(گزشتہ سے پیوستہ)
حالیہ پاک بھارت جنگ میں اسرائیل پاکستان کے خلاف جنگی طورپرسرگرم ہوگیاہے، اسرائیلی ہاروپ ڈرون اورمیزائل حملے ناقابلِ برداشت اقدامات ہیں، اسرائیل کے اتحادیوں کے لئے یہ وضاحت ضروری ہے پاکستان اس امرکوبراہِ راست پاکستان پرحملہ سمجھتا ہے توپاکستان کونہ صرف دفاع کاقانونی حق حاصل ہے بلکہ امتِ مسلمہ کی غیرت بھی اس کاتقاضاکرتی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں ہرممکن اقدام کرے۔اوراگرعالمی برادری نے خاموشی اختیارکی،تواس خاموشی کی قیمت پوری دنیا کوچکانی پڑے گی۔اب وقت ہے کہ پاکستان نہ صرف آواز بلندکرے بلکہ اپنے دفاع میں جرات وحکمت کا مظاہرہ بھی کرے۔
بھارت اورپاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اگربھارتی دہشت گردی اورپاکستان کے اندر مداخلت کاسلسلہ نہ رکاتو یہ تصادم مکمل جنگ میں بدل سکتاہے،جس کاانجام ایٹمی تصادم کی صورت میں ہوسکتاہے۔یہ جنگ صرف دونوں ممالک کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیاکے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔
اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق،کوئی بھی ریاست دوسرے ملک کی سالمیت میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ اقوام متحدہ کوبھارت کے خلاف آزادانہ تحقیقات کرانی چاہیے اورشواہدکی بنیاد پربھارت پرپابندیاں عائدکرنی چاہئیں۔مزید برآں جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے لئے عالمی طاقتوں امریکا،چین،روس،برطانیہ کوثالثی کاکردار اداکرناچاہیے۔ان ممالک کودوہرا معیارترک کرکے انصاف پرمبنی خارجہ پالیسی اپنانا ہو گی۔ اگر دنیادہشتگردی کے خلاف ہے تواسے ریاستی دہشت گردی کے خلاف بھی اتناہی سخت مقف اپناناہوگا جتناغیرریاستی عناصر کے خلاف اپنایاجاتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان محض ردعمل کی پالیسی سے نکل کرفعال حکمتِ عملی اپنائے۔دشمن صرف سرحدوں پرنہیں بلکہ میڈیا، پانی،فکر،اورمعیشت پرحملہ آور ہے۔ اس کے جواب میں صرف بندوق نہیں بلکہ قلم، عقل اور صداقت کی ضرورت ہے۔اگرپاکستان بین الاقوامی فورمز پر موثرانداز میں مقدمہ لڑے توعالمی برادری بھارت کی عسکری وآبی جارحیت کوسنجیدگی سے لے سکتی ہے۔ بھارت کی داخلی بدحالی اگرشدت اختیارکرے توعالمی برادری کواپنی پالیسی پرنظرثانی کرنی پڑے گی۔پاکستان اپنی سابقہ روش کوتبدیل کرتے ہوئے اپنی پالیسی سازی میں تدبرمگردفاعی تیاری میں کوئی کوتاہی نہ ہونے دے۔علم و معیشت کوترجیح دی جائے تاکہ دشمن کوصرف ہتھیارسے ہی نہیں،بلکہ فکروفراست سے شکست دی جائے۔ سفارت کاری کوفعال اورحقیقت پسندبنایاجائے تاکہ بیرونِ ملک پاکستان کے بیانئے کواس کے صحیح تناظرمیں سمجھاجائے کہ خطے میں بھارت عالمی امن کاسب سے بڑادشمن ہے۔ امریکا،برطانیہ،فرانس نے زیادہ تربیانات تک خودکومحدودرکھاہے۔روس کی غیر جانبداری سے بھارت کو خاموش حمائت ملی ہے کیونکہ بھارت اب بھی روسی اسلحہ کاایک بڑاخریدار ہے اوربالخصوص یوکرین کی جنگ میں مغربی پابندیوں کے باوجودروس سے ایک بڑی مقدارمیں پٹرول کابھی خریدارہے۔
ان حالات میں پاکستان کواپنی علمی، سائنسی اورسفارتی طاقت بڑھانے کی فوری ضرورت ہے۔ بھارت کی عسکری جارحیت کو جہاں مکمل اورمضبوط عسکری تیاری کے ساتھ بلکہ فکری مزاحمت،معاشی استحکام،اورعالمی قانون کے ذریعے بھی روکا جائے ۔ میڈیااورسفارت کاری کے میدان میں بھارت کے جھوٹ کاپردہ چاک کرناضروری ہے۔قومی بیانیے کو صرف جنگی نہیں،تعلیمی، تحقیقی اور اخلاقی بنیادوں پربھی استوارکیاجائے تاکہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جس طرح پاکستانی قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرسامنے آئی ہے ، اس جذبے کومستقل بنیادوں پراستوارکرنے کے لئے سیاسی انارکی کوختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔
جہاں جنگ کی صدائیں سنائی دے رہی ہوں، وہاں امن کی صداسب سے بلندہونی چاہیے۔عالمی طاقتوں کافرض ہے کہ بھارتی قیادت کودوٹوک پیغام دیاجائے کہ نفرتوں کے دھوئیں سے باہرنکل کرعقل وتدبر کے نورسے کام لے کہ اس کی ہٹ دھرمی کی بناپر جہاں اس کوتاریخ کاقلم اورآنے والی نسلیں کبھی بھی اسے معاف نہیں کریں گی وہاں اسے عالمی پابندیوں میں جکڑکرسخت سزا دی جائے،یقینااس عمل کے بعدوہ کبھی بھی دنیاکے امن کوغارت کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔
یادرہے کہ بھارت سے امن اورعلم دوستی کی امیدرکھنافی الحال خودکودھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ایسادشمن جواپنے ہی شہریوں کی بھوک، افلاس، بیماری اوراحتجاج کوبندوق سے دباتاہے، اس سے کوئی کیسے امیدرکھ سکتاہے کہ وہ علم،امن اورمحبت کی زبان بولے گا؟
ان حالات میں ضروری ہے کہ:
بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں۔اقوام متحدہ بھارت کوبازرکھنے کے لئے پابندیاں عائدکرے۔عالمی میڈیا کوحقائق کی درست تصویر پیش کی جائے۔ پاکستان کواپنی سفارتی سرگرمیوں کومزید متحرک اورمربوط بناناہوگا۔ جنوبی ایشیاء میں امن کے لئے بین الاقوامی کانفرنس بلائی جائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ بھارت کی کے خلاف کے لئے
پڑھیں:
امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا: بلاول
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی، سابق وزیر خارجہ اور پاکستانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر، پانی سمیت تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں. بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے. امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا۔لندن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران بلال بھٹو زرداری نے کہا کہ پاک-بھارت جنگ کے بعد پاکستان نے آج تک سیز فائر کی پاسداری کی ہے، حملے کے جواز کے لیے بھارت کا پورا بیانیہ جھوت پر مبنی تھا. جنگ کے بعد بھی بھارت جھوٹ پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔برطانیہ کے دورے میں ارکان پارلیمنٹ اور تھنک ٹینکس کے اہم ارکان سے ملاقاتوں کے بعد برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے روانگی سے قبل لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے میڈیا میں بہت فرق ہے، گودی میڈیا نے جھوٹ پھیلانے کی پالیسی اپنائی، جب کہ پاکستان کے میڈیا نے ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی جس پر میں میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب مؤثر انداز میں دیا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو جنگ کے دوران بہترین حکمت عملی بنانے پر فیلڈ مارشل کا اعزازی عہدہ دیا گیا، جو ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا، عالمی سطح کے معاہدے کی شرائط سے کوئی بھی ملک روگردانی نہیں کرسکتا. ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ فعال ہے اور اسے کسی طور پر معطل کرنے کا اختیار بھارت کو حاصل نہیں ہے۔کینیڈا، امریکا اور پاکستان میں بھارتی دہشت گردی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ نے کہا کہ بھارت کہتا کچھ، اور کرتا کچھ اور ہے، جب بھارت پاکستان پر الزام لگا رہا تھا تو دنیا میں کوئی بھی ملک اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا. سب جانتے ہیں کہ بھارت دہشت گرد تنظیموں کو پیسہ دے کر دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے، سکھ رہنماؤں کے کینیڈا میں قتل پر کینیڈین وزیر اعظم کا بیان بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک بھی بھارتی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں. ہم بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے. بلوچستان میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کی فنڈنگ ختم کرنی چاہیے .