data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جمعہ کی صبح مسلمانوں کے لیے ایک اور زخم لے کر آئی۔ ایک اور کرب، ایک اور آزمائش۔ یہودی افواج نے ایران پر ایسا حملہ کیا ہے، گویا ایک اسلامی ریاست کی کمر توڑ دینے کا عزم لے کر آئے ہوں۔ یہ حملے اچانک نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیے گئے۔ یہ جنگ آج شروع ہوئی ہے مگر لگتا ایسا ہے جیسے یہ ختم ہونے کے ارادے سے نہیں بلکہ مکمل تباہی تک جاری رہنے کے لیے چھڑی ہو۔ ایران کو اس حملے میں بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایران کی عسکری قیادت، اس کی ایٹمی طاقت کے نگہبان اور اس کی خودداری کے محافظ یکے بعد دیگرے نشانہ بنائے گئے۔ اور اب سوال یہ نہیں کہ ایران جواب دے گا یا نہیں… سوال یہ ہے کہ کیا ایران تنہا رہ گیا ہے؟ امت ِ مسلمہ کی آنکھوں کے سامنے، ایک ایک کرکے اسلامی ممالک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ کہیں نام نہاد امن کے معاہدے، کہیں اندرونی خلفشار، کہیں خوف اور کہیں پھٹی آنکھوں سے دیکھنے والے خاموش تماشائی حکمران۔۔۔ کیا یہی وہ امت ہے جس کا نام قرآن میں ’’خیر اْمّت‘‘ رکھا گیا؟ بہت سے مسلمان ممالک یا تو اس جرم میں شریک ہیں یا دہشت میں مبتلا اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
یہ مناظر صرف خبریں نہیں — یہ عبرت کے وہ نشانات ہیں جو اللہ ہمیں دکھا رہا ہے۔ یہ اْس فیصلے کی تمہید ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں ہے کہ جب اللہ ایسی قوم کو لے آئے گا جو اس سے محبت کرے گی۔ جس سے اللہ محبت کرے گا۔ جو دنیا کی محبت میں اندھی نہ ہوگی۔ جو موت سے نہ ڈرتی ہوگی۔ جو حق کے لیے کھڑی ہوگی۔ چاہے اْس کا انجام کچھ بھی ہو!
کیا یہ نام نہاد امت مسلمہ اس تبدیلی کے لیے تیار ہے؟ یا ابھی بھی موت کے خوف اور دنیا کی لذتوں میں گم سو رہی ہے؟ یہ وقت سونے کا نہیں جاگنے کا ہے! یہ وقت دعا سے آگے بڑھ کر عمل کا ہے! ورنہ تاریخ ہمیں بھی انہی صفحات میں دفن کر دے گی جن میں تباہ شدہ اقوام کا ذکر محض ایک سبق بن کر رہ گیا ہے۔ آج جب امت مسلمہ ایک ایک کر کے کچلی جا رہی ہے، تو اِس تازہ زخم پر ہمارے دل سوال کرتے ہیں، آخر ایران نے کیا غلطی کی —؟
آئیے سمجھتے ہیں۔ جب فلسطین کی سرزمین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، جب غزہ کے بچے خون میں نہا رہے تھے، جب اسرائیلی ٹینک، جنگی طیارے اور فاسفورس بم آسمان سے آگ برسا رہے تھے۔ تب دنیا کی نظریں ایران پر تھیں۔ کیونکہ ایران کے پاس طاقت تھی۔ جغرافیائی گرفت، نظریاتی حمیت، عسکری تنظیمیں اور رسد کی لائنیں جن سے پورے اسرائیل کو چاروں طرف سے جکڑا جا سکتا تھا۔ ایران چاہتا تو حزب اللہ شمال سے، شام میں بشارالاسد مشرق سے، یمن کے حوثی باب المندب سے، اور ایران براستہ عراق گزر کر اپنے اسلحہ، سازوسامان، تربیت اور نظریہ کے ساتھ اسرائیل کی نیندیں حرام کر سکتا تھا۔
