد یوسف نے ’’غازی عبدالرحمان شہید پیشاوری‘‘ کے عنوان سے کوئی ڈیڑھ سو صفحات کی ایک چھوٹی سی کتاب بھی مرتب کی جس پر مصنف کے طورپر پروفیسر ابوسلمان شاہجہانپوری کا نام درج ہے۔ دیباچے میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی مسودہ معروف شاعر حفیظ ہوشیارپوری نے اُس وقت تیار کیا تھا جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے۔ اِس کتاب کو بھی نئے اضافوں کے ساتھ بہ اندازِ نو چھپنا چاہیے۔ صحابی رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزارِ اقدس پر حاضری کے اگلے دِن، تقریباتی مصروفیات سے فارغ ہوکر میں، دو جواں سال دوستوں کے ہمراہ یونیورسٹی سے نکلا اور اُس قدیم تاریخی قبرستان کا رُخ کیا جہاں عبدالرحمان پیشاوری آسودۂِ خاک ہے۔ ماشکا نامی قبرستان، ایک جنگل کی طرح ہے جس میں سایہ دار درختوں کی گھنی چھائوں میں قدیم پشتوں اور شکستہ کتبوں والی قبریں حدِّ نگاہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جب 1925؁ میں عبدالرحمان کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیاگیا، تو پہلو میں جمال الدین افغانی کی قبر تھی جو 1897؁ میں استنبول میں ہی انتقال کرگئے تھے۔ 1944؁ میں ظاہر شاہ کی درخواست پر اُن کی میّت افغانستان لا کر کابل یونیورسٹی کے احاطے میں دفنا دی گئی۔ پیشاوری کی لوحِ مزار پہ دو پرچم کندہ ہیں۔ ایک ترکی اور دوسرا پاکستان کا۔ نیچے ترکی زبان میں لکھا ہے __ ’’فاتحہ عبدالرحمن غلام صمدانی کی روحِ پاک پر، جو جنگ بلقان کے زمانے میں، ہلالِ احمر ہند کے ساتھ استنبول آیا۔ جنگِ بلقان اور جنگِ آزادی میں، ترکی کے لئے اپنا خون بہایا۔ 1925؁ میں اُسے ایک نامعلوم شخص نے شہید کردیا۔ پیشاوری نے افغانستان میں پہلے ترک سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔‘‘ میں فاتحہ پڑھ کے گاڑی کی طرف چلا تو ہمراہی نوجوان بولا__ ’’کوئی دو ماہ پہلے پاکستان کے چیف جسٹس، عزت مآب یحییٰ آفریدی بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ عبدالرحمان پیشاوری کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آئے تھے۔ غالباً اُن کی بیگم صاحبہ، پیشاوری کے خاندان سے ہیں۔‘‘ مجھے اِس کا علم نہیں۔ اگر ایسا ہے تو بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ایک بوڑھی ترک خاتون، فصیلِ قبرستان سے لگی بیٹھی تھی۔ بولی ’’یہاں تو میرے خاندان کی قبریں ہیں۔ تم لوگ کس لئے آئے ہو؟ میرے ساتھ آئے نوجوان نے ترکی میں اُسے بتایا تو وہ بولی __ ’’ہاں ہاں! وہ بھی تو ہمار ا ہی ہے۔‘‘ واقعی ’’عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی‘‘

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپرتگال نے یوئیفانیشنز لیگ کا ٹائٹل دوسری بار جیت لیا غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ مُودی کا ”نیو نارمل”  اور  راکھ ہوتا سیندور! اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دن سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقے ارتھنگ: فطرت کے لمس میں شفا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین