ایٹمی ادارے نے قرارداد کیوں منظور کی
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: جب انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اور اسکا بورڈ آف گورنرز میدانی حقائق پر بھروسہ کرنے کے بجائے صرف اور صرف سیاسی بنیادوں پر مبنی رپورٹس پر انحصار کرینگے تو اسکا نتیجہ بین الاقوامی اداروں پر عدم اعتماد کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا اس بات پر تاکید کی ہے کہ ان سیاسی دباؤ کے باوجود وہ اپنے پرامن ایٹمی پروگرام کو بھرپور طریقے سے جاری رکھے گا اور بورڈ آف گورنرز جیسے سیاسی ہتھیاروں کو ایران کی سائنسی اور تکنیکی میدان میں روک تھام کا عنصر نہیں بننے دیگا۔ اپنے سرکاری بیانات میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ایجنسی کو اپنے تکنیکی اور غیر سیاسی کام پر واپس آنا چاہیئے اور دوہرے معیارات سے بھی گریز کرنا چاہیئے۔ تحریر: کامران شیرازی
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے ایران کے خلاف حالیہ قرارداد کی منظوری کے بعد ایک بار پھر اس ادارے میں فیصلہ سازی کے طریقہ کار اور اس پر مغربی طاقتوں کے اثر و رسوخ کی طرف توجہ مبذول ہوگئی ہے۔ یہ قرارداد جو کہ "ایران کی ایجنسی کے معائنہ کاروں کے ساتھ خاطر خواہ تعاون کی کمی" کے بہانے جاری کی گئی تھی، ایک ایسے وقت میں سامنے لائی گئی، جب اسلامی جمہوریہ نے بارہا کہا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر شفاف، قانونی ہیں اور حفاظتی اقدامات کے دائرے کے اندر انجام دی گئی ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بورڈ آف گورنرز میں فیصلہ سازی تکنیکی حقائق پر نہیں بلکہ سیاسی مساوات پر مبنی ہے اور اس پر مغربی ممالک کا غلبہ ہے۔
جانبدارانہ ساخت اور منظم ووٹنگ
تہران یونیورسٹی کے پروفیسر اور بین الاقوامی امور کے سینیئر ماہر فواد ایزدی کے بقول "بورڈ آف گورنرز کی تشکیل اس طرح کی گئی ہے کہ مغربی ممالک اور ان کے ساتھ اتحاد کرنے والوں کو اکثریت حاصل ہو؛ اسی وجہ سے مغرب جو بھی فیصلہ چاہتا ہے، اس کونسل میں عملی طور پر منظور ہو جاتا ہے۔" اس وقت بورڈ آف گورنرز کے ارکان کی تعداد 35 ہے، جن میں مختلف جغرافیائی خطوں سے منتخب نمائندے شامل ہیں، لیکن عملی طور پر یورپی ممالک اور امریکی اتحادیوں کی پوزیشن اس طرح ہے کہ ان کے پاس ہمیشہ اکثریت کا ووٹ ہوتا ہے۔ اس غیر مساوی ترکیب کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور تین یورپی ممالک (برطانیہ، فرانس، جرمنی) جب چاہیں، ایران یا کسی دوسرے آزاد ملک کے خلاف قرارداد پاس کرسکتے ہیں، چاہے اس کی تکنیکی بنیادیں بالکل ہی کمزور یا نہ ہونے کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
ایران کیخلاف بورڈ آف گورنرز کی سیاسی قراردادوں کی تاریخ کا جائزہ
گذشتہ دو دہائیوں میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز نے بارہا اسلامی جمہوریہ ایران پر سیاسی دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ بن کر اپنے تکنیکی اور غیر جانبدارانہ مشن سے دوری اختیار کی ہے۔ ایران کے خلاف جاری کردہ قراردادوں کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقدامات اکثر بین الاقوامی پیش رفت کے ساتھ ساتھ مغربی طاقتوں کے مفادات کے مطابق کیے گئے ہیں۔ ستمبر 2003ء میں، ایران کے خلاف پہلی سرکاری قرارداد منظور کی گئی، جس میں ایران پر جوہری پروگرام کو چھپانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ پھر نومبر 2004ء میں، سعد آباد معاہدے کے دوران، بورڈ آف گورنرز نے ایران کی افزودگی کی سرگرمیوں کو معطل کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک قرارداد پاس کی۔
فروری 2006ء میں، جیسے ہی سیاسی دباؤ میں شدت آتی گئی، بورڈ نے ایران کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھیج دیا، جس نے تہران کے خلاف وسیع بین الاقوامی پابندیوں کے نفاذ کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد، 2018ء میں امریکہ کے JCPOA سے دستبردار ہونے کے بعد، بورڈ آف گورنرز نے یورپی ممالک کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے، جون 2020ء میں ایران پر عدم تعاون کا الزام لگایا اور تہران کے خلاف ایک اور قرارداد جاری کر دی گئی۔ نومبر 2022ء اور جون 2024ء میں دو دیگر قراردادیں منظور کی گئیں، جن میں بنیادی طور پر کچھ مقامات پر یورینیم کے ذرات کی دریافت کے بارے میں غیر ثابت شدہ دعووں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ یہ وہ دعویٰ ہے، خس کی ایران نے بارہا تردید کی ہے اور اسے ایجنسی کی سیاست کاری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
اس سلسلے میں جون 2025ء میں بورڈ آف گورنرز کی حالیہ قرارداد کا تجزیہ بھی مبصرین ایک سیاسی عمل کے حصے کے طور پر کر رہے ہیں، جس کا مقصد تعطل کے شکار مذاکرات کے تناظر میں ایران پر دباؤ بڑھانا اور چین اور روس جیسی طاقتوں کے ساتھ تہران کے تعاون کو خراب کرنا ہے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ، بورڈ آف گورنرز کے مستقل ارکان کے طور پر، امریکہ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ یہ ممالک نہ صرف خود بورڈ میں موجود ہیں بلکہ ووٹنگ میں مغرب کے ساتھ منسلک یا ان پر انحصار کرنے والے ممالک کو شامل کرنے کے لیے لابنگ اور اثر و رسوخ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ایسی قراردادوں کا منظور ہونا ہے، جو سائنسی اور تکنیکی ہونے کے بجائے مخصوص سیاسی مقاصد کو پورا کرتی ہیں۔
صیہونی لابی کا کردار
صیہونی حکومت کی لابی نے بھی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف قرارداد کو آگے بڑھانے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ ایران نے حال ہی میں اسرائیل کی سرکاری دستاویزات شائع کرکے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ کے ساتھ اسرائیل کے تعاون کا انکشاف کیا ہے۔ تل ابیب کی جانب سے یہ اقدام سیاسی خلا پیدا کرنے اور ایجنسی کو اپنے ایران مخالف مفادات کے مطابق ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی منظم کوششوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ صیہونی حکومت سے حاصل ہونے والی دستاویزات کا پہلا مجموعہ ظاہر کرتا ہے کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل نے اس حکومت کے ساتھ مکمل تعاون اور قریبی رابطہ رکھا ہے اور اس کے احکامات پر پوری طرح عمل درآمد کیا ہے۔ ان دستاویزات سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس قرارداد کی منظوری کا مقصد تکنیکی جوہری مسائل کو حل کرنا نہیں بلکہ ایران پر سیاسی دباؤ بڑھانا اور خطے میں اسلامی جمہوریہ کی تزویراتی کامیابیوں کو روکنا ہے۔
