ایران اسرائیل کشیدگی، بھارت کی شنگھائی تعاون تنظیم کے بیان سے لاتعلقی
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے ایران اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے جاری بیان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔
تفصیلات کے مطابق بھارت کی وزارتِ خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی پر جاری کردہ بیان سے لاتعلقی اختیارکرلی گئی ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ بھارت اس بیان پر ہونے والی بحث کا حصہ نہیں، بھارت نے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی سے متعلق اپنی پوزیشن 13 جون 2025 کو واضح کر دی تھی۔
بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ بھارت کا یہ مؤقف بدستور برقرار ہے اور ہم فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے کیلیے مکالمے اور سفارت کاری کو بروئے کار لائیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایران اسرائیل کشیدگی کے معاملے میں بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے کوشش کرے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیرِ خارجہ بھارت نے بھی گزشتہ روز اپنے ایرانی ہم منصب سے اس معاملہ پرگفتگو کی۔
بھارت نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر رکن ممالک کو اپنا مؤقف پیش کیا تھا، اور اسی تناظر میں وہ ایس سی او کے اس مخصوص بیان سے لاتعلق رہا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایران اسرائیل کشیدگی شنگھائی تعاون تنظیم بھارت نے
پڑھیں:
پیوٹن کا نیتن یاہو سے ہنگامی رابطہ، پسِ پردہ کیا ہے؟
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورتِ حال پر ایک اہم ٹیلیفونک گفتگو ہوئی ہے۔
کریملن کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے شام کی صورتحال اور حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا اقوام متحدہ سے مطالبہ: فلسطین کو مکمل رکنیت دی جائے، 6 نکاتی عملی روڈمیپ پیش
کریملن کے بیان میں کہا گیا کہ روس نے خطے میں پرامن حل کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ صدر پیوٹن نے شام کی خودمختاری، وحدت اور علاقائی سالمیت کے تحفظ پر زور دیا، اور اس بات کی پیش کش کی کہ روس ایران اور اسرائیل کے درمیان مکالمے کے قیام میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
بیان کے مطابق روسی صدر نے یہ بھی کہا کہ ماسکو ایران کے جوہری پروگرام کے گرد پائے جانے والے تناؤ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون دینے کو تیار ہے۔
دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات اور عالمی امور پر مستقل رابطے کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔
واضح رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں سے آگے شام میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے، جس کا جواز اسرائیلی حکام نے ’دشمن عناصر کو سرحد کے قریب قدم جمانے سے روکنا‘ بتایا۔
اس ماہ کے آغاز میں، اسرائیلی فضائیہ نے دمشق میں شامی وزارتِ دفاع پر کئی فضائی حملے کیے، جس کی وجہ جنوبی شام میں دروز اقلیت کا تحفظ بتائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:روس کھل کر امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایران کی مدد کرے، خامنہ ای کی پیوٹن سے اپیل
بعد ازاں، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور شام کے عبوری رہنما احمد الشراع (جو کہ ماضی میں سخت گیر گروپ ’تحریر الشام‘ کے کمانڈر رہ چکے ہیں) کے درمیان امریکی ثالثی سے جنگ بندی طے پائی۔
جون میں، اسرائیل نے ایرانی جوہری اور عسکری تنصیبات پر امریکا کی مدد سے حملے کیے، جس کے جواب میں ایران نے جوابی کارروائی کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان بارہ دن تک باہمی حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔
روس ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے کشیدگی شروع ہوتے ہی ایران اور اسرائیل دونوں سے رابطہ کیا اور فریقین کو کئی مصالحاتی تجاویز پیش کیں، جیسا کہ صدر پیوٹن نے بیان میں واضح کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل پیوٹن روسی صدر شام غزہ فلسطین کریملن نیتن یاہو