نیپال میں ’جنریشن زی‘ تحریک، بھارت کے خطے میں بالادستی کے عزائم بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
نیپال میں سوشل میڈیا پابندی کے خلاف ابھرنے والی ’جنریشن زی‘ کی احتجاجی تحریک نے خطے میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے، مقامی اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان احتجاجی مظاہروں میں شدت آ گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان جھڑپوں کے دوران اب تک 19 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
نیپالی حکومت نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور یوٹیوب سمیت 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بند کر دیے ہیں جبکہ دارالحکومت کٹھمنڈو میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیپال: سوشل میڈیا پر پابندی کیخلاف احتجاج اور ہلاکتیں، وزیراعظم مستعفی ہوگئے
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق نیپالی نوجوان رہنماؤں نے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور مقامی سطح پر حکومت کو سخت دباؤ کا سامنا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اس تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور نیپال سمیت خطے کے دیگر ممالک میں اندرونی مداخلت کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بھارت کے ہندوتوا نظریے پر مبنی توسیع پسندانہ عزائم کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل 2019 میں بھارت نے نیپال کے متنازع علاقے کالاپانی، لیپولیخ اور لمپیادھورا کو اپنے نقشے میں شامل کیا تھا، جس پر نیپال نے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
مزید پڑھیں: نیپال میں پرتشدد مظاہرے جاری، اقوام متحدہ نے تعاون کی پیشکش کردی
اسی طرح مالدیپ میں ’بھارت نکل جاؤ‘ تحریک کے دوران بھارتی مداخلت کے ٹھوس شواہد سامنے آئے اور وہاں کی حکومت کے 3 عہدیدار وزیراعظم مودی کو ’مسخرہ، دہشت گرد‘ اور ’اسرائیل کی کٹھ پتلی‘ قرار دے چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں بھارت کا اثر و رسوخ شیخ حسینہ کی حکومت کے ذریعے قائم رہا جبکہ ’تیستا دریا‘ کے تنازعے اور پاکستان کے ساتھ ’سندھ طاس معاہدے‘ کی معطلی نے بھارت کی آبی جارحیت کو مزید بے نقاب کیا۔
اسی طرح ماضی میں بھی سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی سرپرستی سے لے کر 2022 کے فسادات تک بھارتی کردار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: نیپال میں فیس بک، یوٹیوب اور ایکس بند کرنے کا اعلان کیوں کیا گیا؟
پاکستان کے خلاف دہشت گرد تنظیموں کی حمایت پر سابق بھارتی آرمی چیف بکرم سنگھ کے بیانات بھی اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ بھارت خطے میں امن اور خود مختاری کو نقصان پہنچانے والا ایک علاقائی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آبی جارحیت بھارت تیستا دریا سندھ طاس معاہدے علاقائی سلامتی کٹھ پتلی کھٹمنڈو نیپال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آبی جارحیت بھارت تیستا دریا سندھ طاس معاہدے علاقائی سلامتی کٹھ پتلی کھٹمنڈو نیپال نیپال میں کے مطابق
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