دو قطبی بین الاقوامی ماحول میں تکنیکی اداروں کا منفی کردار
قراردادوں سے زیادہ خطرناک چیز بین الاقوامی اداروں کی ساکھ کا مجروح ہونا ہے۔ جب انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اور اس کا بورڈ آف گورنرز میدانی حقائق پر بھروسہ کرنے کے بجائے صرف اور صرف سیاسی بنیادوں پر مبنی رپورٹس پر انحصار کریں گے تو اس کا نتیجہ بین الاقوامی اداروں پر عدم اعتماد کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا اس بات پر تاکید کی ہے کہ ان سیاسی دباؤ کے باوجود وہ اپنے پرامن ایٹمی پروگرام کو بھرپور طریقے سے جاری رکھے گا اور بورڈ آف گورنرز جیسے سیاسی ہتھیاروں کو ایران کی سائنسی اور تکنیکی میدان میں روک تھام کا عنصر نہیں بننے دے گا۔ اپنے سرکاری بیانات میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ایجنسی کو اپنے تکنیکی اور غیر سیاسی کام پر واپس آنا چاہیئے اور دوہرے معیارات سے بھی گریز کرنا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی بارہا اس بات پر ایران کے خلاف بین الاقوامی سیاسی دباؤ میں ایران کا نتیجہ ایران پر ایران کی نے بارہا ایران نے کے ساتھ اور اس کی گئی
پڑھیں:
بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار مچھیرے کے اہم انکشافات
آپریشن سندور کی ناکامی اور عالمی سطح پر پاکستان کے ہاتھوں رسوائی کے بعد سے بھارت نے مسلسل پاکستان کو بدنام کرنے کی منظم مہم شروع کر دی ہے، اسی سلسلے کی ایک ناکام کوشش کو ہماری مستعد سیکیورٹی ایجنسیز نے بے نقاب کیا ہے۔اس کوشش میں انڈین انٹیلیجنس ایجنسی نے ایک پاکستانی مچھیرے کو پاکستان رینجرز، نیوی اور آرمی کی وردیاں اور دیگر سامان خرید کر بھارت بھیجنے کا ٹاسک سونپا، تاہم ہماری سیکیورٹی اداروں کی بروقت کاروائی نے بھارت کے اس منصوبہ بندی کا سراغ لگا لیا۔ اور مجرم کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔اس کارروائی کی مکمل تفصیل اور ملزم کا اقبالی بیان بمعہ تمام ثبوت یہاں پیش کیا جارہا ہے۔پاکستانی سیکوریٹی ایجنسیاں گہرے سمندری پانیوں میں بھارتی ایجنسیوں کی مشکوک حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اکتوبر 2025 میں سکیورٹی اداروں نے مسلسل نگرانی کے بعد ایک بظاہر عام سے مچھیرے سے مسلح افواج کی وردیاں اور مشکوک سامان برآمد کیا ہے۔ یہ شخص کچھ عرصہ سے مختلف دوکانوں سے پاکستانی افواج کے استعمال کی چیزوں کا پوچھ گچھ کرنے کی وجہ سے ہماری نظروں میں تھا۔ مشکوک سرگرمیوں کی تصدیق کے بعد ایک مشترکہ انٹیلیجنس آپریشن میں اس شخص کو فوجی وردیوں اور دیگر سامان سمیت اس وقت رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا، جب وہ کشتی کے ذریعے اس سامان کو بھارت سمگل کرنا چاہ رہا تھا۔گرفتاری کے بعد ملزم سے اس کے مقاصد، روابط اور ممکنہ جاسوسی نیٹ ورک کے بارے میں تفصیلی تفتیش کی گئی۔ اور اس کے موبائل فون کے فرانزک تجزیے کے بعد مندرجہ زیل حقائق سامنے آئے۔اعجاز ملاح نے بتایا کہ وہ ایک غریب مچھیرا ہے جو گہرے پانی میں جا کر مچھلی پکڑتاتھا- وہ بھارتی خفیہ ایجنسی کےلالچ کی بھینٹ چڑھ گیا، ستمبر 2025 میں بھارتی کوسٹ گارڈ نے اسے گہرے پانیوں میں مچھلی کا شکار کرتے ہوئے گرفتار کیا-
