بھارت کے بھونڈے الزامات پرپاکستان کا کرارا جواب
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
ملائیشیا میں آسیان ریجنل فورم میں پاک بھارت سفارتی ٹاکرا، بھارتی وفد کے پاکستان پر بھونڈے الزامات پر ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ عمران صدیقی نے کرارا جواب دیتے ہوئے کہا بھارتی ریاستی دہشت گردی بے نقاب ہوچکی ہے۔ کلبھوشن بھارتی ریاستی دہشت گردی کا ثبوت ہے۔ خطے میں امن کشمیر مسئلے کے حل سے ممکن ہے۔
ملائیشیا کے شہر پینانگ میں ہونے والے آسیان ریجنل فورم کے سینئر عہدیداروں کے اجلاس میں پاکستان اور بھارت ایک بار پھر عالمی سطح پر آمنے سامنے آ گئے۔ بھارتی وفد کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے، جس پر پاکستان کو جواب کا حق دیا گیا۔
پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل فارن سیکرٹری عمران احمد صدیقی نے بھارتی الزامات کو مؤثر انداز میں مسترد کیا اور بھارت کو کرارا جواب دیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ’’جب حکمت عملی بالی ووڈ سنیما کی نقل کرنے لگتی ہے تو پالیسی اپنا تمام اعتبار کھو دیتی ہے، اور وہم نظریہ میں بدل جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر ہمیں دہشت گردی کے موضوع پر مشرقی پڑوسی سے ایک خطبہ دیا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت خود اس معاملے میں ایک متضاد رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
عمران صدیقی نے پہلگام واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی دعوے کو ”بے بنیاد اور غیر مصدقہ“ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور کہا کہ “ ”الزامات لگانا آسان ہے، مگر ثبوت دینا اصل تقاضا ہے۔ انگلی کی طرف اشارہ کرنا تجربے کی عکاسی کرتا ہے، نہ کہ حقیقت کی۔“
انہوں نے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافات کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کے اندرونی کردار کو اجاگر کیا اور کہا کہ ”اگر خطے میں احتساب کا عمل شروع ہونا ہے، تو سب سے پہلے ان عناصر سے ہونا چاہیے جنہوں نے بغاوت کو ریاستی پالیسی، اور پروپیگنڈے کو سفارت کاری کا آلہ بنا رکھا ہے۔“
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی اصل جڑ کشمیر کا حل طلب مسئلہ ہے، اور بھارت کی ”تھیٹریکل“ فوجی مہم جوئیاں صرف توجہ ہٹانے کی کوششیں ہیں۔
عمران صدیقی نے انڈس واٹر ٹریٹی پر بھی بھارت کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ بھارت نہ صرف دریاؤں پر غیر قانونی تعمیرات کر رہا ہے بلکہ طے شدہ ذمہ داریاں بھی پوری نہیں کر رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ایک ایسی ریاست ہے جو مذہب کو قانون اور غیر ملکی قبضے کو معمول میں بدلتی ہے، مگر پھر بھی امن کی بات ایسے کرتا ہے جیسے کوئی مبلغ ہو۔ اگر عالمی قیادت کا پیمانہ دوغلا ہو تو بھارت بلاشبہ مستقل نشست کا اہل سمجھا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دے دیا، انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان ایک غیر معمولی انسداد دہشت گردی شرکت دار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے، دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی موجودہ مدت صدارت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت دیگر دیرینہ تنازعات کو حل کرانے میں معاون کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پاکستان ایک امن پسند اور ذمے دار ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان ایسی ریاستیں جو دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی ہیں،ان کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے جب کہ اندرون ملک پاکستان کی افواج دہشت گردوں سے برسرپیکار ہیں۔
امریکی جنرل مائیکل ایرک کی یہ رائے ایک حساس وقت پر سامنے آئی ہے، جب بھارت نے پہلگام حملے کا جھوٹا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا، جس کا کرارا جواب ملنے کے بعد بھارتی حکومت نے امریکا کے منت ترلے کرکے فوری جنگ بندی کرائی تاہم اب نریندر مودی الیکشن میں کامیابی کے لیے جھوٹے اور من گھڑت دعوے کرتے نظر آرہے ہیں جب کہ ایک بھارتی وفد دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے غرض سے مختلف ممالک میں جا رہا ہے، لیکن اسے ہر جگہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔
جنرل کوریلا کی سربراہی والی امریکی سینٹرل کمانڈ، جس کا صدر دفتر فلوریڈا میں ہے، پاکستان اور افغانستان سمیت مغربی، وسطی اور جنوبی ایشیا کے 21 ممالک میں امریکی فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے، لہٰذا امریکی جنرل کا بیان اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان کو کلین چٹ دیتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف بطور فرنٹ لائن اسٹیٹ اس کی خدمات اورکاوشوں کو سراہتا نظر آتا ہے۔ یہ پاکستان کی سفارتی دنیا میں ایک بڑی کامیابی ہے اور ایک اور ثبوت ہے کہ دنیا اب پاکستان پر اعتماد کر رہی ہے۔
پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف فرنٹ لائن پر جنگ لڑی ہے، پاکستان آج بھی حالت جنگ میں ہے، ان شدت پسندوں کو اسلحہ اور ٹریننگ کس نے دی اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا ایجنڈا ہمیشہ سے کس ملک کا رہا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اس کے باوجود بھارت ہمیشہ اس کوشش میں رہا کہ دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ سفارتی طور پر وہ باقی دنیا سے کٹ جائے۔ بھارتی حکومت اپنے ملک میں خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروا کے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔
دوسری طرف بھارت شدت پسندوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت پھیلانے اور معصوم بچوں، عورتوں کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات پیش آئے ہیں، ان واقعات کے واضح ثبوت ہیں کہ بھارت کی ایجنسی شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔ پہلگام واقعہ، جو 22 اپریل 2025کو بھارتی زیر قبضہ کشمیر کے علاقے بائیساران وادی میں پیش آیا، اس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، اس حملے کی ذمے داری ’’کشمیر ریزسٹنس‘‘ نامی ایک گروہ نے قبول کی، جس نے اس اقدام کو کشمیر میں غیر مقامی باشندوں کی آبادکاری کے خلاف احتجاج کے طور پر پیش کیا۔
بھارتی حکومت کسی بھی دہشت گرد کو مارنے یا گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ بھارتی حکومت نے فوری طور پر پاکستان پر الزام عائد کیا، تاہم پاکستان نے ان الزامات کو بے بنیاد اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال شدہ قرار دیا۔ ماہرین دفاع اور تجزیہ کاروں نے اس واقعے کو بھارت کی جانب سے ’’فالس فلیگ‘‘ آپریشن کا حصہ قرار دیا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور کشمیر میں اپنی پالیسیوں سے توجہ ہٹانا ہو سکتا ہے۔ بھارت نے پہلے سے ہی پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی حکمت عملی تیار کی تھی۔ پاکستان نے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو اس واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تاکہ حقائق سامنے آئیں اور ذمے داروں کا تعین ہو سکے۔ لیکن بھارت نے اس پیشکش کا جواب ناں میں دیا۔
پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہا ہے ، لیکن اس لعنت کا مکمل خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب عالمی سطح پر تعاون اور داخلی سطح پر امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ پاکستان دہشت گرد ریاست نہیں ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف مختلف حکمت عملی اختیار کی۔ قومی انسداد دہشت گردی حکمت عملی (NIFTAC) کا قیام، پاکستان نے 2025میں نیشنل انٹیلی جنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسیسمنٹ سینٹر (NIFTAC) قائم کیا ہے، جو ملک بھر کی 50 سے زائد وفاقی اور صوبائی ایجنسیوں کو یکجا کرتا ہے۔ اس کا مقصد دہشت گردی کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہے۔
ادھر پاکستان کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی موجودہ مدت صدارت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت دیگر دیرینہ تنازعات کو حل کرانے میں معاون کردار ادا کر سکتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے واشنگٹن میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ محکمہ خارجہ کی سینئر اہلکار انڈر سیکریٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر نے حالیہ دنوں پاکستانی پارلیمانی وفد سے ملاقات کی۔ اس وفد کی قیادت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کر رہے تھے، جنھوں نے بھارتی جارحیت، سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اور مودی حکومت کے اشتعال انگیز بیانات پر پاکستان کا موقف واضح انداز میں پیش کیا۔
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے عسکری حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین بننے والی جنگی صورتحال کا خاتمہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت پر 10مئی کو ہوا۔ امریکی صدر نے اپنے سوشل میڈیا بیانات اور تقاریر میں مسئلہ جموں کشمیر کا بارہا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی اظہار کیا کہ وہ مسئلہ جموں کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کرنے پر تیار ہیں۔
حکومت پاکستان نے صدر ٹرمپ کی اس پیش کش پر خصوصی شکریہ ادا کیا ہے، جب کہ بھارتی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کے ان دعوؤں پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان سے بات ہوگی تو پھر ’پی او کے‘ یعنی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے متعلق ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پانی اور خون اکٹھے نہیں بہہ سکتے، دہشت گردی اور بات چیت بھی ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ تاہم ٹرمپ کے دعوؤں کی تردید نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف جنگ بندی پر ٹرمپ کی مداخلت کا کلیدی کردار ہے، بلکہ وہ مذاکرات کے حوالے سے بھی مستقبل میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر پاکستان کی جانب سے بھی شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی جموں کشمیر میں سیز فائر لائن کے ہر دو اطراف آزادی پسند اور الحاق نواز سیاسی کارکنوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ایک بار پھر مسئلہ جموں کشمیر کے حل کے لیے امریکی صدر سے امیدیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ قوم پرست تنظیموں کے کچھ حصوں کی جانب سے اقوام متحدہ اور امریکا سے مسئلہ جموں کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے بھی اپیلیں کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
ایک طرف بھارت ہے۔ 2019 میں مودی حکومت نے ہر بین الاقوامی ضابطے اور اخلاقی قدر کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے اسٹیٹس کو بدل ڈالا، جب کہ اقوامِ متحدہ اس کو متنازع خطہ مان چکا ہے اور اس کے حل کو پاکستان اور بھارت کے اتفاقِ رائے سے مشروط کردیا ہے۔ استصوابِ رائے کو اہلِ کشمیر کا حق قرار دیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ وہ عالمی تنازعات کو حل کرنے کے بارے میں یکسو ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا سب جھگڑے طے کروا کر ان سے نکل آئے، پاکستان توقع رکھتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے تاکہ پونے دو ارب کی آبادی امن و سکون اور خوشحالی کا سفر طے کرسکے۔