Jasarat News:
2025-07-31@15:59:17 GMT

ایران پر اسرائیلی حملہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جمعہ کی صبح مسلمانوں کے لیے ایک اور زخم لے کر آئی۔ ایک اور کرب، ایک اور آزمائش۔ یہودی افواج نے ایران پر ایسا حملہ کیا ہے، گویا ایک اسلامی ریاست کی کمر توڑ دینے کا عزم لے کر آئے ہوں۔ یہ حملے اچانک نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیے گئے۔ یہ جنگ آج شروع ہوئی ہے مگر لگتا ایسا ہے جیسے یہ ختم ہونے کے ارادے سے نہیں بلکہ مکمل تباہی تک جاری رہنے کے لیے چھڑی ہو۔ ایران کو اس حملے میں بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایران کی عسکری قیادت، اس کی ایٹمی طاقت کے نگہبان اور اس کی خودداری کے محافظ یکے بعد دیگرے نشانہ بنائے گئے۔ اور اب سوال یہ نہیں کہ ایران جواب دے گا یا نہیں… سوال یہ ہے کہ کیا ایران تنہا رہ گیا ہے؟ امت ِ مسلمہ کی آنکھوں کے سامنے، ایک ایک کرکے اسلامی ممالک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ کہیں نام نہاد امن کے معاہدے، کہیں اندرونی خلفشار، کہیں خوف اور کہیں پھٹی آنکھوں سے دیکھنے والے خاموش تماشائی حکمران۔۔۔ کیا یہی وہ امت ہے جس کا نام قرآن میں ’’خیر اْمّت‘‘ رکھا گیا؟ بہت سے مسلمان ممالک یا تو اس جرم میں شریک ہیں یا دہشت میں مبتلا اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
یہ مناظر صرف خبریں نہیں — یہ عبرت کے وہ نشانات ہیں جو اللہ ہمیں دکھا رہا ہے۔ یہ اْس فیصلے کی تمہید ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں ہے کہ جب اللہ ایسی قوم کو لے آئے گا جو اس سے محبت کرے گی۔ جس سے اللہ محبت کرے گا۔ جو دنیا کی محبت میں اندھی نہ ہوگی۔ جو موت سے نہ ڈرتی ہوگی۔ جو حق کے لیے کھڑی ہوگی۔ چاہے اْس کا انجام کچھ بھی ہو!
کیا یہ نام نہاد امت مسلمہ اس تبدیلی کے لیے تیار ہے؟ یا ابھی بھی موت کے خوف اور دنیا کی لذتوں میں گم سو رہی ہے؟ یہ وقت سونے کا نہیں جاگنے کا ہے! یہ وقت دعا سے آگے بڑھ کر عمل کا ہے! ورنہ تاریخ ہمیں بھی انہی صفحات میں دفن کر دے گی جن میں تباہ شدہ اقوام کا ذکر محض ایک سبق بن کر رہ گیا ہے۔ آج جب امت مسلمہ ایک ایک کر کے کچلی جا رہی ہے، تو اِس تازہ زخم پر ہمارے دل سوال کرتے ہیں، آخر ایران نے کیا غلطی کی —؟
آئیے سمجھتے ہیں۔ جب فلسطین کی سرزمین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، جب غزہ کے بچے خون میں نہا رہے تھے، جب اسرائیلی ٹینک، جنگی طیارے اور فاسفورس بم آسمان سے آگ برسا رہے تھے۔ تب دنیا کی نظریں ایران پر تھیں۔ کیونکہ ایران کے پاس طاقت تھی۔ جغرافیائی گرفت، نظریاتی حمیت، عسکری تنظیمیں اور رسد کی لائنیں جن سے پورے اسرائیل کو چاروں طرف سے جکڑا جا سکتا تھا۔ ایران چاہتا تو حزب اللہ شمال سے، شام میں بشارالاسد مشرق سے، یمن کے حوثی باب المندب سے، اور ایران براستہ عراق گزر کر اپنے اسلحہ، سازوسامان، تربیت اور نظریہ کے ساتھ اسرائیل کی نیندیں حرام کر سکتا تھا۔
