بلوچستان پر اسرائیلی توجہ پر توجہ کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
کسی بھی دشمن یا ممکنہ حریف ریاست کو کمزور کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی نسلی ، علاقائی و مذہبی فالٹ لائنز اور اندرونی بے چینی کو بڑھاوا دیا جائے۔اس سلسلے میں جو مقامی طبقات یا گروہ سرگرم ہوتے ہیں ان میں سے کچھ نظریاتی ہوتے ہیں اور کچھ موقع پرست۔ کچھ ترغیبات کے پھندے میں الجھ کے کٹھ پتلی بن کے بعد میں نقصان اٹھاتے ہیں اور کچھ نظریاتی بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے صرف انھی بیرونی و اندرونی قوتوں کی اخلاقی و مادی حمائیت قبول کرتے ہیں جو ان کے نظریاتی اہداف پر اثرانداز ہونے یا انھیں بدلنے کی کوشش نہ کریں۔
جیسے ہم نے پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں دیکھا۔ مغربی استعماری طاقتوں نے سلطنتِ عثمانیہ کو منتشر کرنے کے لیے عرب قوم پرستی کو بڑھاوا دیا۔بعد از جنگ خود مختاری و حکمرانی کے سبز باغ دکھائے گئے اور جب سلطنت ختم ہو گئی تو مشرقِ وسطی کو اپنی مرضی کی سرحدوں میں بانٹ دیا گیا ( یہ عمل اب تک جاری ہے) ۔
یوں ترک اور عرب اور عرب بمقابلہ عرب ایک دوسرے سے بدظن ہو کر دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔استعماری طاقتوں نے کبھی ایک کی سرپرستی کی تو کبھی اس کے حریف کی۔اس کھیل نے پورے خطے کو کیسے کیسے جغرافیائی ، سیاسی و ثقافتی گھاؤ لگائے۔آج کے حالات میں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔
نوآبادیاتی طاقتوں کا وارث اسرائیل نہ صرف اسی کلاسیکی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے بلکہ بقول شخصے اسے ’’ نیکسٹ لیول ‘‘ پر لے گیا ہے۔اسرائیل مخالف متحدہ عرب مسلم محاز اور فلسطینیوں کی بین العرب غیر متزلزل ریاستی حمائیت ماضی کا قصہ ہیں۔
گذری پون صدی میں پہلے فلسطین کی جبری تقسیم ہوئی۔پھر مزید عرب علاقے ہتھیائے گئے اور پھر ان میں سے کچھ علاقے بطور احسان واپس کر کے شکست خوردہ ریاستوں کو اپنا ممنون بنانے کی کوشش ہوئی۔
مثلاً کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے تحت مقبوضہ سینا کی واپسی اور سالانہ فوجی و اقتصادی امداد کا دانہ ڈال کے مصر کو اسرائیل مخالف متحدہ عرب فرنٹ سے علیحدہ کیا گیا۔لبنان میں خانہ جنگی کو ہوا دی گئی تاکہ اسرائیل کی شمالی سرحد کا تحفظ ہو سکے اور پی ایل او کو بھی بیروت سے نکالا جا سکے۔ بغداد کی مرکزی بعثی حکومتوں کے مظالم کے خلاف جاری شمالی عراق میں آباد کردوں کی تحریک کو بھی اسرائیل نے بذریعہ شاہ ایران اور پھر براہِ راست خاموش مدد کے ذریعے لبھانے کی کوشش کی۔
شام سے چھینی گئی گولان کی پہاڑیوں کو ہڑپ کیا گیا اور پھر الاسد خاندان کے مکمل زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے نہ صرف شام کا بچا کھچا عسکری ڈھانچہ تتر بتر کیا بلکہ مقبوضہ گولان سے متصل شام کے جنوبی صوبے السویدا میں آباد دروزوں کے تحفظ کے نام پر ایک فوجی بفر زون قائم کر لیا۔
اب اسرائیل شام کے شمالی حصے میں آباد کردوں پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ جنوب سے شمال تک ’’ ڈیوڈ کاریڈور ‘‘ بنایا جائے اور اسرائیل کو ترکی کی گردن پر گرم گرم پھونکیں مارنے کی براہِ راست سہولت مل جائے۔شام کو کم ازکم چار حصوں میں بانٹ کے ایک مستقل خانہ جنگی کی کیفیت برقرار رکھی جائے۔دمشق میں کوئی ایسی مرکزی حکومت مستحکم نہ ہو سکے جو آگے چل کے اسرائیل کے لیے دوبارہ خطرہ بن جائے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جو ریاست فلسطینیوں کے حقِ خوداختیاری کو ٹینکوں تلے کچل رہی ہے اسی ریاست کے دل میں ان دنوں آس پاس کے ممالک میں آباد محروم اقلیتوں کی خود مختاری کا درد جاگ اٹھا ہے۔
اس تناظر میں الجزیرہ ویب سائیٹ پر شایع ہونے والی یہ رپورٹ نظر سے گذری کہ اسرائیل ایران کو کمزور کرنے کے لیے نہ صرف ایرانی بلکہ پاکستانی بلوچستان کی بے چینی کو بھی ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
فلسطینی تجزیہ کار عبداللہ موسویس کے مطابق واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( میمری ) نے بارہ جون کو بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ ( بی ایس پی ) قائم کرنے کا اعلان کیا۔
