کیا اے آئی پاکستان میں شعبہ صحت پر سے بوجھ کم کرسکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں ذیابیطس اور امراضِ قلب جیسے مسائل میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جبکہ طبی ادارے محدود وسائل کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ ایسے میں ماہرین صحت عامہ کے شعبے میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے استعمال کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے رہے ہیں، کیونکہ یہ ٹیکنالوجی شعبہ صحت پر بوجھ کم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
اے آئی ٹیکنالوجی ڈاکٹروں کو تشخیص میں مدد فراہم کر سکتی ہے، خاص طور پر ریڈیولوجی، ایکسرے، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی اور جلدی بیماریوں کی شناخت میں۔ یہ جلد کے کینسر، تپ دق (ٹی بی)، یا ذیابیطس سے متاثرہ آنکھوں جیسے پیچیدہ مسائل کی بروقت تشخیص میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
علاوہ ازیں، اے آئی پر مبنی چیٹ بوٹس یا ورچوئل اسسٹنٹس دور دراز علاقوں میں بنیادی علامات کی شناخت، مریض کو مناسب ماہر کے پاس ریفر کرنے یا ادویات سے متعلق ابتدائی رہنمائی فراہم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، جو کہ دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی قلت کے مسئلے کا ایک عملی حل بن سکتا ہے۔
صحت سے متعلق ڈیٹا کا تجزیہ بھی اے آئی کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ مریضوں کی معلومات جیسے بلڈ پریشر، شوگر لیول یا دل کی دھڑکن کا مسلسل جائزہ لے کر یہ نظام کسی خطرناک صورتحال کی پیشگی نشاندہی کر سکتا ہے۔ اسی طرح یہ اسپتالوں میں مریضوں کی آمد، بیڈز کی دستیابی، یا دوا کی طلب و رسد کی پیش گوئی بھی ممکن بناتا ہے۔
انتظامی امور میں بھی اے آئی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مریض کی ہسٹری، نسخے، رپورٹس اور فالو اپ نوٹس خودکار طریقے سے محفوظ کیے جا سکتے ہیں، جس سے ڈاکٹر اپنے قیمتی وقت کا زیادہ حصہ مریضوں کے علاج پر صرف کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ ادویات کی تیاری اور تحقیق میں بھی اے آئی مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ دوا ساز ادارے نئی ادویات کی دریافت، ویکسین کی تیاری اور ممکنہ مضر اثرات کی پیشگی جانچ میں اے آئی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس سے تحقیق کا عمل تیز اور مؤثر ہو جاتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سعدیہ جاوید نے کہا کہ محکمہ صحت میں بائیو میٹرک کا نظام متعارف کرایا جارہا ہے، جو ڈاکٹر یا اسٹاف ڈیوٹی پر نہیں ہوگا ان کیخلاف سخت کارروائی ہوگی، پنجاب میں جس طرح تباہی ہوئی ہے صوبائی حکومت اکیلے قابو نہیں پاسکتی، گجرات میں 4 روز تک پانی کھڑا رہا وہاں کے کسی وزیر نے بیان نہیں دیا۔ اسلام ٹائمز۔ ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے کہا ہے کہ کراچی کے اسپتالوں میں صرف شہر کے نہیں پورے ملک سے مریض آتے ہیں اور بلوچستان کا پورا بوجھ بھی کراچی کے سول اور جناح اسپتال ہی اٹھارہے ہیں۔ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ سرکاری اسپتالوں میں ایم آر وائی مشینیں خراب ہیں لیکن سیکرٹری صحت نے بتایا ٹیکنیکل اسٹاف جان بوجھ کر ایم آر آئی مشینیں خراب ہونے کا بتاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں کا ٹیکنیکل اسٹاف جان بوجھ کر کہتا ہے ایم آر آئی مشینیں خراب ہیں تاکہ لوگ پرائیویٹ اسپتالوں سے ٹیسٹ کرائیں، اس عمل پر ٹیکنیکل اسٹاف کیخلاف کارروائیاں جاری ہیں، کچھ کی نوکریاں بھی ختم کی ہیں، دیگر کیخلاف انکوائری ہورہی ہے۔
سعدیہ جاوید نے کہا کہ سندھ حکومت محکمہ صحت پر جتنا پیسہ لگارہی ہے کسی اور شعبے میں نہیں لگا رہی، کراچی کے اسپتالوں میں صرف شہرکے نہیں پورے ملک سے مریض آتے ہیں۔ ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ بلوچستان کا پورا بوجھ بھی کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھارہے ہیں، اسپتالوں کی کیپسٹی سے زیادہ مریض ہیں اس لئے صفائی کے معاملات ہیں، سندھ کا میڈیکل سسٹم باقی تمام صوبوں سے بہت بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت میں بائیو میٹرک کا نظام متعارف کرایا جارہا ہے، جو ڈاکٹر یا اسٹاف ڈیوٹی پر نہیں ہوگا ان کیخلاف سخت کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں جس طرح تباہی ہوئی ہے صوبائی حکومت اکیلے قابو نہیں پاسکتی، گجرات میں 4 روز تک پانی کھڑا رہا وہاں کے کسی وزیر نے بیان نہیں دیا۔