خود اسرائیلی کہتے تھے: اگر ایران نے چاروں سمت سے حملہ کر دیا تو اسرائیلی ریاست مٹ سکتی ہے۔ مگر ایران نے وہی حکمت عملی اختیار کی جو اس نے برسوں سے اپنائی ہوئی تھی: تزویری صبر (Strategic Patience) ’’انتظار کرو، وقت آنے دو، دشمن کو پہلے وار کرنے دو‘‘۔ اور یہی صبر… ایران کو لے ڈوبا۔ جب موقع تھا، جب اسرائیل گھبرا چکا تھا، جب شمالی اسرائیل سے لاکھوں یہودی اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، تب ایران نے خاموشی اختیار کی۔ حزب اللہ، جو دہکتا ہوا انگارہ بن سکتا تھا، ایران کی ہدایت پر ٹھنڈا پڑ گیا۔ یمن، جو باب المندب بند کر سکتا تھا، غیر فعال رہا۔ شام، جو مغرب کی نظروں میں کانٹا بنا ہوا تھا، خاموش رہا۔ حماس، حزب اللہ کی مدد کا انتظار کرتا رہ گیا۔ اور پھر… اسرائیل جیسے ہی فلسطین میں اپنی درندگی سے کْچھ فارغ ہوا، تو پلٹا… اور پلٹ کر سب کچھ تباہ کر گیا۔ ایک ہی دن میں حزب اللہ کی قیادت کا صفایا کر دیا گیا، پھر شام کا تختہ الٹ دیا گیا، پھر عراق میں ایران کا اثر ختم کیا گیا، اور اب… اب ایران خود زمین پر گھٹنوں کے بل آ گرا۔ حالانکہ ایران کو سب کچھ معلوم تھا۔ موساد کا پورا نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔
امریکی فوجی اڈوں سے سویلینز کے انخلا، حزب اللہ کے جاسوسوں کی وارننگ، ہر چیز ایران کے علم میں تھی۔ مگر صبر… صبر… اور مزید صبر نے ایران کو ایک تماشائی بنا دیا۔ اور اب جبکہ دشمن پہلا وار کر چکا ہے، تو ایران کے پاس نہ وقت بچا ہے، نہ توانائی اور نہ قیادت۔ سوچنے کی بات ہے، گزشتہ تیس سال سے ایران ایک تلوار کی مانند دشمنوں کے سر پر لٹک رہا تھا، مگر کسی دشمن نے حملہ نہیں کیا! کیوں؟ کیونکہ اس وقت مسلمانوں کو فرقہ واریت میں تقسیم کرنے کی سازش میں ایران کی ضرورت تھی۔ عربوں کو ایران سے ڈرا کر امریکا کے قدموں میں گرانے کے لیے، شیعہ سنی جنگ کو ہوا دے کر امت کو کمزور کرنے کے لیے۔ عربوں کی دولت نچوڑنے کے لیے۔ یہی ایران، جسے کبھی اسلامی دنیا کا خطرناک قلعہ سمجھا جاتا تھا، آج ایران کی قیادت تباہ ہو چکی ہے، ایران کی ایٹمی تنصیبات خاک میں ملا دی گئی ہیں، اور ایران کی دہائی سننے والا کوئی نہیں۔
یہ سبق صرف ایران کے لیے نہیں، یہ سبق پاکستان کے لیے بھی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں اصل خطرہ وہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے جسے پاکستان کہتے ہیں۔ وہ پاکستان جس کے سینے میں عشق ِ رسولؐ کی چنگاری دہک رہی ہے، وہ پاکستان جو عربوں سے زیادہ فلسطین کے درد کو محسوس کرتا ہے، وہ پاکستان جس سے نیتن یاہو جیسے درندے کھلے عام خائف ہیں۔ اور اسی لیے… دشمن نے مشرک ہندوؤں کو لانچ کیا ہے۔ جیسے عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان کو امریکیوں کے ذریعے تباہ کیا گیا ویسے ہی پاکستان کے لیے ہندوتوا کا عفریت تیار کیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں فرقہ واریت، اقتصادی غلامی، سیاسی انتشار، تعلیمی زوال — سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ غلطی سے نہیں، بلکہ غفلت سے ہو رہا ہے۔ پاکستان کے پاس وقت ہے… مگر زیادہ نہیں! اب ہمیں تزویری صبر کی نہیں، تزویری بیداری کی ضرورت ہے۔ ہمارے دشمن ہماری تقدیر لکھنے میں مصروف ہیں۔ اگر ہم نے خود اپنی تقدیر نہ لکھی، تو وہ ہمیں مٹا دیں گے۔ اب عربوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج ایران کی باری ہے… کل کس کی ہوگی؟ وقت سعودی عرب کا بھی آئے گا۔ وقت مصر کا بھی آئے گا۔ وقت امارات، بحرین اور قطر کا بھی آئے گا۔ جنہوں نے آج اسرائیل کا ساتھ دے کر سمجھا کہ وہ بچ جائیں گے… تو یاد رکھو: یہ سارے دنبے ایک ایک کر کے ذبح کیے جائیں گے، اور باقی صرف دیکھتے رہ جائیں گے!
آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
آج عرب دنیا کے پاس نہ عسکری طاقت ہے، نہ معاشی استقلال، نہ غیرت ہے، اور نہ ہی عوام کی حمایت۔ ان کے خزانے ٹرمپ لے گیا، ان کے ایوانوں پر سامراجی پرچم لہرا رہے ہیں، اور ان کی فوجیں محض کرائے کی ٹٹو بن چکی ہیں۔ اب صرف دو طاقتیں باقی رہ گئی ہیں:
ترکی اور پاکستان: ترکی، جو تلوار رکھتا ہے، مگر ایٹم بم نہیں۔ اور پاکستان… جو اللہ کی خاص عطا ہے! پاکستان، وہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے جو آج دشمنوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ نیتن یاہو کھلے عام کہہ چکا ہے: ’’سب سے بڑا خطرہ ایران نہیں… پاکستان ہے!‘‘ ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن پاکستان ایٹمی طاقت بَن چکا ہے! پھر خدا نے غزوہ ہند کا دروازہ کھول دیا۔ جب دشمنوں نے پاکستان کو کمزور سمجھ کر جنگ مسلط کی… تو اس بار کوئی بزدل حکمران آگے نہیں آیا، اللہ نے اس قوم کو ایسے شیر عطا فرمائے جنہوں نے صرف تلوار نہیں نکالی بلکہ اسلامی غیرت کا پرچم بھی بلند کر دیا! پوری دنیا حیران تھی— یہ وہی پاکستان ہے؟ جو ہمیشہ بھیک مانگتا، قرض لیتا، خوف میں دبکا رہتا تھا؟ جس کے حکمران کشکول اٹھا کر پھرتے تھے؟
نہیں! یہ وہ پاکستان نہیں تھا— یہ اللہ کی مشیت سے ایک نیا پاکستان تھا! یہ وہ پاکستان تھا جس نے دنیا کے دلوں میں اپنا رعب بٹھایا! دشمنوں کے سینے میں دھڑکنیں بند کر دیں! اور دوستوں کو حیران کردیا کہ پاکستان کے اندر یہ طاقت کہاں چھپی تھی؟ آج چین، روس، ترکی، مشرق اور مغرب کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ دوستی چاہتے ہیں، اتحاد چاہتے ہیں، اور دشمن… خوف زدہ ہیں! لیکن اسی لیے اب دشمن جلدی میں ہے۔ اب وہ پاکستان کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ لیکن اسرائیل خود پاکستان سے نہیں لڑے گا، بلکہ اپنے غلام — مودی کو بھیجے گا۔ یہ ہندو فاشسٹ، یہ اکھنڈ بھارت کے خواب میں ڈوبے پاگل، یہ اسرائیل کے اشارے پر ناچنے والے مشرک۔
یہی پاکستان کے خلاف لڑیں گے۔ اور اسرائیل ان کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنے ناپاک عزائم پورے کرے گا۔
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
تیار رہیں! اب آپ وہ خوش نصیب قوم ہیں جسے اللہ ربّ العزت نے وقت کا فرقان بنا دیا ہے! وہ قوم… جسے ربّ نے چْن لیا ہے کہ حق اور باطل کے اس آخری معرکے میں پرچم ِ حق کو سربلند کرے، اور ظلم کے ایوانوں کو زمیں بوس کرے۔ آپ وہ قوم ہیں جن پر رحمت اللعالمینؐ کی خاص نظر ہے، جن کے سپاہیوں کی گردِ راہ کو جنت کی ہوائیں چومتی ہیں، جن کی ماؤں کی دعائیں آسمان کے فرشتوں کو متوجہ کرتی ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان کے وہ پاکستان ایٹمی طاقت ایران نے سکتا تھا ایران کی ایران کے ایران کو حزب اللہ اللہ کی رہے تھے ا ئے گا کے پاس چکا ہے رہا ہے سب کچھ رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