تاکہ اس کے دہشت گردی کے خلاف بیانات کو سنجیدہ لیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی پر مسلمانوں کے قتل، ٹارگٹ کرکے لوگوں کو مروانے کے الزامات ہیں، پاکستان کے ساتھ تنازع بڑھانے کے لیے جھوٹے بیانیے کے تحت الزامات لگا کر حملے کرنا بہادری نہیں، بلکہ خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے. پاکستان نے اس سے قبل بھی ابھی نندن کو گرفتار کرکے چائے پلاکر واپس بھیجا تھا، یہ پاکستان میں دراندازی کا ثبوت ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت خود جانتا ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہ ان کی انٹیلی جنس ناکامی تھی، جسے کور کرنے اور بہار میں الیکشن کے حوالے سے مارجن لینے کے لیے پاکستان پر الزامات لگائے گئے، تاہم پاکستان نے منہ توڑ جواب دے کر خطے میں بھارتی بالادستی کی سازش ناکام بنائی۔سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر اور بارہا یہ کہا ہے کہ خطے میں امن ہونا چاہیے، ہم تو صدر ٹرمپ کے بیانات کو وعدے سمجھتے ہیں. ان کے امن کی کوششوں کے لیے دیے گئے بیانات کو بھارت سبوتاژ کرنا چاہتا ہے. ہم سمجھتے کہ اگر امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہے. تاکہ خطے کے ممالک قیام امن کے بعد ترقی کرسکیں اور آگے بڑھیں۔انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں بھارت نے کشمیر پر متنازع قانون پاس کرکے اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دیا. تاہم صدر ٹرمپ کے بیان سے مسئلہ کشمیر پھر سے زندہ ہوگیا، ٹرمپ کے بیان سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان تنازع ہے، یہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں، ہم نے برطانیہ میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی، جن کا کہنا تھا کہ اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات کرنا زیادہ کارآمد ہوگا اور آسانیاں ہوں گی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکا کے محکمہ خارجہ کے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے جو کردار ادا کیا. اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں، ہم دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں اور امید ظاہر کرتے ہیں کہ ٹرمپ پوری کوشش کریں گے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنے دیگر تمام دوستوں کی مدد سے مل کر حل کروائیں گے، اس حوالے سے بھارت کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے ایک سوال پر کہا کہ برطانیہ کے ارکان پارلیمنٹ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا پیغام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں جنگ چاہتے ہیں، جب کہ پاکستان کا پیغام ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں، جنگ جیسے خطرناک مرحلے سے نوجوانوں کو نہیں گزارنا چاہتے، بھارت کے بہت سے لوگ ہماری بات سنتے ہیں تو وہ بھی جنگ کی بات چھوڑ کر امن کی بات کرتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وفد کے رکن خرم دستگیر نے کہا کہ بھارت کا دفاعی بجٹ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، ہم نے اپنے وسائل کے مطابق اپنے دفاع کے لیے بجٹ مختص کیا ہے، اس بجٹ کا پاکستان کے دفاع کے لیے بہترین انداز میں استعمال کیا جائے گا۔خرم دستگیر نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ بھارت دہشت گردی کے لیے دوسرے ممالک کی سرزمین بھی استعمال کرتا ہے، ہم نے یہاں بھارت کے وزیراعظم اور اور وزرا کے جنگی جنون میں ڈوبے ہوئے بیانات بھی پیش کیے ہیں. تاہم پاکستان اپنے پانی کے حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا۔پاکستانی وفد کے رکن نے کہا کہ ہم نے برطانیہ کے رہنماؤں پر واضح کیا ہے کہ بھارت کے سندھ طاس معاہدے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جنگ کا خطرہ موجود رہے گا. تاہم ہم بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا کا وعدہ ہے کہ جنگ کرنے کی صورت میں وہ تجارتی تعلقات نہیں رکھے گا. بھارت یاد رکھے کہ جنگ اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے. جنگی بیانات سے بھارت کا جنون ان کی معیشت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