خود اسرائیلی کہتے تھے: اگر ایران نے چاروں سمت سے حملہ کر دیا تو اسرائیلی ریاست مٹ سکتی ہے۔ مگر ایران نے وہی حکمت عملی اختیار کی جو اس نے برسوں سے اپنائی ہوئی تھی: تزویری صبر (Strategic Patience) ’’انتظار کرو، وقت آنے دو، دشمن کو پہلے وار کرنے دو‘‘۔ اور یہی صبر… ایران کو لے ڈوبا۔ جب موقع تھا، جب اسرائیل گھبرا چکا تھا، جب شمالی اسرائیل سے لاکھوں یہودی اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، تب ایران نے خاموشی اختیار کی۔ حزب اللہ، جو دہکتا ہوا انگارہ بن سکتا تھا، ایران کی ہدایت پر ٹھنڈا پڑ گیا۔ یمن، جو باب المندب بند کر سکتا تھا، غیر فعال رہا۔ شام، جو مغرب کی نظروں میں کانٹا بنا ہوا تھا، خاموش رہا۔ حماس، حزب اللہ کی مدد کا انتظار کرتا رہ گیا۔ اور پھر… اسرائیل جیسے ہی فلسطین میں اپنی درندگی سے کْچھ فارغ ہوا، تو پلٹا… اور پلٹ کر سب کچھ تباہ کر گیا۔ ایک ہی دن میں حزب اللہ کی قیادت کا صفایا کر دیا گیا، پھر شام کا تختہ الٹ دیا گیا، پھر عراق میں ایران کا اثر ختم کیا گیا، اور اب… اب ایران خود زمین پر گھٹنوں کے بل آ گرا۔ حالانکہ ایران کو سب کچھ معلوم تھا۔ موساد کا پورا نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔
امریکی فوجی اڈوں سے سویلینز کے انخلا، حزب اللہ کے جاسوسوں کی وارننگ، ہر چیز ایران کے علم میں تھی۔ مگر صبر… صبر… اور مزید صبر نے ایران کو ایک تماشائی بنا دیا۔ اور اب جبکہ دشمن پہلا وار کر چکا ہے، تو ایران کے پاس نہ وقت بچا ہے، نہ توانائی اور نہ قیادت۔ سوچنے کی بات ہے، گزشتہ تیس سال سے ایران ایک تلوار کی مانند دشمنوں کے سر پر لٹک رہا تھا، مگر کسی دشمن نے حملہ نہیں کیا! کیوں؟ کیونکہ اس وقت مسلمانوں کو فرقہ واریت میں تقسیم کرنے کی سازش میں ایران کی ضرورت تھی۔ عربوں کو ایران سے ڈرا کر امریکا کے قدموں میں گرانے کے لیے، شیعہ سنی جنگ کو ہوا دے کر امت کو کمزور کرنے کے لیے۔ عربوں کی دولت نچوڑنے کے لیے۔ یہی ایران، جسے کبھی اسلامی دنیا کا خطرناک قلعہ سمجھا جاتا تھا، آج ایران کی قیادت تباہ ہو چکی ہے، ایران کی ایٹمی تنصیبات خاک میں ملا دی گئی ہیں، اور ایران کی دہائی سننے والا کوئی نہیں۔
یہ سبق صرف ایران کے لیے نہیں، یہ سبق پاکستان کے لیے بھی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں اصل خطرہ وہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے جسے پاکستان کہتے ہیں۔ وہ پاکستان جس کے سینے میں عشق ِ رسولؐ کی چنگاری دہک رہی ہے، وہ پاکستان جو عربوں سے زیادہ فلسطین کے درد کو محسوس کرتا ہے، وہ پاکستان جس سے نیتن یاہو جیسے درندے کھلے عام خائف ہیں۔ اور اسی لیے… دشمن نے مشرک ہندوؤں کو لانچ کیا ہے۔ جیسے عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان کو امریکیوں کے ذریعے تباہ کیا گیا ویسے ہی پاکستان کے لیے ہندوتوا کا عفریت تیار کیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں فرقہ واریت، اقتصادی غلامی، سیاسی انتشار، تعلیمی زوال — سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ غلطی سے نہیں، بلکہ غفلت سے ہو رہا ہے۔ پاکستان کے پاس وقت ہے… مگر زیادہ نہیں! اب ہمیں تزویری صبر کی نہیں، تزویری بیداری کی ضرورت ہے۔ ہمارے دشمن ہماری تقدیر لکھنے میں مصروف ہیں۔ اگر ہم نے خود اپنی تقدیر نہ لکھی، تو وہ ہمیں مٹا دیں گے۔ اب عربوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج ایران کی باری ہے… کل کس کی ہوگی؟ وقت سعودی عرب کا بھی آئے گا۔ وقت مصر کا بھی آئے گا۔ وقت امارات، بحرین اور قطر کا بھی آئے گا۔ جنہوں نے آج اسرائیل کا ساتھ دے کر سمجھا کہ وہ بچ جائیں گے… تو یاد رکھو: یہ سارے دنبے ایک ایک کر کے ذبح کیے جائیں گے، اور باقی صرف دیکھتے رہ جائیں گے!
آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
آج عرب دنیا کے پاس نہ عسکری طاقت ہے، نہ معاشی استقلال، نہ غیرت ہے، اور نہ ہی عوام کی حمایت۔ ان کے خزانے ٹرمپ لے گیا، ان کے ایوانوں پر سامراجی پرچم لہرا رہے ہیں، اور ان کی فوجیں محض کرائے کی ٹٹو بن چکی ہیں۔ اب صرف دو طاقتیں باقی رہ گئی ہیں:
ترکی اور پاکستان: ترکی، جو تلوار رکھتا ہے، مگر ایٹم بم نہیں۔ اور پاکستان… جو اللہ کی خاص عطا ہے! پاکستان، وہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے جو آج دشمنوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ نیتن یاہو کھلے عام کہہ چکا ہے: ’’سب سے بڑا خطرہ ایران نہیں… پاکستان ہے!‘‘ ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن پاکستان ایٹمی طاقت بَن چکا ہے! پھر خدا نے غزوہ ہند کا دروازہ کھول دیا۔ جب دشمنوں نے پاکستان کو کمزور سمجھ کر جنگ مسلط کی… تو اس بار کوئی بزدل حکمران آگے نہیں آیا، اللہ نے اس قوم کو ایسے شیر عطا فرمائے جنہوں نے صرف تلوار نہیں نکالی بلکہ اسلامی غیرت کا پرچم بھی بلند کر دیا! پوری دنیا حیران تھی— یہ وہی پاکستان ہے؟ جو ہمیشہ بھیک مانگتا، قرض لیتا، خوف میں دبکا رہتا تھا؟ جس کے حکمران کشکول اٹھا کر پھرتے تھے؟
نہیں! یہ وہ پاکستان نہیں تھا— یہ اللہ کی مشیت سے ایک نیا پاکستان تھا! یہ وہ پاکستان تھا جس نے دنیا کے دلوں میں اپنا رعب بٹھایا! دشمنوں کے سینے میں دھڑکنیں بند کر دیں! اور دوستوں کو حیران کردیا کہ پاکستان کے اندر یہ طاقت کہاں چھپی تھی؟ آج چین، روس، ترکی، مشرق اور مغرب کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ دوستی چاہتے ہیں، اتحاد چاہتے ہیں، اور دشمن… خوف زدہ ہیں! لیکن اسی لیے اب دشمن جلدی میں ہے۔ اب وہ پاکستان کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ لیکن اسرائیل خود پاکستان سے نہیں لڑے گا، بلکہ اپنے غلام — مودی کو بھیجے گا۔ یہ ہندو فاشسٹ، یہ اکھنڈ بھارت کے خواب میں ڈوبے پاگل، یہ اسرائیل کے اشارے پر ناچنے والے مشرک۔
یہی پاکستان کے خلاف لڑیں گے۔ اور اسرائیل ان کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنے ناپاک عزائم پورے کرے گا۔
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
تیار رہیں! اب آپ وہ خوش نصیب قوم ہیں جسے اللہ ربّ العزت نے وقت کا فرقان بنا دیا ہے! وہ قوم… جسے ربّ نے چْن لیا ہے کہ حق اور باطل کے اس آخری معرکے میں پرچم ِ حق کو سربلند کرے، اور ظلم کے ایوانوں کو زمیں بوس کرے۔ آپ وہ قوم ہیں جن پر رحمت اللعالمینؐ کی خاص نظر ہے، جن کے سپاہیوں کی گردِ راہ کو جنت کی ہوائیں چومتی ہیں، جن کی ماؤں کی دعائیں آسمان کے فرشتوں کو متوجہ کرتی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان کے وہ پاکستان ایٹمی طاقت ایران نے سکتا تھا ایران کی ایران کے ایران کو حزب اللہ اللہ کی رہے تھے ا ئے گا کے پاس چکا ہے رہا ہے سب کچھ رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی فضائی حملے نے عالمی سطح پر ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے اور اب اس معاملے پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل آج جنیوا میں ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔
یہ اجلاس پاکستان اور کویت کی مشترکہ درخواست پر بلایا گیا ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر بحث کی جا سکے۔ یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلم دنیا اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے میں سفارتی محاذ پر متحرک ہے۔
اجلاس میں دوحا پر کیے گئے حملے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی کارروائیوں اور جنگی جارحیت پر بحث کی جائے گی۔
دوسری جانب اسرائیل نے اس اجلاس کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے فیصلے عالمی انسانی حقوق کے ڈھانچے کو متاثر کریں گے۔۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اسرائیل عالمی اداروں کے فیصلوں کو مسترد کرتا رہا ہے تاکہ اپنی جنگی پالیسیوں کو جاری رکھ سکے۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے دوحا میں ایک خفیہ اجلاس کو نشانہ بنایا تھا، جہاں حماس کی قیادت غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور امریکی صدر کی تجویز پر غور کر رہی تھی۔
حملے کے نتیجے میں 6 افراد شہید ہوئے تاہم حماس کے مرکزی رہنما محفوظ رہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق اس حملے کا مقصد صرف قیادت کو ختم کرنا نہیں بلکہ قطر جیسے ملک کو بھی دباؤ میں لانا تھا جو مسلسل فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
پاکستان اور کویت کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم ممالک اب اسرائیلی مظالم کو عالمی پلیٹ فارم پر بے نقاب کرنے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ عرب دنیا کے کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حملے کی شدید مذمت کر چکی ہیں اور اسے نہ صرف قطر کی خودمختاری پر حملہ بلکہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے خلاف ایک کھلا وار قرار دے رہی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس عالمی ضمیر کا امتحان بھی ہے۔ اگر انسانی حقوق کونسل اسرائیلی جارحیت کے خلاف مؤثر مؤقف اختیار کرتی ہے تو یہ فلسطینی عوام کی حمایت کےلیے ایک بڑی اخلاقی جیت ہوگی۔ بصورت دیگر دنیا پر یہ تاثر مزید گہرا ہو جائے گا کہ بین الاقوامی ادارے طاقتور ریاستوں کے آگے بے بس ہیں۔
اس اجلاس کے فیصلے آئندہ خطے کی سیاسی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