بیگم شائستہ اکرام اللہ

 میری یہ تحریر اس شخصیت سے متعلق ہے جس کے بارے میں ہماری نئی نسل کے لوگ بہت ہی کم جانتے ہیں یا جانتے بھی ہوں گے تو نام کی حد تک، میں یہاں ذکر کر رہا ہوں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ایشیائی، مسلم خاتون ایک نام ور ادیبہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب رہنے والی بیگم شائستہ اکرام اللہ  کا۔

 تحریک پاکستان کی مشہور خاتون راہ نما، سفارت کار اور معروف ادیبہ بیگم ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ  22جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا پورا نام شائستہ اختر بانو سہروردی تھا جو کہ تحریک پاکستان کے معروف بنگالی راہ نما اور سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروری کی بھانجی تھیں۔ ان کے والد حسان سہروردی برطانوی وزیرہند کے مشیر تھے۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  ایک مذہبی سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں جو ایک قدامت پرست خاندان تھا اور اسے اپنی قدامت پرستی پر ناز تھا جہاں لڑکوں کی انگریزی تعلیم کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا۔ ایسے میں لڑکیوں کی انگریزی اور جدید تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  نے اپنی ابتدائی تعلیم کلکتہ کی ایک نجی درس گاہ کنڈر گارٹن اسکول سے حاصل کی جہاں ان کے اور ان کے بھائی کے سوا سب بچے انگریز یا اینگلو انڈین تھے۔

انہوں نے اپنے والد حسان سہروردی کے زیراثر انگریزی جب کہ والدہ شہر بانو بیگم کی وجہ سے فارسی اور اردو کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی حاصل کی۔

شائستہ اکرام اللہ  نے کلکتہ یونیورسٹی کے لوریٹو ہاؤس کونونٹ سے بی اے آنرز کا امتحان پاس کیا۔ جس کے بعد 1932ء میں ان کی شادی انڈین سول سرونٹ اکرام اللہ  سے ہوئی جو کہ جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے پہلے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسی دوران ان کو انگلینڈ جانے کا موقع ملا جہاں سے انہوں نے1940 میں یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

پی ایچ ڈی میں ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع ’’ اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری ‘‘تھا۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کرنے والے پہلی ایشیائی اور مسلم خاتون تھیں۔

 بیگم شائستہ اکرام اللہ  شادی سے پہلے ہی شائستہ اختر سہروردی کے نام سے افسانہ لکھا کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنی تحریری زندگی کی ابتدا دلی سے شایع ہونے والے مشہور رسالے ’’عصمت ‘‘ سے کی اور ان کے افسانے اس زمانے کے اہم ادبی جرائد ہمایوں، ادبی دنیا، تہذیب نسواں اور عالمگیر وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔

یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شائستہ اکرام اللہ  1940 میں واپس ہندوستان لوٹیں، تب تک برطانوی ہند کی صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی۔ یہ دنیا میں جنگ عظیم دوئم اور ہندوستان میں سیاسی بے چینی اور افراتفری کا زمانہ تھا، جہاں آل انڈیا مسلم لیگ، قائداعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی جیسے سرکردہ راہ نماؤں کی قیادت میں تحریک پاکستان پورے عروج پر تھی۔

برطانیہ سے واپسی کے بعد انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں بھی فعال حصہ لیا۔ اس کے بعد جلد ہی آپ بنگال لیجسلیٹیو اسمبلی کی رکن بن گئیں۔ اپنی علمی اور سیاسی فہم و فراست کی بدولت وہ محترمہ فاطمہ جناح کے قریب ہوگئیں اور بعد میں انہی کی مدد سے مسلم ویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور مسلم لیگ کی سیاست میں بھرپور طور پر حصہ لیا۔

اپنے خاندانی پس منظر، اعلیٰ تعلیم اور سیاست پر گہری نظر کے سبب وہ فوراً ہی مسلم لیگ کے اہم اراکین میں شمار ہونے لگیں۔

1946 میں جب ہندوستان کی دستورساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو وہ دستورساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئیں۔ تاہم بعد میں انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا تھا۔

1947 میں قیام پاکستان کے بعد وہ ڈھاکا سے کراچی تشریف لے آئیں۔ اس وقت ملک اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا تھا جہاں ایک طرف مہاجرین کا سیلاب اُمڈ آیا تھا، ریاست کو جن کی آبادکاری کی مشکل درپیش تھی، وہیں دوسری طرف نوزائیدہ مملکت کو سیاسی افراتفری، عوام میں بے چینی اور زبوں حال معیشت جیسے سنگین مسائل کا سامنا تھا۔ اس دوران انہوں نے محترم فاطمہ جناح، جہاں آراء شاہنواز اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا۔

پاکستان کے ابتدائی دنوں اور ان مشکلات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خودنوشت میں ذکر کیا ہے کہ اُن دنوں حکومت پاکستان کو بنے مشکل سے ایک مہینہ ہوا تھا اور وہ جو کچھ کرسکتی تھی کررہی تھی، جب کہ اس کام میں ان کے علاوہ متعدد عورتوں نے حصہ لیا، جن میں ایسی کئی خواتین تھیں جنھوں نے کبھی کسی قسم کا کام نہیں کیا تھا۔ ان خواتین نے ہزاروں پناہ گزینوں کے کھانے پینے اور ہر طرح کی دیکھ بھال کا ذمے لیا۔ ان میں سے بڑی تعداد کو دوبارہ بسایا گیا۔

 پاکستان کی پہلی79 رکنی دستور ساز اسمبلی میں صرف دو خواتین تھیں جن میں سے ایک بیگم جہاں آراء شاہنواز اور دوسری بیگم شائستہ اکرام اللہ  تھیں، جہاں انہوں نے 1954 تک لگ بھگ سات برس رکن اسمبلی کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیے۔ اس دوران انہوں نے بیگم جہاں آرا شاہنواز کے ساتھ مل کر پاکستان میں خواتین کے حقوق، تعلیم، مردوں کے برابر تنخواہ اور دیگر مراعات کے قوانین پر کام کیا اور ان کو اسمبلی سے منظور کروایا۔ بعدازآں انہیں قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے 1956 کے آئین میں خواتین کے حقوق ومراعات کو تسلیم کیا۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور مراکش میں سفارتی خدمات انجام دیں۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ  1964 سے 1967 تک مراکش میں پاکستان کی سفیر رہیں، جب کہ آپ کو پاکستان کی پہلی سول سرونٹ خاتون ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