بعد ازاں اُسے ایک نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جہاں بھارتی انٹلیجنس کے اہلکاروں نے اس سے ملاقات کی اوراسے بتایا کہ گرفتاری کے الزام کے تحت اسے بھارت میں دو سے تین سال قید کی سزا بھگتنی پڑے گی۔بھارتی اہلکاروں نے پیشکش کی کہ اگر وہ پاکستان کے اندر ان کے لیے کام کرے تو اسے رہا کیا جا سکتا ہے، جس پر اس نے لالچ اور دھمکیوں میں رضامندی ظاہر کی۔انہوں نے اسے کچھ سامان فراہم کرنے کی ہدایت کی جو اسے پاکستان جا کر جمع کرنا تھا اور بعد ازاں کشتی کے ذریعے بھارت پہنچانا تھا۔پاکستان نے اس مچھیرے کی اپنے ہینڈلر سے کی گئی وائس چیٹ بھی حاصل کر لی ہے۔ جس میں اس کو چھ پاکستانی مسلح افواج کی مخصوص ناپ کی وردیاں (آرمی، نیوی اور سندھ رینجرز)، نام کی پٹیاں (جن پر مخصوص نام: عبید، حیدر، سہیل، ادریس، صمد اور ندیم لکھے ہوں)، تین زونگ موبائل سم کارڈ (جن کا بلینک خریداری انوائس کراچی کی دکان کے ساتھ ہوں)، سگریٹ کے پیکٹ، ماچس، لائٹر اور پاکستانی کرنسی کے 100 اور 50 کے نوٹ فراہم کرنے کو کہا۔اعجاز نے کراچی کی مختلف دوکانوں سے مطلوبہ سامان کا انتظام کیا، جس کی تصویریں اس نے بھارتی انٹلیجنس کو بھیجیں۔ اعجاز کو 95 ہزار روپے سامان کی تصاویر بھجوانے کے عوض ادا کیے گئے، جبکہ بقیہ رقم سامان کی کامیاب ترسیل کے بعد ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔اکتوبر کے آغاز میں، وہ مبینہ طور پر مذکورہ سامان بھارت پہنچانے کے لیے سمندر کی سمت روانہ ہوا، تاہم پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اسے حراست میں لے لیا۔بھارتی سیاسی قیادت پاکستان دشمنی میں اندھی ہو چکی ہے۔ اور آپریشن سندور کی شکست کو بہار کے ریاستی انتخابات سے عین پہلے ایک فالس فلیگ آپریشن کے زریعے بدلنے کی کوشش کر رہی ہے.یہ میڈ ان پاکستان اشیاء سگریٹ ، لائٹرز ، اور کرنسی کسی ایسے جعلی مقابلے میں استعمال کرنے کا امکان ہے جس کے بعد یہ پرواپیگنڈہ کیا جا سکے کہ پاکستان بھارت میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد میں براہ راست ملوث ہے-پاکستان نیوی اور سندھ رینجرز کی مخصوص وردیوں کی طلب سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جعلی کارروائی ممکنہ طور پر بھارتی ریاست گجرات کے ساحلی علاقوں، خصوصاً کچھ یا بھوج میں انجام دینے کا منصوبہ ہے۔ اور اس سازش کو بھارت کی اسے علاقے میں ہونے والی جنگی مشقوں سے جوڑا جائے۔ان حاصل کردہ فوجی وردیوں اور دیگر سامان سے پاکستانی فوج کے حاضر سروس اہلکاروں کی گرفتاری کا جھوٹا ڈرامہ بھی کیا جاسکتا ہے۔زونگ سم کارڈز اس لیے شامل کیے گئے تاکہ مبینہ آپریٹرز یا آپریشن کی فنڈنگ اور مواصلاتی رابطے چینی عناصر سے منسوب کیے جا سکیں۔پاکستان اس گھناؤنے بھارتی آپریشن کے تمام شواہد اپنے بین الاقوامی دوستوں کے سامنے بھی پیش کر رہا ہے تاکہ بھارت کا مذموم چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے۔