اس پروجیکٹ کا تعارف یوں کرایا گیا کہ بلوچستان ( ایرانی و پاکستانی ) نہ صرف یورینیم ، تیل ، گیس ، تانبے ، کوئلے اور دیگر قیمتی دھاتوں سے مالامال خطہ ہے بلکہ یہاں گوادر اور چاہ بہار کی دو قدرتی گہری بندرگاہیں بھی ہیں۔یوں اس خطے کا جغرافیہ ایرانی کنٹرول ، اس کی ایٹمی خواہشات اور اس تناظر میں پاکستان سے اس کے خطرناک ایٹمی مراسم پر اثرانداز ہونے کے لیے مثالی ہے۔
میمری تھنک ٹینک اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس میں بیس برس خدمات انجام دینے والے کرنل یگال کرمون نے انیس سو اٹھانوے میں قائم کیا۔میمری کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عربی ، ترک اور فارسی میں شایع ہونے والے ترجمہ شدہ مضامین اور اقتباسات بھی ملتے ہیں۔ دو ہزار بارہ سے یہ تھنک ٹینک اسرائیل کے لیے حساس معلومات اکٹھا کرنے کا غیر اعلانیہ کام بھی کرتا ہے۔
مگر اس ویب سائٹ پر حقائق اور تجزیے کے نام پر بہت سے بلنڈرز بھی نظر آتے ہیں۔مثلاً یہی کہ بلوچستان مغربی دنیا کا فطری اتحادی ہے۔ حالانکہ یہاں کے لوگ اچھے سے جانتے ہیں کہ بیرک گولڈ اور بی ایچ پی بلیٹن جیسی دیگر مغربی کمپنیاں یہاں کی معدنی دولت کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔
اسی طرح میمری کے بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ میں جو مضامین مختلف ناموں سے شایع ہوتے ہیں ان میں ایک نام پروجیکٹ کے معاونِ خصوصی ، مصنف ، اسکالر ، پولٹیکل سائنٹسٹ میر یار بلوچ ہے۔ دعوی کیا گیا ہے کہ میر یار بلوچ کا ایکس اکاؤنٹ جنوبی ایشیا کے سب سے بااثر اور مقبول ٹویٹر اکاؤنٹس میں شامل ہے۔
اس اکاؤنٹ پر گزشتہ مئی میں یہ پوسٹ بھی لگی کہ چھ کروڑ بلوچ آپریشن سندور کی بھرپور حمائیت کرتے ہیں۔
میر یار بلوچ کے حوالے سے بھارتی ذرایع ابلاغ میں خبریں بکثرت شایع ہوتی ہیں۔مثلاً یہی کہ تمام بلوچ قوم پرست میر یار بلوچ کے ایکس اکاؤنٹ پر موجود اعلانِ آزادی سے متفق ہیں۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایکٹوسٹ نیاز بلوچ نے خبردار کیا ہے کہ میر یار بلوچ سمیت کم ازکم چار ایسے فیک اکاؤنٹس ہیں جنھیں سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔
ہم سب ایران اسرائیل بارہ روزہ جنگ میں دیکھ چکے ہیں کہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ میں اسرائیل (موساد ) نے کتنی گہری جڑیں بنائیں۔اگلے مرحلے میں ایران اور اس سے متصل پاکستان میں چلنے والی تحریکوں کو اسرائیل اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس بابت بھارت اور اسرائیل کے باہم خیالات اور وسیع تر اسٹرٹیجک ساجھے داری نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔
حالانکہ ان مقامی تحریکوں کے اٹھنے کے بنیادی اسباب داخلی ہیں۔مگر یہ کوئی نئی بات نہیں کہ جب حکومتیں ایسی تحریکوں کے پسِ پردہ حقیقی اسباب کو مسلسل نظرانداز کر کے ان کا کوئی متفقہ قابلِ قبول سیاسی و اقتصادی حل نکالنے کے بجائے محض طاقت کے استعمال پر تکیہ کرتی ہیں تو پھر کوئی بھی بیرونی طاقت اس آگ پر اپنے مفاد میں مزید تیل ڈال کے ہاتھ تاپ سکتی ہے۔
اسرائیل کو اس ایجنڈے سے یوں بھی دلچسپی ہے کہ وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ خومختاری کی خواہش مند علاقائی تحریکوں اور فلسطینی محرومی کی تحریک کسی مشترکہ نکتے کو اپنا محور بنا کے اس کے علاقائی عزائم کی راہ میں ایک اور دردِ سر پیدا کر دیں۔چنانچہ جس جس مقامی تحریک پر بظاہر ہمدرد بن کے ہاتھ رکھا جا سکتا ہے رکھ دیا جائے تاکہ وہ فلسطینیوں سے کسی بھی مرحلے پر اظہارِ یکجہتی کے بارے میں سوچے ہی نا۔
اگر واقعی وہ ریاستیں جو فلسطین کے حقِ خود اختیاری کی دل سے حامی ہیں اور خود بھی علیحدگی پسندی کی تحریکوں کا سامنا کر رہی ہیں۔انھیں سمجھ داری برتتے ہوئے پہلے اپنے گھر کے حالات ٹھیک کرنے ہوں گے تاکہ کوئی بھی خود غرض طاقت ان کی اس کمزوری کو اپنے ایجنڈے کا ایندھن نہ بنا سکے۔
خود ان تحریکوں کی قیادت کو بھی کسی بھی دوست نما سے ہاتھ ملاتے وقت دس بار سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ مصافحہ ان کی اب تک کی کوششوں پر پانی نہ پھیر دے اور مطلبی محسن اپنا کام نکال کے چلتا بنے۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سب سے مشکل کام سب سے آسان بات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میر یار بلوچ کی کوشش کو بھی کے لیے ہیں کہ اور اس
پڑھیں:
صیہونی مخالف اتحاد، انتخاب یا ضرورت!
