جنوبی پنجاب کے کئی دیہی علاقے آج ایک خاموش مگر خطرناک ماحولیاتی بحران سے گزر رہے ہیں، جس کا آغاز اس وقت ہوا جب مقامی کسانوں نے تیزی سے اُگنے والے درخت ’سفیدہ (Eucalyptus)‘ کو اپنی زمینوں پر اُگانا شروع کیا۔ ابتدا میں یہ ایک معاشی سہارا تھا۔
سفیدہ ایک ایسا درخت ہے جو چند سالوں میں بڑا درخت بن جاتا ہے، یہ لکڑی دے کر آمدن پیدا کرتا ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاشی سہولت ماحولیاتی سانحہ بن گئی، جس نے زمین کی زرخیزی، پانی کے ذخائر، اور خاص طور پر عورتوں کی روزمرہ زندگی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی اور کسان کی مجبوری:فصلوں کی مسلسل ناکامی، نہری نظام میں پانی کی کمی، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کی غیر متوقع صورت حال نے کسانوں کو مجبور کیا کہ وہ متبادل ذرائع آمدن کی طرف جائیں۔
پاکستان علاقوں میں کئی کسانوں نے سفیدہ کو ایک ‘معاشی حل’ کے طور پر اپنایا ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ درخت محنت کم مانگتا ہے اور پھل یعنی منافع زیادہ دیتا ہے۔ سفیدہ جلد تیار ہونے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے۔
کاشتکار محمد رمضان کہتے ہیں؛
’پہلے ہم کماد اور گندم لگاتے تھے، لیکن اب بارشوں کا کوئی وقت نہیں، اور فصلیں مسلسل برباد ہو رہی تھیں۔ سفیدہ لگایا تو کم از کم لکڑی بِک جاتی ہے‘۔
زیر زمین پانی پر سنگین اثرات:پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کے اعداد و شمار کے مطابق، ایک سفیدہ کا درخت روزانہ اوسطاً 30 سے 40 لیٹر پانی زمین سے جذب کرتا ہے۔ اگر ایک ایکڑ میں 100 سفیدہ کے درخت ہوں تو وہ روزانہ 3,000 سے 4,000 لیٹر پانی زمین سے کھینچ لیتے ہیں۔
جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح ہر سال 2 سے 3 فٹ نیچے جا رہی ہے، اور اس رجحان کی ایک اہم وجہ یہی درخت ہیں۔
بلین ٹری سونامی: شجرکاری یا ماحولیاتی خطرہ؟حکومت پاکستان کے بلین ٹری سونامی منصوبے کا مقصد ماحولیاتی بحالی تھا، مگر متعدد ماحولیاتی ماہرین نے اس پر تنقید کی ہے کہ اس پروگرام میں ایسے غیر مقامی درختوں کو ترجیح دی گئی جو ماحولیاتی توازن کے لیے نقصان دہ ہیں۔
عالمی ماحولیاتی رپورٹس کے مطابق، 2023 تک صرف 1.
پاکستان میں درختوں کے ماحولیاتی اثرات پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقامی زرعی جامعات اور ریسرچ انسٹیٹیوٹس اب بھی سفیدہ کے خلاف واضح مؤقف دینے سے گریزاں ہیں۔
سرکاری پالیسی ساز ادارے، جو بلین ٹری سونامی جیسے بڑے پروگراموں کی نگرانی کرتے ہیں، سفیدہ کے اثرات پر واضح پالیسی دینے سے قاصر ہیں۔
نرسری لابی اور حکومتی خاموشی:مقامی نرسریوں کو سفیدہ کی تیز فروخت سے فائدہ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ پودا سستا، دستیاب اور تیزی سے اگنے والا ہے، اس لیے چھوٹے کسان اسے بآسانی خرید لیتے ہیں۔ مگر حکومت کی طرف سے متبادل، ماحول دوست درختوں جیسے نیم، بیری یا شریں کی نہ پروموشن ہے نہ ہی کوئی ایسا ادارہ ہے جو مقامی سطح پر کسانوں کو سائنسی بنیادوں پر سفیدہ کے خطرات سے آگاہ کرے۔
معاشی جبر اور زمین کی فروخت:سفیدہ کی کاشت کے بعد جب زمین اپنی زرخیزی کھو دیتی ہے اور پانی ختم ہو جاتا ہے تو چھوٹے کسان زمین فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف ان کی معاشی خودمختاری سلب کرتی ہے بلکہ زمین سے جڑے ان کے رشتے کو بھی کاٹ دیتی ہے۔
نقل مکانی اور ثقافت:سفیدہ کی موجودگی صرف زمین کی نہیں بلکہ تہذیب کی شکست بھی ہے۔ جب پانی کی کمی اور زمین کی بربادی بڑھ جاتی ہے تو دیہاتی گھرانے شہروں کا رخ کرنے لگتے ہیں۔
یہ نقل مکانی نہ صرف سماجی ڈھانچے کو متاثر کرتی ہے بلکہ دیہی معیشت اور زراعت کو بھی کمزور کرتی ہے۔ جب دیہات سے لوگ پانی کی تلاش میں شہروں کی طرف جاتے ہیں تو ساتھ اپنی زبان، روایات، اور ثقافتی شناخت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔
ماحولیاتی ناانصافی:جن علاقوں میں پانی کی پہلے ہی قلت تھی، وہاں سفیدہ کی کاشت نے بحران کو سنگین تر بنا دیا۔ امیر زمیندار تو ٹیوب ویل لگا لیتے ہیں، مگر غریب کسان اور خاص طور پر خواتین اس اثر سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ یہ ماحولیاتی مسئلہ طبقاتی تفریق کو بھی مزید نمایاں کرتا ہے۔
عورت کی زندگی، پانی کی جدوجہد:اس ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا اثر خواتین پر پڑا ہے، جو گھریلو سطح پر پانی کا بندوبست کرتی ہیں۔ جہاں پہلے گھروں کے قریب کنویں یا نلکے ہوا کرتے تھے، اب وہاں پانی کا نشان تک باقی نہیں۔
خواتین کو روزانہ کئی کلومیٹر کا سفر طے کر کے پانی لانا پڑتا ہے، جس سے ان کی صحت، تعلیم (اگر وہ طالبہ ہوں)، اور گھریلو زندگی شدید متاثر ہوتی ہے۔
مہرالنساء، جو ضلع میانوالی کی رہائشی ہیں، بتاتی ہیں:’صبح کا آغاز پانی کی تلاش سے ہوتا ہے، اور دوپہر تک تھکن سے چور ہو جاتی ہوں پانی بھر کر لانے میں وقت ہی وقت گزر جاتا ہے۔ بچے اسکول دیر سے پہنچتے ہیں۔ اگر بیمار ہو جائیں تو علاج سے پہلے پانی کا بندوبست ضروری ہوتا ہے۔ پہلے نلکا صرف دس فٹ کھودنے سے پانی دے دیتا تھا، اب 150 فٹ تک کھود چکے ہیں، پھر بھی پانی نہیں نکلتا‘۔
حیاتیاتی تنوع کا نقصان:سفیدہ کی موجودگی مقامی درختوں، پودوں، پرندوں اور دیگر حشرات کی بقا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق جنوبی پنجاب کی روایتی نباتات اور جانوروں کی اقسام اب تیزی سے ختم ہو رہی ہیں کیونکہ سفیدہ ان کی فطری رہائش گاہوں پر حاوی ہو گیا ہے۔
قانونی پہلو اور ضلعی غفلت:تاحال کسی ضلعی حکومت نے سفیدہ کی کاشت پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے، اور نہ ہی اس کے حوالے سے کوئی ضابطہ کار موجود ہے۔ یہ قانونی خلا اس بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے۔
پالیسی تضادات اور غیر مربوط حکمت عملی:ایک طرف محکمہ جنگلات سفیدہ جیسے درختوں کی افزائش کے لیے سبسڈی دیتا ہے، تو دوسری طرف محکمہ زراعت ان کے منفی اثرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان محکموں کے درمیان مربوط حکمت عملی کا فقدان چھوٹے کسانوں کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
متبادل کی عدم موجودگی اور رہنمائی کا فقدان:کسانوں کو مناسب متبادل درختوں یا زراعتی ماڈلز کی نہ تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے لیے حکومتی اسکیمز موجود ہیں۔ اس وجہ سے وہ وہی راستہ اختیار کرتے ہیں جو نظر آتا ہے، چاہے وہ ماحول اور معیشت دونوں کے لیے نقصان دہ کیوں نہ ہو۔
اکثر کسان اب بھی سفیدہ کو ایک ‘رحمت’ سمجھتے ہیں، اور انہیں اس کے طویل مدتی اثرات کا علم نہیں۔ حکومتی یا غیر سرکاری سطح پر کوئی ایسا پروگرام موجود نہیں جو دیہاتی علاقوں میں ماحولیاتی شعور بیدار کرے۔
نتیجہ: فوری فائدہ یا دیرپا نقصان؟یہ سوال اب ہر گاؤں، ہر کسان، اور ہر خاتون کے سامنے ہے:
کیا چند سالوں کے لیے ہونے والا مالی فائدہ اس نقصان کا جواز بن سکتا ہے جو ہماری زمین، پانی، اور عورتوں کی زندگیوں پر ہو رہا ہے؟
سفیدہ ایک درخت نہیں، ایک فیصلہ ہے۔ ایسا فیصلہ جو زمین کے سینے سے پانی نچوڑتا ہے، عورت کی زندگی کو مزید مشکل بناتا ہے، اور آنے والی نسلوں کے لیے خشک، بنجر زمین چھوڑ جاتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ریاست، ماہرین اور کسان ایک ساتھ بیٹھ کر متبادل تلاش کریں۔ ایسے متبادل جو زمین کو سانس لینے دیں، عورت کو سکون دیں، اور پانی کو بچا لیں۔
مہ پارا ذوالقدر
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: علاقوں میں کسانوں کو سفیدہ کے سفیدہ کی پانی کی جاتا ہے زمین کی کرتا ہے پانی کا کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان حکومت کی کلائمیٹ چینج فنڈ قائم کرنے کی منظوری
وزیراعلیٰ بلو چستان نے کہا کہ بلوچستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں، فنڈ کے ذریعے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ایک صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کی سمت میں عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان حکومت نے کلائمیٹ چینج فنڈ قائم کرنے کی منظوری دے دی۔ وزیراعلیٰ بلو چستان میر سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں، فنڈ کے ذریعے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ایک صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کی سمت میں عملی اقدامات کئے جائیں گے، حکومت پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے قدرتی ماحول کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل کر چکی ہے۔ میر سرفراز بگٹی نے مزید کہا کہ کلائمیٹ چینج فنڈ اس ویژن کی ایک بڑی عملی شکل ہے ، ماحولیاتی ماہرین نے حکومت بلوچستان کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا۔