غزہ میں امداد کی تقسیم کے مرکز کے باہر اسرائیلی فائرنگ، 17 فلسطینی ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جون 2025ء) طبی اہلکاروں کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر وسطی غزہ میں نصیرات کیمپ کے العودہ ہسپتال اور اور غزہ سٹی کے القدس ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ شام چھ بجے سے صبح چھ بجے تک امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ امدادی تنظیم غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے امداد کی تقسیم کے مراکز کی طرف نہ جائیں، کیونکہ یہ راستے ملٹری زون کا حصہ ہیں۔
غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کی طرف سے آج منگل 10 جون کو پیش آنے والے فائرنگ کے اس تازہ واقعے کے بارے میں فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
(جاری ہے)
جی ایچ ایف نے غزہ میں خوراک کی تقسیم کا آغاز مئی کے اواخر میں کیا تھا۔ اسرائیل کی طرف سے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں کی طرف سے غزہ پٹی میں امدادی سامان کی فراہمی پر رواں برس جنوری کے اواخر میں پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس کے بعد امدادی سامان کی تقسیم کے ایک نئے ماڈل کے طور پر اس امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ تنظیم کے ذریعے امدادی سامان کی تقسیم کا عمل شروع کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے تاہم اس تنظیم کو غیر جانبدار تسلیم نہیں کیا جاتا۔اس تنظیم کےامداد کی تقسیم کے مراکز کے قریب فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے واقعات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں، جن میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔
امداد کے حصول کے لیے طویل سفر اور گھنٹوں انتظارغزہ کے جنگ سے تباہ حال اور بے گھر رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہیں امداد کی تقسیم کے مراکز تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں سفر کرنا پڑتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بہت صبح سویرے ہی اپنے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے تاکہ کھانے پینے کا کچھ سامان مل سکے۔
چالیس سالہ فلسطینی محمد ابو عامر نے روئٹرز کو بتایا، ''میں کچھ خوراک حاصل کرنے کی امید میں وہاں جانے کے لیے رات دو بجے نکلا۔ میں نے راستے میں دیکھا کہ لوگ خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خوراک کے پیکٹ پانچ منٹ میں ہی ختم ہو گئے۔ یہ پاگل پن ہے۔‘‘
دو بچوں کے والد ابو عامر نے چیٹ ایپ کے ذریعے مزید بتایا، ''ہزارہا لوگ وسطی اور شمالی علاقوں سے بھی وہاں پہنچے، 20 کلومیٹر سے بھی زیادہ سفر کر کے اور وہاں سے خالی ہاتھ اور مایوس ہو کر ہی لوٹے۔
‘‘ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی مگر یہ واقعہ ان کے سامنے پیش نہیں آیا۔ غزہ میں ہلاکتیں 55 ہزار کے قریبغزہ کی جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023ء کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی طرف سے اسرائیل کے اندر کیے جانے والے ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا۔
اسرائیل کی سرکاری طور پر جاری کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کردہ اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق حماس کے اس حملے کے نتیجے میں 1,218 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس دوران 251 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ پٹی بھی لے جایا گیا تھا۔حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی میں جاری فوجی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد بھی اب 54,880 ہو گئی ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
ادارت: امتیاز احمد، مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امداد کی تقسیم کے کی طرف سے کے مطابق غزہ پٹی
پڑھیں:
غزہ میں عید الاضحی پر بھی اسرائیلی بمباری ‘ 100 سے زاید فلسطینی شہید‘ 393 ز خمی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ /تل ابیب /جنیوا /ماسکو (مانیٹرنگ ڈیسک) عید الاضحی کے پرمسرت موقع پر بھی غزہ میں اسرائیلی بمباری جاری رہی، جس کے نتیجے میں صرف 24 گھنٹے کے دوران 100 سے زاید فلسطینی شہید اور 393 زخمی ہو گئے۔پیر کو21 فلسطینی شہادتیں ہوئیں۔ اسرائیلی فضائی حملے خاص طور پر جبالیا، بیت لاہیا، غزہ سٹی اور خان یونس میں کیے گئے، جہاں گھروں اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا۔خان یونس کے علاقے المَواسی میں ایک ڈرون حملے نے ان خیموں کو نشانہ بنایا جو اسرائیل نے خود “محفوظ زون” قرار دیا تھا۔ اس حملے میں 2 بچیوں سمیت 5 فلسطینی شہید ہوئے۔ادھر مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فورسز کی چھاپہ مار کارروائیاں جاری رہیں، جن میں عروہ، جلازون، کفر مالک، بلاطہ اور الخضر جیسے شہروں سے کئی فلسطینی گرفتار کیے گئے۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ایندھن کی شدید قلت کے باعث اسپتالوں کو اگلے 48 گھنٹوں میں “قبرستان” بن جانے کا خطرہ ہے۔ڈائریکٹر منیر البورش نے کہا کہ اسرائیلی افواج ایندھن کی رسائی روک رہی ہیں، جس سے جنریٹرز بند اور طبی سہولیات مفلوج ہو چکی ہیں۔اسرائیلی محاصرے کے باعث غزہ کی93 فیصد آبادی شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق تقریباً 20 لاکھ افراد فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ امدادی مراکز پر اسرائیلی فائرنگ سے گزشتہ 8 دن میں 100 سے زاید افراد مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح 3 گنا بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ میں جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے لیے 11 ہفتے تک امدادی سامان پر سخت پابندی عاید کی، جسے اب جزوی طور پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کرتا ہے تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ ایک فلسطینی وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ صرف چند دنوں میں بچوں اور بزرگوں کی بھوک سے 29 اموات ہوئیں‘متاثرہ بچوں کو جان بچانے والا علاج دستیاب نہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے نئے سربراہ محمد سنوار کی شہادت کے بعد ان کی لاش ملنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ عرب میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ محمد سنوار کی لاش یورپی اسپتال کے نیچے بنی سرنگ سے ملی ہے۔ دوسری جانب حماس نے ابھی تک محمد سنوار کی شہادت کی تصدیق نہیں کی ہے جبکہ غزہ کی انتظامیہ یورپی اسپتال کے نیچے سرنگوں کی موجودگی کے اسرائیلی دعوے کی تردید کرچکی ہے۔ اسرائیلی فوج نے عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضا کار گریٹا تھنبرگ کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی کشتی کو غزہ جانے سے روک کر جبری طور پر تحویل میں لے لیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ کشتی اسرائیلی بحری ناکہ بندی کے خطرے کے باوجود غزہ کے بھوک سے موت کے منہ میں جاتے فلسطینیوں کے لیے امدادی اشیا لے کر جا رہی تھی، جس میں چاول اور بچوں کا فارمولا دودھ بھی شامل تھا۔ کشتی پر عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضاکار خاتون گریٹا تھنبرگ سمیت برازیل، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، اسپین، سویڈن اور ترکیہ کے شہری سوار تھے۔ فرانس کے انسدادِ دہشت گردی پراسیکیوٹرز نے غزہ میں امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات پر “نسل کشی میں معاونت” اور “نسل کشی پر اکسانے” کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ان الزامات کا تعلق مبینہ طور پر فرانسیسی نژاد اسرائیلی شہریوں سے ہے جنہوں نے گزشتہ سال امدادی ٹرکوں کو غزہ پہنچنے سے روکا تھا۔پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ یہ 2 الگ الگ مقدمات ہیں، جن میں انسانیت کے خلاف جرائم میں ممکنہ معاونت کے الزامات بھی شامل ہیں‘ تحقیقات جنوری تا مئی 2024 کے واقعات پر مرکوز ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ فرانسیسی عدلیہ نے غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی باقاعدہ تفتیش شروع کی ہے۔پہلی شکایت یہودی فرانسیسی یونین برائے امن (یو ایف جے پی) اور ایک فرانسیسی فلسطینی متاثرہ شخص نے دائر کی، جس میں شدت پسند اسرائیلی حمایتی گروپوں “Israel is forever” اور “Tzav-9” کے افراد پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے نیتزانا اور کیرم شالوم بارڈر کراسنگ پر امدادی ٹرکوں کو روکا۔دوسری شکایت “Lawyers for Justice in the Middle East (CAPJO)” نامی وکلا تنظیم نے جمع کروائی، جس میں تصاویر، وڈیوز اور عوامی بیانات کو بطور ثبوت شامل کیا گیا۔اسی روز ایک علیحدہ مقدمہ بھی منظر عام پر آیا، جس میں ایک فرانسیسی دادی نے الزام عاید کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ان کے چھ اور نو سالہ نواسے نواسی کو بمباری میں قتل کیا، جسے انہوں نے “نسل کشی” اور “قتل” قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے۔