اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 10 جون 2025ء ) معروف ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس میں فیڈرل پراسیکیوٹر نے 2 رکنی ٹیم مقرر کردی۔ تفصیلات کے مطابق ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا جس کے بعد عدالت نے جسمانی ریمانڈ پر ملزم کو پولیس کے حوالے کردیا جو شناخت پریڈ کے لیے جیل میں بند ہے، ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قتل کے معاملے میں فیڈرل پراسیکیوٹر کی جانب سے کیس میں 2 رکنی ٹیم مقرر کر دی گئی ہے، پراسیکوشن کی 2 رکنی ٹیم میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر عدنان علی اور راجہ نوید کیانی شامل ہیں۔

بتایا جارہا ہے کہ ملزم کے خلاف درج ایف آئی آر میں قانونی کمزوریاں سامنے آئی ہیں، اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ تمام تر شہادتیں اکٹھی کرلی جائیں تو بھی ملزم عمر حیات کوسزا دلوانا مشکل ہوگا، سب سے پہلی کمزوری یہ ہے کہ ایف آئی آر میں عینی شہادت موجود نہیں، ایف آئی آر ٹمپرڈ لگتی ہے، مقدمہ کی مدعیہ مقتولہ کی والدہ کا ایک مؤقف میڈیا کی زینت بنا کہ وہ گھر سے باہر تھیں لیکن ایف آئی آر میں انہیں گھر پر ظاہرکیا گیا، علاوہ ازیں ایف آئی آر میں صرف پستول کا لفظ بھی ادھورا ہے، مقدمے میں وجہ عناد کا ذکر نہیں اور ملزم نامعلوم ہے، ساری شہادتیں تکنیکی بنیادوں پر لی گئی ہیں اب چالان بھی تکنیکی بنیادوں پر تیار ہوگا۔

(جاری ہے)

ٹک ٹاکر ثناء یوسف کو قتل کرنے والے ملزم عمر حیات عرف کاکا کے والد امجد کا کہنا ہے کہ میرا دل اس بات پر راضی نہیں کہ ثناء یوسف کا قتل میرے بیٹے نے کیا ہے، مجھے قتل کے بارے میں کچھ نہیں پتا حتیٰ کہ مجھے بیٹے کے ثناء یوسف سے تعلق اور دوستی کا علم تک نہیں تھا، میں نے بھی ویڈیو میں دیکھا ہے کہ میرا بیٹا ثناء یوسف کے گھر سے باہر نکلتا ہے لیکن اس نے فائرنگ نہیں کی، ثناء یوسف سے اس کا کیا تعلق تھا وہ ثناء کے گھر کیوں گیا؟ اور ثناء کو قتل کیا یہ میرا دل نہیں مانتا، اصل صورتحال اللہ ہی جانتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ویڈیو بہت چھوٹی سی ہے اس میں نہیں دیکھا گیا کہ میرے بیٹے نے قتل کیا بھی ہے یا نہیں، میں نہیں مانتا کہ میرے بیٹے نے ثناء یوسف کا قتل کیا ہے، اگر میرا بیٹا قتل میں ملوث ہے تو اس کو قانون کے مطابق ضرور سزا ملنی چاہیئے لیکن مجھے انصاف چاہیئے اپنے بیٹے کیلئے نہیں بلکہ اس معصوم لڑکی کیلئے بھی جس کا قتل ہوا ہے پھر چاہے وہ قتل میرے بیٹے نے یا کسی نے بھی کیا ہو میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹک ٹاکر ثناء یوسف میرے بیٹے نے رکنی ٹیم

پڑھیں:

یہ ظلم کب تک ؟

ثناء یوسف اب نہیں رہی، وہ ایک نوجوان ٹک ٹاکر تھی۔ خوبصورت، زندہ دل خوابوں سے بھری ہوئی آنکھیں لیے سوشل میڈیا کی چکا چوند دنیا میں اپنی شناخت بنانے کی تگ و دو میں مصروف۔ مگر اب وہ صرف ایک خبر ہے، ایک لاش، ایک شمار میں اضافہ جو روز بڑھتا ہے، وہ خواتین جو مار دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عزت کے نام پر، بعض اوقات نہیں کہنے پر،کبھی انکار پر،کبھی شک پر اور اکثر تو صرف اس لیے کہ وہ عورت تھیں۔

ثناء کی کہانی وہ کہانی ہے جو اس سرزمین کی ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ مگر ہر بار ہم سنتے ہیں دل تھوڑا دکھتا ہے ،کچھ دن اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر خاموشی سناٹا اور قاتلوں کا اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مردوں کی انا عورتوں کے لہو سے سیراب ہوتی ہے۔ جہاں نہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک گناہ ہے، ایک سزا ہے جس کی قیمت جان سے چکانی پڑتی ہے۔

ثناء کا جرم کیا تھا؟ کہ اس نے ایک رشتے، ایک مرد ، ایک رویے کو نہ کہا؟ یا یہ کہ وہ خود کو اپنی شرائط پر جینے کی کوشش کر رہی تھی؟ جو بھی تھا اس کا فیصلہ گولی سے ہوا۔ اس کی زندگی جو شاید کسی کے لیے بے معنی تھی لیکن اس کی ماں بہن دوست یا اس کے خود کے خوابوں کے لیے قیمتی ترین بیدردی سے چھین لی گئی۔

ثناء یوسف، قندیل بلوچ کی یاد دلاتی ہے۔ قندیل جو مذہبی منافقتوں، سماجی دوغلے پن اور مردانہ اقدارکی دیواروں پر ناخوشگوار مگر سچائی سے بھرے آئینے لٹکا رہی تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، عزت کے نام پر اس کا بھائی جو خاندان کی عزت بچانے آیا تھا، دراصل اپنی مردانگی کے زخم چاٹ رہا تھا جو قندیل کی بیباکی اور خود اختیاری سے خوفزدہ تھا۔

قندیل ہو یا ثناء سب عورتیں ایک ہی جرم کی سزا وار ٹھہرتی ہیں، خود کو انسان سمجھنے کا جرم خود کو اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگنے کا جرم۔ یہی جرم خدیجہ صدیقی کا بھی تھا جسے لاہورکی ایک سڑک پر چاقو سے 23 دفعہ وار کیا گیا اس لیے کہ اس نے جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ایک بااثر شخص کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ زندہ رہی مگر اس کی روح پرکتنے زخم ثبت ہوئے کون جانتا ہے۔

اسی طرح نور مقدم جس کا قصہ کوئی پرانی کہانی نہیں بلکہ جدید پاکستان کے طاقتور اشرافیہ کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ نور کا سر قلم کر دیا گیا اور قاتل کی آنکھوں میں شرمندگی نہیں بلکہ تکبر تھا۔ جیسے کہ کہہ رہا ہو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں مجھے کچھ نہیں ہوگا اور واقعی یہ ملک ایک ایسی پناہ گاہ بن چکا ہے جہاں طاقتور مرد عورت کو قتل کرنے کے بعد بھی فخر سے سر بلند رکھتے ہیں، جہاں قانون انصاف سے پہلے رشتے داری، دولت اور اثر و رسوخ کو پہچانتا ہے۔

اگر ہم تھوڑا اور پیچھے جائیں تو ہمارے حافظے میں مختاراں مائی کا دکھ اب تک تازہ ہے جو گاؤں کے مردوں کی اجتماعی ہوس کا نشانہ بنی اور پھر بھی کھڑی رہی۔ اس نے اپنی آواز نہ صرف بلند کی بلکہ ریاست کے ایوانوں تک پہنچائی۔ مگر اس کی جنگ آسان نہ تھی، اسے خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اس پر انگلیاں اٹھیں مگر وہ ٹوٹی نہیں۔

