چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رکن زکریا یونیورسٹی کے سابق ناظم برادر لطیف خان سرا ایڈووکیٹ عدالت عظمیٰ اپنے ہی گائوں ساہداں مرید کے میں قتل کر دیے گئے۔ جو لوگ نا حق مارے جائیں انہیں شہید کا رتبہ ملتا ہے۔ لطیف خان سرا کو شہید ہی لکھنا اور کہنا ہے، بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے۔ زمانہ طالم علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے متحرک کارکن تھے، اور بزم پیغام لاہور کے صدر بھی رہے، اسلامی جمعیت طلبہ بھی اپنے کارکنوں سے ان کی صلاحیتیوں کے مطابق کام لیتی رہی ہے، اب بھی یہی ہے، انہیں جمعیت نے زکریا یونیورسٹی بھیجا کہ وہ اس محاذ پر ان کی ضرورت ہے وہاں خوب ذمے داری نبھائی اور نہایت ذمے داری کے ساتھ یہاں کا موچہ سنبھالا، بہت ہی خوابیوں والے انسان تھے۔ پیار کرنے والے دوست، نہایت متحرک زندگی کے حامل، لاہور بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ لاہور بار پنجاب کی ایک بہت بڑی بار ایسو سی ایشن ہے کم و بیش پچیس ہزار سے زائد اس کے ارکان ہیں کوئی سینئر ہے اور کوئی جونیئر۔ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے بیش تر جج لاہور بار ایسوسی ایشن کے رکن رہے ہیں۔ گویا ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل بار ایسوسی ایشن ہے لیکن اس کے رکن کا پنجاب کے بڑے شہر، بڑے ضلع میں گھر کی دہلیز پر قتل ہوجانا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
بات لطیف خان سرا کی نہیں انہوں نے اپنی جان اللہ کے سپرد کردی وہ انسان جو لوگوں کے لیے عدالتوں سے انصاف مانگتا رہا آج خود خبر بن گیا اور نہ جانے اسے انصاف ملے گا یا نہیں؟ اس کا خون رائیگاں جائے گا یا واقعی جن لوگوں نے قانون ہاتھ میں لے کر ایک انسان کی جان لی ہے قانون قاتلوں پر ہاتھ ڈال کر ان کی جان لے گا یا نہیں۔ اب ہمیں اس وقت اور لمحے کا انتظا ر رہے گا۔ ہمارا آئین کیا کہتا ہے یہی کہتا ہے کہ حکومت اور ریاست شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار ہے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ نیند سے بیدار ہو، غنودگی کی کیفیت سے باہر آئے اور دیکھے کہ پنجاب میں کون بدمعاش لوگ اور کتنے ٹولے ہیں جو لاہور میں ہی لوگوں کی جائدادوں پر قبضے کیے بیٹھے ہیں۔ اور ریاست یہ بھی دیکھے کہ ان میں کتنے ہیں جو وفاق میں اور پنجاب میں حکمران رہنے والی ان سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں بلکہ اگلی صفوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ان سیاسی جماعتوں کی اگلی صفوں میں بیٹھے مل جائیں گے۔ یقین مانیے کہ سارا لاہور اس بات سے واقف ہے یہاں قبضہ مافیا بہت طاقت ور ہے۔ اسے پولیس کی سرپرستی ملتی ہے اور ان کے لیے تمام سرکاری اداروں کی بھی چھتری مہیا رہتی ہے۔ جو ادارے لاہوں میں زمینوں کے معاملات سے متعلق ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے پہلے بھی یہاں وزراء اعلیٰ گزرے ہیں۔ یہ سب کے سب سیاسی گھرانوں کا پس منظر رکھنے والے تھے۔ مگر دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ لاہور میں قبضہ مافیا کب سے متحرک ہوا، اسے کس کس سیاسی جماعت اور سیاسی گروہ کی شہ حاصل ہے، یہ بڑے دکھ کے ساتھ بات لکھی جارہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں پولیس، حکومت، میڈیا اور سرکاری اداروں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ کسی مظلوم کا ساتھ نہیں دے گا۔ وہ ظالموں کے ہاتھ میں کھیلیں گے اور انہی کے مفادات کا تحفظ بھی کریں گے۔
ذرا سروے تو کیا جائے کہ پنجاب میں جائدادوں کے جھگڑوں میں کتنی جانیں نا حق گئی ہیں کوئی این جو او اس پر کام کرے گی؟ کوئی میڈیا ہائوس اس بارے میں متحرک ہوگا؟ کوئی سیاسی جماعت، جو اقدار کے لیے سڑکوں، گلی، کوچوں میں رہتی ہے اس اہم ترین معاملے اور ایشوز پر کام کرے گی؟ یا یہ سب لوگ مظلوموں کو ظالموں کے ہاتھوں پٹتے ہوئے دیکھتی رہیں گی۔ مرید کے کا گاؤں ننگل ساہداں کی مٹی بھی حکمرانوں سے سوال کر رہی ہے کہ وہ کب تک مظلوموں کے خون سے سیراب ہوتی رہے گی! قانون کیوں نہیں جاگ رہا اور قانون کے رکوالے کیوں متحرک نہیں ہورہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ذرا ہمت تو کریں، دیکھیں کہ لاہور شہر میں کہاں کہاں قبضہ مافیا ہے۔ پولیس، ایکسائز اور دیگر سرکاری اداروں کے بدنام زمانہ اہل کار کس کس کی جائداوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور کتنے ہیں جو مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں ہیں؟ اور ہمت کرکے ان سب کا سر کچلیے اور ثابت کیجیے کہ شریفوں کی حکومت میں بدمعاشوں کا سکہ نہیں چلے گا۔ تاکہ اس ملک میں سر اٹھاکر چلنے کی رسم شروع ہوسکے اور ہم بھی کہہ سکیں فیض صاحب اب زمانہ بدل گیا آپ بھی اپنے خیالات بدل لیں ورنہ فیض تو یہ کہہ ہی رہے ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ ہی ہیں۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)