’بہت ہوگیا، بس اب غزہ میں جنگ ختم کرو‘، ٹرمپ کی نیتن یاہو کو تنبیہہ WhatsAppFacebookTwitter 0 11 June, 2025 سب نیوز

واشنگٹن(آئی پی ایس) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ ”فوراً ختم“ کریں۔ اسرائیلی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق پیر کے روز دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی فون کال میں صدر ٹرمپ نے کہا، ’میں چاہتا ہوں کہ تم جنگ ختم کرو۔‘ رپورٹ کے مطابق یہ بیان ایک امریکی صدر کی جانب سے غیر معمولی سخت مؤقف کا مظہر ہے۔

ذرائع کے حوالے سے دی گئی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے نیتن یاہو کو بتایا کہ جنگ کا خاتمہ نہ صرف قیدیوں کے تبادلے بلکہ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ سفارتی پیش رفت کے لیے بھی اہم ہے۔ انہوں نے کہا، ’یہ صرف وائیٹ کوف کی ڈیل نہیں، دونوں ممکن ہیں۔ جنگ اپنی توانائی کھو چکی ہے، اب اسے ختم ہونا چاہیے۔‘

ٹرمپ کے اس نئے مؤقف کو ایک بڑی پالیسی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا یہ دباؤ محض علامتی ہے یا اسرائیلی حکومت پر حقیقی اثر ڈالنے کی کوشش ہے۔
خبررساں ادارے ”اکسیوس“ کے مطابق، ٹرمپ نے اسرائیلی حملوں کی مخالفت کرتے ہوئے نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ ایران پر حملے کا آپشن فی الحال ختم کریں۔ ٹرمپ نے کہا، ’میں نے مذاکرات ترک نہیں کیے۔ ایرانی ردعمل سخت ہو سکتا ہے، لیکن وہ دروازے بند نہیں کرے گا۔‘

نیتن یاہو نے مؤقف اختیار کیا کہ اسرائیل کو فوجی دباؤ برقرار رکھنا چاہیے، مگر ٹرمپ نے پھر اصرار کیا، ’میں اب بھی ڈیل تک پہنچ سکتا ہوں، اس لیے حملے کا آپشن ہٹا دو۔‘

اسی روز ایران نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس اسرائیل کے خفیہ جوہری اور عسکری دستاویزات ہیں، اور خبردار کیا کہ کسی بھی حملے کی صورت میں اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ایران کی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا کہ امریکا کے ساتھ چھٹے دور کے جوہری مذاکرات 15 جون کو مسقط، عمان میں ہوں گے۔

یاد رہے کہ مئی میں ٹرمپ نے انکشاف کیا تھا کہ وہ پہلے ہی نیتن یاہو کو واشنگٹن کے تہران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے ارادے سے آگاہ کر چکے ہیں اور فوجی جارحیت سے گریز کی ہدایت دی تھی۔
ٹرمپ کے اس مؤقف کی ٹائمنگ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے ممکنہ معاہدے سے جوڑا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو نے حالیہ پیش رفت کو ”اہم“ قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے مطابق 56 اسرائیلی قیدی غزہ میں موجود ہیں جن میں 20 کی زندگی کی امید ہے، جبکہ اسرائیل کی جیلوں میں 10 ہزار 400 سے زائد فلسطینی قید ہیں، جن میں بیشتر بغیر کسی مقدمے کے قید ہیں۔

حماس نے بارہا کہا ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کو جنگ کے خاتمے، اسرائیلی انخلاء اور قیدیوں کی رہائی کے بدلے رہا کرنے کو تیار ہے، مگر نیتن یاہو مسلسل نئی شرائط عائد کرتے جا رہے ہیں، جن میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا ہتھیار ڈالنا اور غزہ پر دوبارہ قبضہ شامل ہے۔

اسرائیلی حزبِ اختلاف اور قیدیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنگ کو جان بوجھ کر طول دے رہے ہیں تاکہ انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کو خوش رکھ سکیں اور خود پر لگے بین الاقوامی عدالتی مقدمات سے سیاسی تحفظ حاصل کر سکیں۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملے، جو امریکا کی پشت پناہی سے ہو رہے ہیں، اب تک 182,000 سے زائد فلسطینیوں کے جانی و جسمانی نقصان کا سبب بن چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ہزاروں لاپتہ، لاکھوں بے گھر اور قحط کے دہانے پر موجود ہیں۔

اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد جوہری ملک ہے جو کسی بین الاقوامی نگرانی میں نہیں اور جو دہائیوں سے فلسطینی، شامی اور لبنانی علاقوں پر قابض ہے۔

یہ جنگ اب بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے جنگ بندی احکامات، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی ضمیر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جاری ہے—جبکہ امریکا اور اسرائیل، دونوں، خود کو انسانی اقدار کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی سماعت آج نہیں ہوسکے گی،وجہ سامنے آگئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی سماعت آج نہیں ہوسکے گی،وجہ سامنے آگئی امریکا: لاس اینجلس میں احتجاج شدت اختیار کر گیا، ایمرجنسی کرفیو نافذ، سینکڑوں گرفتار ٹرمپ اپنے دور میں مسئلہ کشمیر حل کر سکیں گے: امریکی محکمہ خارجہ نے امید ظاہر کر دی امپورٹڈ سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کتنے فیصد ہوا ؟ تفصیلات سب نیوز پر ڈیری مصنوعات کی مشینری، میڈیکل اور سرجیکل آلات بھی مہنگے پی ٹی آئی کے مرکزی اور پارلیمانی رہنما ئو ں نے وفاقی بجٹ کو مکمل طور پر مسترد کردیا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو کو کے مطابق کیا کہ

پڑھیں:

غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ

غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔

دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔

 حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔

جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔

ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔

لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔

امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟

کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔

ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔

امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔

سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی مجرم ہمیں دھمکائے، انصار اللّہ
  • قطری وزیراعظم نے فلسطینیوں کو جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا ذمے دار ٹھیرادیا