گستاخانہ بزنس اور حب رسول ﷺ
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
ساڑھے چودہ سو سال ہو چکے،آج تک ہر گستاخ رسول کو ذلت ورسوائی کے ساتھ عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے ہوئے دنیا نے دیکھا ،مسلیمہ کذاب سے لے کر مسلیمہ پنجاب مرزا قادیانی تک، ابن خطل سے لے کر تسلیمہ نسرین اور ملعون سلمان رشدی تک،ہر گستاخ کی ذلت ورسوائی سب کے سامنے بے ،گستاخان رسول اور انکے حامی سہولت کار جب جب سامنے آئے مسلمانوں کی نفرت اور تلوار کا نشانہ بنے، پاکستان میں ایف آئی آئے کے سائبر کرائم ونگ کے ہاتھوں گرفتار گستاخوں کے مقدمات پر پوری قوم کی نظریں لگی ہوئی ہیں،ایمان مزاری،منیزے جہانگیر سے لے کر پاکستانی بھگوڑے احمد نورانی تک گستاخوں کے سارے سہو لت کار اگر تادم تحریر کسی عدالتی فورم پر بھی کسی ایک گستاخ کا مقدمہ بھی جھوٹا ثابت نہیں کر سکے تو وہ اور ان کی سرپرستی کرنے والی طاغوتی طاقتیں یاد رکھیں،ان کی جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والی فیکٹریاں تباہ تو ہو جائیں گی…مگر محافظین ناموس رسالت ﷺکا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی،ان شااللہ ،رسول اکرم ﷺسے محبت تمام عبادات کی بنیاد ہے،اس لئے ہم اپنی تحریروں، تقریروں اور عمل کے ذریعے محبت رسول ﷺعام کرتے رہیں گے ، عالمی صیہونی ایجنٹوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مسلمان حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے والے بن جائیں۔
محبت رسول ﷺ اسی مسلمان کے دل میں سما سکتی ہے کہ جو عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہو،نئی نسل کو سیکولر شدت پسند بنا کر ان کے دلوں سے محبت رسول ﷺ کھرچنے کی کوششیں کرنے والے عقل و خرد سے فارغ عالمی اندھوں اور ان کے مقامی ٹاوٹوں کو کوئی بتائے کہ دین اسلام نے اپنے پیروکاروں کو یہ ضابطہ دیاہے کہ جو شخص جس سے محبت کرے گا اس کو اس کی رفاقت نصیب ہو گی ۔’حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے پوچھا ،یارسول اللہ ﷺ قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺنے فرمایا تونے قیامت کے لئے کیا تیاری کررکھی ہے؟عرض کیا میں نے روزقیامت کے لئے اتنی زیادہ نمازوں ، روزوں اور صدقات کے ساتھ تیاری نہیں کی لیکن اللہ اور رسولؐ سے محبت رکھتا ہوں ، آپﷺنے فرمایا تو اپنے محبوب کے ساتھ ہی ہوگا ۔ (بخاری)۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں اسلام لانے کے بعد آج تک ہم کبھی اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے آج آپ کایہ فرمان سن کر خوش ہوئے۔
حضور علیہ السلام کی محبت اس قدراہم اور افضل واعظم ہے کہ خداوندقدوس ارشادفرماتے ہے، ترجمہ ’’تم فرما اگر تمہارے باپ اوربیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارکنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سوداجس کے نقصان کاتمہیں ڈرہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اوراس کے رسولؐ کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھ ،یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے‘‘ (سورہ توبہ) اس آیت کریمہ میں واضح طورپر معلوم ہواکہ جسے دنیا میں کوئی معززیا عزیز یامال اللہ اور رسولﷺؐسے زیادہ عزیزہووہ بارگاہ الٰہی میں مردود ہے اورمستحق عذاب ہے۔
بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قسم اٹھا رکھی تھی کہ جب ہم صبح اٹھیں گے تو سب سے پہلے نبی علیہ السلام کا دیدارکریں گے،چنانچہ وہ نبی علیہ السلام کے حجرہ کے باہر بیٹھ کر انتظارکرتے جب آپ ﷺتشریف لاتے تو آپ ﷺکا دیدار کرنے کیلئے آنکھیں کھولتے، بعض حضرات رات کے وقت گھر سوئے ہوئے ہوتے آنکھ کھل جاتی تو نبی علیہ السلام کے خیال مبارک سے دل اداس ہوجاتا،گھر سے باہر آکر نبی ﷺکے حجرات کی زیارت کرتے رہتے،گھنٹو ں بیٹھے دیکھتے رہتے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں میرامحبوب ﷺ سویا ہواہے،ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے اور کچھ عرصہ صحبت نبوی ﷺمیں رہنے کے بعد گھر واپس گئے ،وہاں ان کے کسی عورت کے ساتھ مراسم اور تعلقات تھے،وہ عورت ان سے ملنے کے لئے آئی،انہوں نے رخ پھیرلیا،وہ کہنے لگی ،کیابات ہوئی ؟وہ بھی وقت تھا جب تم میری محبت میں بے قرارہوکر گلیوں کے چکر لگاتے تھے ، مجھے ایک نظر دیکھنے کے لئے تڑپتے تھے ،میری ملاقات کے شوق میں ٹھنڈی آہیں بھرتے تھے،اب میں خودچل کرتمہارے پاس ملنے کے لئے آئی ہوں ،تو تم نے آنکھیں بندکرلیں،وہ فرمانے لگے کہ میں ایسی ہستی کودیکھ کر آیاہوں کہ اب میری نگاہیں کسی غیر پر نہیں پڑسکتیں ۔میں دل کاسوداکرچکا ہوں،وہ عورت ضدمیں آکرکہنے لگی اچھا ایک مرتبہ میری طرف دیکھ تولو،اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،اے عورت !چلی جائورنہ میں تلوارسے تمہاراسرقلم کردوں گا۔ ایک حبشی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر کے بال گھنگریالے تھے وہ غسل کرنے کے بعد چاہتے کہ سرکے بالو ںمیں مانگ نکالیں مگر نہ نکلتی،انہیں بہت حسرت رہتی کہ میراسر بھی نبی علیہ السلام کے سرمبارک سے مشابہہ ہونا چاہئے ۔ ایک دن فرط جذبات میں انہوں نے لوہے کی سلاخ گرم کی اور سرکے درمیان میں پھیر دی ۔ چمڑااور بال جلنے کی وجہ سے سر کے درمیان ایک لکیر نظر آنے لگی، لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اتنی تکلیف کیو ں اٹھائی ؟ فرمایا ،تکلیف تو بھول جائوں گا جب میرے سرپر یہ مانگ اسی طرح نظر آئے گی جس طرح نبی علیہ السلام کے سرپر نظر آتی ہے۔
عشق رسول ﷺ میں صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بہت اعلیٰ اور نمایا ں مثالیں پیش کیں، ان کے سینے عشق نبوی ﷺسے معمورتھے اور ان کے پاکیزہ قلوب اس نعمت کے حصول پر مسرور تھے،چند مثالیں درج ذیل ہیں۔جنگ احد میں یہ افواہ چاروں طرف پھیل گئی کہ نبی اکرم ﷺشہید ہوگئے ہیں مدینہ کی عورتیں شدت غم سے روتی ہوئی گھروں سے باہر نکل آئیں ، ایک انصاریہ صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگیں کہ میں اس بات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کروں گی جب تک کہ خود اس کی تصدیق نہ کرلوں ۔چنا نچہ وہ اونٹ پر سوار ہوکر احد کی طرف نکل پڑیں جب میدان جنگ کے قریب پہنچیں تو ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے،ان سے پوچھنے لگیں ۔محمد ﷺکا کیا حال ہے ؟انہوں نے کہامعلوم نہیں لیکن تمہارے بھائی کی لاش فلاں جگہ پڑی ہے،وہ اس خبر کوسن کر ذرابھی نہ گھبرائی اور آگے بڑھ کر دوسرے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہی پوچھا ۔انہوں نے جواب دیا معلوم نہیں مگر تمہارے والدکی لاش فلاں جگہ میں نے دیکھی ہے۔ تیسرے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی پوچھا۔انہوں نے بتایا کہ میں نے تمہارے خاوند کی لا ش فلاں جگہ دیکھی ہے ، پھر پو چھا کہ نبی ﷺکی خیریت کے بارے میں بتا کسی نے کہاکہ میں نے نبی ﷺکو فلاں جگہ بخیرت دیکھا ہے تواس عورت نے آپ ﷺکے قریب پہنچ کر چادرکا ایک کونہ پکڑکر کہا(ہر مصیبت نبی ﷺکے بعد آسان ہے)اس سے پتا چلتا ہے کہ صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قلوب میں جو محبت نبیﷺکے لئے تھی وہ والد،بھائی اور شوہر کی محبت سے بھی زیادہ تھی یہی ایمان کامل کی نشانی بتائی گئی ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: صحابی رضی اللہ تعالی نبی علیہ السلام کے نے کے لئے انہوں نے کے ساتھ رسول ﷺ کہ میں اور ان کے بعد
پڑھیں:
لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔
اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔
اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔
خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