ا س کے علاوہ آپ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب اور انسانی حقوق کے متفقہ عالمی چارٹر مشن کا بھی حصہ رہیں جہاں انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی مسودے اور نسل کشی کے خلا ف کی جانے والی قانون ساز ی میں بھی حصہ لیا۔

اقوام متحدہ نے ان کی خدمات کے صلے میں انھیں ان الفاظ میں شان دار خراج عقیدت پیش کیا:

’’انسانی حقوق کے عالم گیر اعلامیے کی تیاری میں خواتین کے کردار پر آپ نے بیگم شائستہ اکرام اللہ کا نام متعدد بار سنا ہوگا۔ وہ جنرل اسمبلی کی سماجی، انسانی اور ثقافتی امور پر پالیسی تیار کرنے والی کمیٹی میں پاکستانی مندوب تھیں۔ اس کمیٹی نے1948 میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے مسودے پر بحث کے لیے 81 اجلاس کیے۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ  نے اعلامیے میں آزادی، مساوات اور انتخاب پر زور دینے کی بھرپور وکالت کی۔ انہوں نے شادی میں مساوی حقوق پر آرٹیکل 16 کو بھی اعلامیہ میں شامل کرنے کی حمایت کی، جسے وہ بچپن کی شادیوں اور جبری شادیوں جیسے سماجی مسائل سے نمٹنے کے طریقے کے طور پر دیکھتی تھیں۔‘‘

 ان کی تصانیف میں افسانوں کا مجموعہ ’’کوشش ناتمام‘‘،’’دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے‘‘،’’فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ‘‘،’’لیٹرز ٹو نینا‘‘، ’’بیہائینڈ دی ویل‘‘ اور ’’اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری‘‘ شامل ہیں۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  کو حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے2002 میں انہیں نشانِ امتیاز عطا کیا تھا۔ 10 دسمبر 2000ء کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای ) میں وفات پانے والی بیگم شائستہ اکرام اللہ کو کراچی میں حضرت عبداللہ  شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں سپردِخاک کیا گیا۔

ہمارے پاکستان کی موجودہ خواتین سیاست دانوں کو سیاست میں بیگم شائستہ اکرام اللہ  کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہیے۔

شائستہ اکرام اللہ کا ایک بیٹا انعام اکرام اللہ  (1934تا2004) اور تین بیٹیاں نازاشرف (1938)، سلمیٰ سبحان (1937 تا 2003) اور ثروت (1947) ہیں۔ نازاشرف مشہور آرٹسٹ ہیں جب کہ سلمیٰ سبحان بنگلادیش کے وزیرخارجہ رحمٰن سبحان کی ہم سفر بنیں اور ثروت اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، جب کہ ان کے دیور محمد ہدایت اللہ  1968 سے 1970تک ہندوستان کے چیف جسٹس اور1979 سے 1984 تک ہندوستان کے نائب صدر رہے، کچھ وقت تک آپ نے صدرجمہوریہ کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  کی برصغیر کے مسلمانوں، پاکستان اور خواتین کے لیے گراں قدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ 

متعلقہ مضامین

  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • آج 9 مئی کے ذمہ داروں کو سزائیں ہوئی ہیں؛ عطا اللہ تارڑ
  • غزہ، فلسطینی مجاہدین کا قابض اسرائیلی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ
  • ایاز صادق کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات مزید مستحکم بنانے پر اتفاق
  • حساس صیہونی اہداف پر یمن کا ڈرون حملہ
  • ہم نے 22 اپریل کے حملے کا بدلہ صرف 22 منٹ میں لے لیا
  • پیوٹن کا نیتن یاہو سے ہنگامی رابطہ، پسِ پردہ کیا ہے؟
  • جنوبی شام کی علیحدگی پر مبنی اسرائیلی منصوبے پر ایران کا انتباہ
  • بیگم شائستہ اکرام اللہ
  • بلوچستان میں شہریوں کو مارنے والوں کا حل آپریشن کے سوا کچھ نہیں: رانا ثناء اللہ