ایران پر اسرائیلی حملہ اور اقوام متحدہ!!!
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا ہے کہ جس میں ایران کی اعلی فوجی قیادت اور ایٹمی سائنسدان شہید ہوگئے ہیں۔ کیا یہ حملے دنیا کے لئے غیر متوقع تھے؟ انصاف سے کہا جائے تو بالکل بھی نہیں۔ کیا دنیا اور اقوام متحدہ کو ان حملوں کے بارے میں پہلے سے علم تھا؟ اس بات کا وثوق سے جواب دینا تو مشکل ہے لیکن دنیا کے اہم ممالک کو یقیناً اس کا علم ہوگا اور کچھ ممالک کو تو خود اسرائیل نے اعتماد میں لیکر ایران پر حملہ کیا ہوگا اور دنیا کے خودساختہ مائی باپ کہ جس میں مائی بہت کم اور باپ بہت زیادہ ہے۔ اس کو تو یقیناً اس کا علم ہوگا۔
دنیا کو کیا ہوگیا ہے؟ اور کیوں صرف ایک ملک کو دنیا کے امن و سلامتی سے کھلواڑ کرنے کی کھلی "اجازت" دی گئی ہے؟ جی ہاں اجازت اور یہ اجازت واضح اور صریح بھی ہے اور خفی بھی۔ امریکہ کی طرف سے پہلی اور اقوام متحدہ کی طرف سے دوسری۔ اب آپ دنیا کی سادگی دیکھئے کہ وہ اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ وہ یہ جنگ رکوائے۔ یہ جنگ تو ہوہی رہی ہے پہلی دنیا کے طاقتور ممالک اور اقوام متحدہ کے آشیرباد سے تو وہ بھلا یہ جنگ کیوں رکوائے گے اور ویسے بھی آج تک اقوام متحدہ نے کس مظلوم کے خلاف جنگ رکوائی یے؟ اگر اقوام متحدہ نے وقت پر اور درست طریقے سے اسرائیل کو نکیل ڈالی ہوتی تو آج اس کی یہ جرات ہوتی کہ وہ یوں کسی بھی ملک پر چڑھائی کردے۔ دنیا پر یہ جنگ اقوام متحدہ اور اسلحہ بنانے والے ممالک مل کر مسلط کررہے ہیں اور یہ دنیا کا جغرافیہ بدلنے اور نیا ورلڈ آرڈر مسلط کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔
اگر آپ اس جنگ کا حقیقی تجزیہ پڑھنا چاہتے ہیں تو میں یہ پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گا کہ یہ جنگ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کا تسلسل ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ میں ہندوستان کو بلاواسطہ اور مغرب کو بالواسطہ شکست ہوئی تھی اور اس جنگ کے نتیجے میں چین کے تعاون سے ایک نیا بلاک تشکیل پایا تھا۔ موجودہ جنگ کے ذریعے ایران کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی بلاواسطہ سزا اور چین بالواسطہ جنگ میں شامل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ درحقیقت چین اور مغربی دنیا کی جنگ ہے جو مسلمان ممالک کے کندھوں پر لڑی جارہی ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی ممالک نے یہ طے کرلیا تھا کہ اب جنگ یورپ میں نہیں ہوگی اور جنگ کا اگلا میدان مشرق وسطی ہوگا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس سے زیادہ لکھنے کا میں متحمل بھی نہیں ہوں اس لئے آپ تھوڑے لکھے کو بہت جانئے۔
مسلمان ممالک کے حال پر حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔ ایک جنگل میں شیر اور چار بیل رہا کرتے تھے۔ چاروں بیل بہت موٹے تازے اور صحت مند تھے اور ان کو دیکھ کر شیر کی رال ٹپکنے لگتی تھی۔ ایک دن شیر نے جوش میں آکر بیلوں پر حملہ کردیا۔ چاروں بیلوں نے مل کر شیر کی وہ ٹھکائی کی کہ شیر کو نانی یاد آگئی حالانکہ شیر تو اپنی نانی کو جانتا بھی نہیں تھا۔ شیر جب بیٹھ کر اپنے زخم سہلا رہا تھا تو لومڑی، گیڈر اور لگڑبھگے نے شیر سے کہا کہ اگر تمھیں بیل کا شکار کرنا ہے تو تمھیں ہماری مدد درکار ہوگی (آپ لومڑی، گیڈر اور لگڑبھگے کا کردار تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کیونکہ انھیں اپنی اپنی سلطنت بچانی تھی)۔ یوں پھر لومڑی، گیڈر اور لگڑبھگے نے چاروں بیلوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا اور شیر نے ایک ایک کرکے چاروں بیلوں کو کھانا شروع کردیا۔ پاکستان ان چاروں بیلوں میں سے یقیناً ایک بیل ہے۔
پاکستان کب تک خود کو بچا پاتا ہے یہ اللہ جانتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چاروں بیلوں کا شکار کرنے سے پہلے شیر اندرونی بیماریوں کا شکار ہوکر بیلوں کے شکار سے تائب ہوجائے۔ ایسا ہونا ناممکن تو نہیں لیکن اس وقت یہ بات خارج از امکان نظر آرہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ دنیا اس وقت ایک بہت خطرناک راستے پر چل نکلی ہے اور ہر ملک صرف اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھ رہا کہ اگر دنیا ہی نہ رہی تو ایک یا چند ممالک کیا کرے گے۔
مغرب کسی بھی طور پر چین کو جنگ میں شامل کرنا چاہتا ہے اور اس کو شکست دے کر اسلحے کے بازار میں اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کا کاروبار چلتا رہے۔ دنیا کے مستقبل کا دارومدار اب چین کے ردعمل پر ہے۔ آنے والے دن مشکل اور خوفناک بھی ہوسکتے ہیں۔ آئیے مل کر دعا کریں اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ یارب العالمین۔
والسلام
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور اقوام متحدہ چاروں بیلوں چاروں بیل کرنے کی دنیا کے یہ جنگ اور اس
پڑھیں:
غزہ کی صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر ناقابلِ برداشت ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ شہر کی منظم تباہی کی مذمت کی تاہم کہا کہ اسرائیل کی جانب سے نسل کشی ہو رہی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ بین الاقوامی عدالتیں کریں گی۔
نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے گوتریش نے کہا کہ ہم آبادی کی بڑے پیمانے پر تباہی دیکھ رہے ہیں، اب غزہ شہر کی منظم تباہی ہو رہی ہے، ہم شہریوں کے بڑے پیمانے پر قتل دیکھ رہے ہیں، جس کی مثال مجھے اس وقت سے نہیں ملتی جب سے میں سیکرٹری جنرل بنا ہوں۔
یہ بھی پڑھیے: دوحا میں اسرائیلی حملہ قطر کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے، انتونیو گوتریس
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام قحط، نقل مکانی اور کسی بھی وقت موت کے خطرے جیسے ہولناک حالات سے دوچار ہیں۔ گوتریس کے بقول یہ صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر ناقابلِ برداشت ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ ان کا اختیار نہیں کہ وہ قانونی طور پر یہ تعین کریں کہ نسل کشی ہو رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ ذمہ داری متعلقہ عدالتی اداروں، خصوصاً عالمی عدالت انصاف کی ہے۔
ان کے یہ ریمارکس اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے شائع ہونے والی 72 صفحات پر مشتمل ایک تحقیقاتی رپورٹ کے بعد سامنے آئے جس میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 سے اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور یہ اشتعال انگیزی اسرائیلی ریاست کی اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت کی جانب سے کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کی انتونیو گوتریس سے ملاقات، خطے کی صورتحال پر گفتگو
رپورٹ کے مطابق ان رہنماؤں میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، صدر اسحاق ہرزوگ اور سابق وزیرِ دفاع یوآف گیلنٹ شامل ہیں۔
یاد رہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت پہلے ہی نیتن یاہو اور یوآف گیلنٹ کے خلاف بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے، قتلِ عام، ظلم و ستم اور دیگر غیر انسانی جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں