فوجی عدالتوں کا دائرہ کار متنازع، لاہور ہائیکورٹ بار نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 7 مئی 2024 کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں باضابطہ درخواست دائر کر دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ فیصلہ نہ صرف آئین پاکستان بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آرٹیکل 10-اے جو ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے اور آرٹیکل 175(3) جو عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، کی صریح خلاف ورزی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتیں شہریوں کو بنیادی قانونی تحفظات فراہم کرنے سے قاصر ہیں، جہاں شفاف ٹرائل اور اپیل کا حق دستیاب نہیں ہوتا۔
درخواست گزاروں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی عام شہریوں پر فوجی عدالتوں کا اطلاق نہیں کیا گیا، اور ایسے اقدامات آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مجروح کرتے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ شہریوں کے قانونی حقوق، عدالتی انصاف، اور قانون کی بالادستی کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے، جس سے متاثرہ افراد کے لیے شفافیت، آزادانہ دفاع اور منصفانہ اپیل کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، یہ تمام عوامل نہ صرف آئینی تقاضوں بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
درخواست میں بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم ہے، جس میں ہر شخص کو آزاد، غیرجانبدار اور عوامی عدالت میں ٹرائل کا حق دیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار نے عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کے ٹرائل کو غیرآئینی، غیرقانونی اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مذکورہ فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، اور سویلین افراد کو صرف آئینی و قانونی عدالتوں میں ہی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے۔
یاد رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں فوجی عدالتوں میں سویلین افراد کے خلاف مقدمات کی اجازت دی تھی، جس پر ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز، انسانی حقوق تنظیموں اور سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، لاہور ہائی کورٹ بار کی درخواست اسی فیصلے کے خلاف قانونی کارروائی کا تسلسل ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لاہور ہائی کورٹ بار انسانی حقوق کے فوجی عدالتوں سپریم کورٹ گیا ہے
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 ستمبر2025ء)سپریم کورٹ نے ساس اور سسر کے قتل کے مجرم اکرم کی اپیل خارج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔منگل کوجسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نیکیس کی سماعت کی،سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ میاں بیوی میں جھگڑا نہیں تھا تو ساس سسرکو قتل کیوں کیا دن دیہاڑے دو افرادکو قتل کیا گیا، اور اب کہا جارہا ہے کہ غصہ آ گیا تھا۔(جاری ہے)
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ بیوی کو منانے گیا تھا تو ساتھ پستول لے کر کیوں گیا ۔ملزم کیوکیل پرنس ریحان نے کہا کہ میرا موکل بیوی کومنانے کے لیے میکے گیا تھا،جس پرجسٹس ہاشم کاکڑنے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب آپ تو لگتا ہے بغیر ریاست کے پرنس ہیں،جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ بعض اوقات مدعی بھی ایف آئی آر کے اندراج میں جھوٹ بولتے ہیں،قتل شوہر نے کیا لیکن ایف آئی آر میں مجرم کے والد کا نام بھی ڈال دیا گیا۔عدالت نے قرار دیا کہ جرم ثابت ہے اور سزا میں کمی کی کوئی وجہ نہیں،یوں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا اور مجرم کی اپیل مسترد کر دی گئی۔