ایران اسرائیل جنگ: جوہری تنصیبات پر حملوں سے تابکاری کے خطرے میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 جون 2025ء) جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی نے کہا ہے کہ اسرائیل اور ایران کی جنگ سے ایٹمی تنصیبات کی تباہی اور تابکاری کے اخراج کا خطرہ بڑھ گیا ہے جس کے لوگوں کی زندگی اور ماحول کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری مسئلے کا سفارتی حل نکالنے اور اسے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی کوششیں جنگ کے باعث تاخیر کا شکار ہو گئی ہیں۔
انہوں نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لیں اور کشیدگی بڑھانے سے گریز کریں۔ Tweet URL'آئی اے ای اے' کے بورڈ آف گورنرز کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے ارکان سے کہا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے تمام ممکنہ سفارتی ذرائع سے کام لیں، جس قدر جلد ممکن ہو، ایران جا کر صورتحال کا اندازہ لگائیں اور ملک میں جوہری تحفظ و سلامتی سمیت ایٹمی مواد کا عدم پھیلاؤ یقینی بنائیں۔
(جاری ہے)
سفارت کاری کی ضرورتڈائریکٹر جنرل نے واضح کیا کہ 'آئی اے ای اے' روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی طرح اس تنازع میں بھی خاموش نہیں بیٹھے گا اور کسی جوہری حادثے کی روک تھام کے لیے ہرممکن مدد فراہم کرے گا تاکہ تابکاری کے اخراج اور اس کے تباہ کن نتائج کو روکا جا سکے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے تعمیری اور پیشہ وارانہ انداز میں بات چیت کی ضرورت ہے۔
رافائل گروسی نے کہا کہ فی الوقت جاری جنگ کے دوران یہ کام بظاہر بہت مشکل معلوم ہو گا لیکن اس سے پہلے بھی ایسے واقعات میں ثابت ہو چکا ہے کہ باوقار اور غیرجانبدارانہ انداز میں مہیا کی جانے والی تکنیکی مدد سے سبھی کو فائدہ ہوتا ہے۔
انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ متحارب فریقین کو بدترین نتائج سے بچانے کے لیے ادارے کے ساتھ تعاون کے مطالبات پر توجہ دیں۔
سفارت کاری کے لیے وقت اور جگہ ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ایرانی جوہری مراکز کی صورتحالڈائریکٹر جنرل نے بورڈ کو ایران کی جوہری تنصیبات کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جمعے کو ہونے والے حملے کے بعد نطنز میں یورینیم کی افزودگی کے مرکز کو مزید کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس حملے میں سطح زمین پر مرکز کی عمارت تباہ ہو گئی تھی۔ ایران اس مرکز پر 60 فیصد تک افزودہ کی گئی یورینیم تیار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مرکز پر زیرزمین 'جوہری چین ری ایکشن' کے ہال پر حملے کے کوئی آثار نہیں ملے تاہم بجلی منقطع ہو جانے سے وہاں موجود سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچنے کا خدشہ رد نہیں کیا جا سکتا۔ نطنز جوہری مرکز کے باہر تابکاری کی سطح میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ حملے سے اس علاقے کی آبادی یا ماحول کے لیے تابکاری کا کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ جمعے کو اصفہان میں واقع جوہری مرکز پر حملے میں چار عمارتوں کو نقصان پہنچا لیکن وہاں بھی تابکاری کی سطح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ علاوہ ازیں، فردو میں یورینیم کی افزودگی کے مرکز اور خنداب میں بھاری پانی کے زیرتعمیر ری ایکٹر کو کسی طرح کا نقصان نہیں ہوا۔ بوشہر میں جوہری پاور پلانٹ اور تہران میں جوہری تحقیقی ری ایکٹر کو بھی حملوں کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے ایران کے حکام اور 'آئی اے ای اے' کے مابین تعاون اور معلومات کے تبادلے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان مشکل اور پیچیدہ حالات میں ادارے کو ان مراکز کے حوالے سے باقاعدہ اور بروقت اطلاعات ملتے رہنا ضروری ہے۔
بچوں کا نقصاناقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ بڑے پیمانے پر کشیدگی کا شکار ہے اور ایک مرتبہ پھر بچے ہی اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے پر حملوں میں رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن میں بچوں سمیت عام شہری ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں۔انہوں نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت شہریوں بالخصوص بچوں کا تحفظ یقینی بنائیں کیونکہ ہر بچے کو جنگ اور تشدد کے خطرے سے بے نیاز ہو کر جینے کا حق ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے مطالبے کو دہراتے ہوئے انہوں نے تمام فریقین سے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لیں اور کشیدگی کو مزید بڑھانے سے گریز کریں کیونکہ خطہ اور وہاں رہنے والے بچے اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آئی اے ای اے انہوں نے ہے کہ وہ نے کہا کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
غزہ: رقصِ مرگ
آپ ماضی اور حال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، جنگیں کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ ہر دو فریق کے لیے مزید تباہی و بربادی کا سامان لے کر آتی ہیں۔ فریقین کو ہر صورت مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے جس کی تازہ مثالیں پاک بھارت اور اسرائیل ایران جنگیں ہیں۔ دونوں مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے جنگ کے بادل چھٹ گئے۔
امریکی صدر متعدد بار اپنے اس کردار کا مختلف مواقعوں پر تذکرہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے پاک بھارت جنگ رکوائی، ورنہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور خوف ناک جنگ میں تبدیل ہو جاتی۔ انھوں نے ایران کے خلاف جارحیت روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا تو جنگ بندی ممکن ہوئی لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ فلسطین کے نہتے اور بے گناہ لوگوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت روکنے میں ناکام چلے آ رہے ہیں بلکہ نیتن یاہو کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں اور مردوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے روزانہ 80/70 فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کی سفاکی، بربریت اور شقی القلبی کا عالم یہ ہے کہ اس نے پورے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ گھر، بازار، مکان، اسپتال اور اسکول غرض غزہ میں کوئی عمارت سلامت نہیں ہے۔ ہر عمارت بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ کہ نیتن یاہو امدادی کاموں میں بھی رخنہ اندازی کر رہا ہے۔
غذا کے حصول کے لیے برتن لیے قطاروں میں کھڑے معصوم بچوں اور عورتوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ ہزاروں بچے غذائی قلت کے باعث بھوک سے نڈھال ہو کر موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ المیہ یہ کہ اسرائیلی وحشت کا رقص رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ شدید عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل نے محدود پیمانے پر امدادی سامان کے لیے راہداری دے دی ہے اور چند گھنٹوں کی رسمی طور پر بمباری روکنے کا بھی عندیا دیا ہے، لیکن غزہ کی صورت حال انتہائی نازک اور سنگین ہو چکی ہے تمام عالمی اداروں کی رپورٹیں غزہ کی بگڑتی ہوئی حالت پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسف کے ذمے دار ادارے متعدد بار وارننگ دے چکے ہیں کہ اگر امدادی سامان کو بروقت مظلوم فلسطینیوں تک نہ پہنچایا گیا تو غزہ میں غذائی قلت اور بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ جنگ بندی کے لیے پرامید ضرور ہیں لیکن مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ حماس ہتھیار ڈالے اور تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دے۔ جب کہ اسرائیل کی خواہش یہ ہے کہ غزہ پر کسی صورت مکمل اپنا کنٹرول حاصل کرکے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر دیا جائے۔ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس سے زائد تعداد زخمیوں کی ہے جو بمباری سے تباہ ہونے والے اسپتالوں کے باعث علاج معالجے سے محروم ہو چکے ہیں۔ حد درجہ دکھ اور المیہ یہ ہے کہ تدفین کے لیے قبرستانوں میں جگہ نہیں، چار و ناچار اجتماعی قبروں میں شہدا کو دفن کیا جا رہا ہے، لیکن قیام امن اور دنیا میں انسانی حقوق کے ذمے دار ملکوں اور اداروں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں ناکام ہیں۔
محض زبانی کلامی باتیں کی جا رہی ہیں اور نام نہاد ہمدردی کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں صورت حال کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتا تو برطانیہ ستمبر میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ فرانس نے بجا طور پر یہودی آبادکاروں کے تشدد کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا ہے لیکن انتہائی حیرت و افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کسی گہرے مراقبے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عرب دنیا مظلوم فلسطینیوں کے حقوق اور ان پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی ظلم و ستم سے بے بہرہ ہو چکی ہے۔ 80 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے، قحط کا رقص مرگ جاری ہے اور مسلم امہ پر خاموشی طاری ہے۔
حماس اسرائیل جنگ میں عالم اسلام کے کردار پر بڑے سوالیہ نشانات ہیں۔ پوری دنیا میں تقریباً 57 اسلامی ممالک ہیں جن میں پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے، مسلمانوں کی باقاعدہ ایک تنظیم ہے جو اسلامی تعاون تنظیم کے نام سے اپنی شناخت رکھتی ہے۔ گزشتہ تقریباً پونے دو سال سے اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں پر توپوں، طیاروں اور میزائلوں سے آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے، فلسطین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
کوئی عمارت، اسکول، اسپتال، بازار اور پناہ گاہ سلامت نہیں۔ آبادیوں کی آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی بربریت اور اس کے سفاکانہ مظالم کے خلاف غیر مسلم عوام مظاہرے اور جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم نے اپنے طور پر کیا اقدامات اٹھائے؟ تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک اگر متحد ہو کر تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرکے امریکا پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے بغل بچہ اور کٹھ پتلی اسرائیل کو بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم سے باز رہے تو یقینا ایک موثر قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن مسلم ممالک کی قیادت اپنے اپنے مفادات کے زیر اثراسرائیل کے خلاف بھرپور اور موثر اقدمات اٹھانے سے قاصر ہے۔
گزشتہ پونے دو سال میں او آئی سی کا ایک بھی سربراہ اجلاس نہیں بلایا گیا کہ جس کے نتیجے میں کوئی جامع عملی اقدامات اٹھائے جاتے اور فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت سے نجات کی کوئی راہ نکلتی۔او آئی سی محض نشستند، گفتند اور برخاستند سے آگے کوئی ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے مسلم امہ کی بے حسی فلسطینیوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے، وہاں صہیونی بربریت میں اضافہ ہو رہا ہے نتیجہ چار سُو موت رقصاں ہے۔