پاکستان، سعودیہ سمیت 20 ممالک کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام آباد: پاکستان اور سعودی عرب سمیت 20 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ اعلامیے میں ان ملکوں نے ریاستوں کی خود مختاری و علاقائی سالمیت کے احترام، اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری اور تنازعات کے پرامن حل پر زور دیا۔
اعلامیے کے مطابق ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے والوں میں پاکستان، سعودی عرب، الجزائر، بحرین، برونائی، چاڈ، کوموروس، جبوتی، مصر،عراق، اردن، کویت، لیبیا، اسلامی موریطانیہ، قطر، صومالیہ، سوڈان، ترکی، عمان اور متحدہ عرب امارات کے وزائے خارجہ شامل ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی قراردادوں اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے فیصلوں کے مطابق ان جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے مکمل گریز سب سے زیادہ اہم ہے، جو آئی اے ای اے نگرانی میں ہیں۔
ایسی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون، بشمول 1949 کے جینیوا کنونشنز کی خلاف ورزی ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں پائیدار معاہدے تک پہنچنے کے لیے فوری طور پر مذاکرات کے راستے پر واپس آنے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ یہی واحد قابل عمل طریقہ ہے۔‘
مشترکہ اعلامیے میں ان ملکوں نے مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال اور کشیدگی میں بے مثال اضافے، خصوصاً اسرائیل کی طرف سے ایران پر جاری فوجی جارحیت کے پیش نظر اس مؤقف کی دوٹوک الفاظ میں توثیق کی ہے کہ 13 جون 2025 سے ایران پر اسرائیل کے حملے اور ہر وہ اقدام قابل مذمت ہے جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے منشور کے مقاصد و اصولوں کے منافی ہے۔
مزید کہا گیا کہ ’ریاستوں کی خود مختاری و علاقائی سالمیت کا احترام، اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری اور تنازعات کو پرامن طور پر حل کیا جائے۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے فوری طور پر روکے جانے کی اشد ضرورت ہے، جو مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے بڑھتے ہوئے ماحول میں ہو رہے ہیں۔
اعلامیہ میں زور دیا گیا کہ کشیدگی کے خاتمے، مکمل جنگ بندی اور امن کی بحالی کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ خطرناک صورت حال شدید تشویش ناک ہے، جو پورے خطے کے امن اور استحکام کے لیے سنگین نتائج لا سکتی ہے۔
اعلامیے کے مطابق متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں کے تحت مشرق وسطیٰ کو ایٹمی اور دیگر تباہ کن ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دینے کی فوری ضرورت ہے، جو خطے کے تمام ممالک پر بلا استثنیٰ لاگو ہو۔ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) میں شامل ہوں۔
اعلامیے میں عالمی قوانین کے تحت بین الاقوامی آبی گزرگاہوں میں جہاز رانی کی آزادی کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ بحری سلامتی کو کمزور کرنے سے گریز کی ضرورت ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق سفارت کاری، مکالمہ اور اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری خطے کے بحرانوں کے حل کا واحد مؤثر راستہ ہے اور جاری بحران کا پائیدار حل فوجی ذرائع سے ممکن نہیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بین الاقوامی اعلامیے میں کہا گیا کہ کے مطابق ضرورت ہے ایران پر
پڑھیں:
غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-2
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