خیبرپختونخوا کے بلدیاتی نمائندوں نے تین سال سے ترقیاتی فنڈز فراہم نہ کرنے اور دیگر مسائل کے حل کیلیے ایک بار پھر صوبائی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق خیبرپختونخوا کی مقامی حکومتوں کے نمائندوں نے مسائل میں صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی گزشتہ تین سالوں کے ترقیاتی فنڈز فراہمی و دیگر مسائل کے حل کے لیے ایک دفعہ پھر سڑکوں پر نکلنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

بلدیاتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ وہ مشاورت کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج کی تاریخ اور مقام کا اعلان لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے اگلے ہفتے ہونے والے اجلاس میں کریں گے۔

ترجمان لوکل کونسلز ایسوسی ایشن تحصیل چئیرمین سرائے نورنگ لکی مروت عزیز اللہ خان مروت، نیبر ہوڈ کونسل چئیرمین و کوارڈئینٹر ایسوسی ایشن انتظار علی خلیل کے مطابق خیبرپختونخوا کی مقامی حکومتیں گزشتہ مالی سال 2021-22 ، 2022-23، 2023-24، 2024-25 سے ترقیاتی فنڈز سے محروم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال بجٹ میں مقامی حکومتوں کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کیا جاتا ہیں مگر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔ ابھی تک مقامی حکومتوں کو ترقیاتی فنڈ میں ایک روپیہ تک جاری نہیں کیا، خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے جو کہ صوبائی حکومت کا مقامی حکومتوں کے مسائل کے حل میں عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

معاون لوکل کونسلز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا انتظارعلی خلیل کے مطابق گزشتہ تین سالوں سے بلدیاتی نمائندوں نے لوکل کونسلز ایسوسی ایشن کے زیر قیادت متعدد بار احتجاج کیے جس میں بلدیاتی نمائندوں پر بدترین لاٹھی چارج، شلینگ کی گئی، بلدیاتی نمایندوں کو گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح متعدد بار صوبائی حکومت بالخصوص وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے صدر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن کے مذکرات ہوئے جن کے میٹنگ منٹس موجود ہیں مگر عمل درآمد آج تک نہیں ہوسکا۔ 

اُن کا کہنا تھا کہ ضم اضلاع کے تحصیل چئیرمین تین سال گزرنے کے باوجود بھی دفاتر، سرکاری گاڑیوں و دیگر وسائل سے محروم ہیں، آئندہ مالی سال بجٹ میں اگر مقامی حکومتوں کا قانون حصہ 20 فیصد اگر مختص کرنے کے ساتھ ساتھ فوری ریلیز نہیں کیا گیا، گزشتہ تین سالوں کے ترقیاتی و غیر ترقیاتی فنڈ سمیت تو لوکل کونسلز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا ایک دفعہ پھر بھرپور پرامن احتجاجی دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے سڑکوں کا رخ کریگی۔

کوارڈئینٹر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن انتظارعلی خلیل کے مطابق ہم غیر ملکی ڈونر اداروں، سول، سیاسی و سماجی تنظیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے نمایندوں کی تحریک میں شامل ہوکر خیبرپختونخوا کے خوشحالی میں ساتھ دیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلدیاتی نمائندوں مقامی حکومتوں کے صوبائی حکومت ترقیاتی فنڈز کے مطابق تین سال

پڑھیں:

سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-5

 

میر بابر مشتاق

ہیڈ لائن کی ضرورت ہی کیا ہے جب شہر خود اپنی کہانی سنارہا ہو؟ یہ کہانی سڑکوں پر بہتے گٹر کے پانی کی ہے، پانی کے ٹینکر کے پیچھے بھاگتے عوام کی ہے، اور بارش کے بعد طوفانی نالے بن کر بہنے والی سڑکوں کی ہے۔ یہ کہانی اس انفرا اسٹرکچر کی ہے جو کاغذوں پر تو شاندار نظر آتا ہے، مگر زمین پر ’’زیرو‘‘ ہے۔ اور ان تمام مسائل پر ایک طاقتور حقیقت مسلط ہے: مافیا۔ ٹینکر مافیا، ڈمپر مافیا، اور اب اس کے ساتھ ایک نیا اضافہ ’ای چالان مافیا‘۔ کراچی، جو کبھی پاکستان کا معاشی دل سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسے شہر کی حیثیت سے جی رہا ہے جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ سڑکیں نہ صرف کچی ہیں، بلکہ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ کچی سڑکیں بھی شرم سے منہ چھپا لیتی ہیں۔ ہر موڑ پر گڑھے، ہر سڑک پر کھدائی، اور ہر بارش کے بعد یہ شہر ڈوبتا نہیں بلکہ شرم سے مر جاتا ہے۔ اسی خراب انفرا اسٹرکچر کے نتیجے میں رواں سال 700 سے زائد شہری ٹریفک حادثات کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اموات میں 205 کا تعلق بھاری گاڑیوں؛ ٹینکر، ٹرالر اور ڈمپر سے ہے، جو عوام کے لیے موت کا پروانہ بن کر دوڑ رہے ہیں۔ یہ وہ ’’اسٹرکچر‘‘ ہیں جو کبھی نہیں ڈوبتے، ان کا کام جاری ہے، اور ان کے مالکان کو کوئی جوابدہی نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شہریوں کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، تو پھر اس کی ناکامی کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں ’ای- چالان‘ کا المیہ شروع ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک طرف تو سڑکوں کی مرمت، پانی کی فراہمی اور سیکورٹی جیسی بنیادی ذمے داریوں کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے، دوسری طرف وہ ’’عالمی معیار‘ کے ای-چالان سسٹم کے ذریعے عوام کو ڈھادے جانے والے بھاری جرمانوں سے اپنے خزانے بھرنے میں مصروف ہے۔ یہ نظام درحقیقت لوٹ مار کا ایک منظم دھندا بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پنجاب میں اسی ای-چالان سسٹم کے تحت موٹر سائیکل سوار سے 200 روپے کا جرمانہ وصول کیا جاتا ہے، جبکہ کراچی میں ایک ہی قصور پر موٹر سائیکل سوار کو 5000 روپے کی خطیر رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں، یہ دس گنا سے بھی زیادہ کا فرق ہے۔ کیا کراچی کے شہری پنجاب کے شہریوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ امیر ہیں؟ یا پھر یہ سندھ حکومت کی طرف سے عوام پر معاشی تشدد ہے؟

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہی حکومت جو سڑکوں پر گڑھے چھوڑ کر، ٹریفک کے بہاؤ کو درست کرنے میں ناکام رہ کر اور عوامی ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہ کر کے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں شہریوں کو غیر محفوظ ٹریفک اسٹرٹیجی کا شکار بنا رہی ہے، اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی نااہلی کی پاداش میں عوام پر بھاری جرمانے عائد کرے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ڈاکو خود تو گھر لوٹے، اور مالک کو ہی قصوروار ٹھیرایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت عوام کو شعور دینے اور انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کے بجائے، صرف جرمانوں کے ذریعے خزانہ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ ایک آسان راستہ ہے۔ سڑکیں بنانے، ٹریفک انجینئرنگ درست کرنے، عوامی امن و امان قائم رکھنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے میں تو محنت اور خلوص نیت کی ضرورت ہے، جبکہ کیمرے لگا کر جرمانے کاٹ لینا بہت آسان کام ہے۔

ای-چالان سسٹم کا مقصد اصل میں عوام کو سزائیں دینا نہیں، بلکہ ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر بنانا اور حادثات کو کم کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن جب یہ نظام انصاف کے بجائے مالی فائدہ کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہوتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اس پورے معاملے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ای-چالان سسٹم کو ایک انصاف پر مبنی، شفاف اور عوام دوست نظام میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات فوری طور پر اٹھائے جانے چاہئیں:

1۔ جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے برابر ہونا: سندھ میں جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے ساتھ ہم آہنگ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ ایک عام موٹر سائیکل سوار کے لیے 5000 روپے کا جرمانہ نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ غیر معاشی بھی ہے۔

2۔ سڑکوں کی فوری مرمت: سڑکوں کو حادثات کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ گڑھوں کو پر کیا جائے، سڑکوں کی واضح مارکنگ کی جائے، اور خاص طور پر اسکولز، اسپتالوں اور مصروف چوراہوں کے اردگرد سیفٹی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔

3۔ بھاری گاڑیوں پر کنٹرول: ٹینکر اور ڈمپرز کے لیے مخصوص اوقات مقرر کیے جائیں اور ان کی رفتار پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ ان گاڑیوں کے ڈرائیورز کو خصوصی تربیت دی جائے اور ان کی گاڑیوں کی فٹنس کا سالانہ معائنہ لازمی ہونا چاہیے۔

4۔ عوامی آگاہی مہم: محض جرمانے جاری کرنے کے بجائے، ٹریفک قوانین کے بارے میں عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ اسکولوں، کالجز اور میڈیا کے ذریعے شہریوں کو ٹریفک اصولوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ خود بخود قوانین کی پابندی کریں۔

5۔ شفافیت اور جوابدہی: ای-چالان کے ذریعے وصول کی گئی رقم کا شفاف حساب کتاب عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ رقم صرف سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کی جائے، نہ کہ عام بجٹ میں شامل کر کے ضائع کی جائے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ شہریوں کو سہولت نہ دی جائے اور ان پر بھاری بھرکم جرمانے مسلط کیے جائیں، یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کو ’’مجرم‘‘ بنا کر نہیں، بلکہ ان کی خدمت کر کے ہی ترقی ممکن ہے۔ جب تک سڑکیں کچے سے بدتر رہیں گی، تب تک چاہے جرمانے عالمی معیار کے ہی کیوں نہ ہو جائیں، شہر کی کہانی اندھیرے اور مایوسی ہی سناتی رہے گی۔ حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست کی مشروعیت عوام کی خدمت سے آتی ہے، نہ کہ ان پر جرمانے عائد کر کے۔ اگر سڑکیں ٹھیک نہیں، پانی نہیں، بجلی نہیں، اور امن نہیں، تو پھر ’’عالمی معیار کے جرمانے‘‘ صرف ایک مذاق ہیں۔

 

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
  • وفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: سپیکر پنجاب اسمبلی
  • لاڑکانہ: سندھ بار ایسوسی ایشن کے رہنما ایڈووکیٹ اطہر سولنگی کی امیر صوبہ کاشف سعید شیخ سے وفد کے ساتھ ملاقات ، ایڈووکیٹ نادر علی کھوسو ، قاری ابوزبیر جکھرو بھی موجودہیں
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے
  • پنجاب اسمبلی :وفاق سے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلیے27ویں آئینی ترمیم کا مطالبہ
  • ایشیائی ترقیاتی بینک اور گرین کلائمٹ فنڈ پاکستان کے لیے موسمیاتی موافقت کے منصوبے کی منظوری
  • وفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: پنجاب حکومت
  • پنجاب اسمبلی کی مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کیلئے قرارداد وفاق کو ارسال
  • پنجاب اسمبلی کی مقامی حکومتوں سے متعلق آئین میں ترمیم کی قرارداد وفاق کو ارسال
  • مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے، پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرے، اسپیکر پنجاب اسمبلی