اور پھر ایک اور نام آتا ہے سبین محمود جو کراچی میں روشن خیالی مکالمے اور سوچ کی آزادی کی علامت تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، اس لیے کہ وہ بولتی تھی اور عورت جب بولتی ہے، سوال اٹھاتی ہے تو خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ سب کہانیاں اس معاشرے کے بدنما چہرے پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہم عورتوں کو عزت کے مقام پر بٹھانے کی بات کرتے ہیں مگر جب وہ جینے کا سانس لینے کا محبت کرنے کا انکارکرنے کا یا صرف نہیں کہنے کا حق مانگتی ہیں تو انھیں دفن کر دیا جاتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام کی گٹھ جوڑ ہے۔ یہاں عورت صرف تب تک قابل قبول ہے جب وہ اطاعت گزار ہو خاموش ہو سجی سنوری ہو مرد کے لیے باعث زینت ہو۔ جیسے ہی وہ سوال کرتی ہے مزاحمت کرتی ہے اپنی حدود خود طے کرتی ہے وہ خطرہ بن جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ مرد روتے ہیں کہ اب مردوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے کہ عورتیں حد سے بڑھ رہی ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے کہ روز نئی ثناء نئی قندیل، نئی نور، نئی زینب قتل کی جا رہی ہے۔ زینب کو کون بھولا ہے؟ وہ معصوم بچی جو قصور کی گلیوں سے اغوا ہوئی، ریپ کا نشانہ بنی اور اس کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔

ریپ اور قتل کے یہ واقعات صرف جرم نہیں یہ ہمارے سماج کی شکست ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے اور ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری کا آئینہ ہے۔اگر ہم سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لڑکیوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ صرف بیوی، بیٹی، بہن نہیں، انسان بھی ہیں اور لڑکوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عورت ان کی ملکیت نہیں بلکہ برابری کی حقدار ہے۔

ہمیں ریاست سے انصاف مانگنا ہے مگر ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرکا سماج بھی بدلنا ہو گا۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں بیٹی کو کم اور بیٹے کو برتر سمجھتے رہیں گے جب تک ہم عورت کی عزت گھر کی چار دیواری میں جیسے جھوٹے نظریات کو سینے سے لگائے رکھیں گے، تب تک ثناء یوسف، نور مقدم، قندیل بلوچ، زینب، خدیجہ، مختاراں، سبین سب کی قبریں ہمارے ضمیر پر سوال اٹھاتی رہیں گی۔

ثناء کی ماں کو انصاف چاہیے، مگر انصاف صرف اس کے قاتل کو پھانسی دینے سے نہیں ہوگا، انصاف تب ہوگا جب ہر لڑکی نہیں کہنے کا حق لے سکے اور وہ حق اس کی موت نہ بنے۔

ہمیں ثناء کے لیے آواز بلند کرنی ہے کیونکہ وہ خاموش کردی گئی۔ ہمیں اس کے لیے چیخنا ہوگا کیونکہ اس کا گلا گھونٹا گیا۔ ہمیں لکھنا ہوگا، بولنا ہو گا، سڑکوں پر نکلنا ہوگا، کیونکہ عورت کی جان عزت رائے خواب اور انکار سب کچھ قیمتی ہے۔ثناء صرف ایک نام نہیں وہ ہر وہ لڑکی ہے جو اپنے لیے جینا چاہتی ہے جو نہیں کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور جو جانتی ہے کہ وہ صرف ایک جسم نہیں ایک مکمل انسان ہے۔لیکن سوال یہ ہے کیا ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم ایک اور ثناء کے مرنے کا انتظارکریں گے؟

متعلقہ مضامین

  • ثنا یوسف کا قتل ہم سب کے لیے باعثِ شرم ہونا چاہیے،آصفہ زرداری
  • یہ ظلم کب تک ؟
  • ثناء یوسف قتل کیس: فیڈرل پراسیکیوٹر نے 2 رکنی پراسیکیوٹر ٹیم تشکیل دے دی
  • ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس کا چالان بنانے اور پولیس کی مدد کیلئے 2 رکنی پراسیکیوشن ٹیم مقرر
  • ’نوجوان ٹک ٹاکرثناء یوسف کو ‘ناں’ کہنے کی سزا دی گئی، مردانہ برتری کی سوچ کے تحت تشدد نیا نہیں’
  • آصفہ بھٹو زرداری کی ثناء یوسف کے قتل کی شدید مذمت
  • ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا معاملہ: فیڈرل پراسیکیوٹر کا ملزم کیخلاف کیس مضبوط بنانے کے لیے اہم اقدام
  • خاتون اول بی بی آصفہ بھٹو زرداری کی طالب علم ثناء یوسف کے قتل کی شدید مذمت
  • ٹک ٹاکر ثناء قتل کیس: ملزم عمر حیات کے والد کا بیٹے سے متعلق بیان سامنے آگیا