اسلام ٹائمز: امام خمینی (رح) اور رہبر انقلاب اسلامی نے ماضی اور حال میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کیخلاف بیت المقدس کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں ہمیشہ خبردار کیا ہے اور اس خطرے کو ناکام بنانے کیلئے امت اسلامیہ کے اتحاد کو واحد حکمت عملی قرار دیا ہے۔ صیہونی حکومت کیخلاف اسلامی ممالک کیطرف سے حقیقی اتحاد تشکیل دیکر امت اسلامیہ کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا اسوقت بہترین موقع ہے۔ اگر یہ اتحاد حقیقت کا روپ اختیار کر لیتا ہے تو یہ امت اسلامیہ کے مفادات کو پورا کرسکتا ہے، صیہونی حکومت کے خطرات کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے وجود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور بالآخر مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بیت المقدس کو قابضین کے چنگل سے آزاد کرانے کا سبب بن سکتا ہے۔ تحریر: یداللہ جوانی جونی
ایک طرف "گریٹر اسرائیل" کے نقشے کی تصویر کشی اور کئی اسلامی ممالک کے خلاف فوجی حملے کی دھمکی اور دوسری طرف صیہونی حکومت کی طرف سے قطر کے خلاف حملے کو عملی جامہ پہنانے نے مغربی ایشیا کے خطے کو نئی اور ہنگامی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اب نہ صرف مظلوم فلسطینیوں کو اپنی مقبوضہ سرزمین کو قابضین سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنی چاہیئے، بلکہ بہت سے دوسرے اسلامی اور عرب ممالک کو بھی صیہونی حکومت کے ہاتھوں اپنے وجود، علاقائی سالمیت، آزادی اور سلامتی کو شدید خطرے کے پیش نظر تیاری کرنا ہوگی۔ گذشتہ دو برسوں میں علاقے میں ہونے والی پیش رفت کے پیش نظر صیہونی حکومت کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان کے لیے نئی زمینوں پر قبضہ کرنے اور دریائے نیل سے فرات تک حکومت کی تشکیل کے نظریئے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔
نیتن یاہو، اپنی بھیڑیا صفت درندگی کے ساتھ، اب ہر چیز پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ بقول اس کے مقدس یروشلم کی قابض حکومت کے خلاف وجودی خطرات کو ختم کیا جا سکے۔ اس بھیڑیئے کے رویئے اور بے رحم وحشیانہ رویوں کی حمایت کرنے والا مغرب ہے، جو خود کو انسان دوست، انسانی حقوق کا علمبردار اور امن و سلامتی کا محافظ کہتا ہے۔ قطر کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ٹرمپ کی اجازت سے صیہونی حکومت کے فوجی حملے نے بہت سے عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو ایک مبہم اسٹریٹجک صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے ترکی کو قطر کی طرح فوجی کارروائی کی دھمکی اور مصر میں حماس کے رہنماوں کو ختم کرنے کے لیے جو دہشت گردانہ دھمکیاں دی جارہی ہیں، وہ سب اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ قدس پر قابض حکومت کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ دو وجوہات کی بناء پر اسلامی ممالک کے خلاف جارحیت انتہائی آسان، سستی اور ضروری ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کو ان جارحیتوں کو انجام دینے میں بااثر مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہدف والے ممالک میں ان حکومتوں جیسے قطر، مصر، ترکی، امارات، سعودی عرب، اردن وغیرہ کا دفاع اور سلامتی کے حوالے سے مغرب پر انحصار ہے۔ یہ انحصار کسی بھی سنگین ردعمل کے لیے صیہونی حکومت کے ردعمل کو کم کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اسلامی اور عرب ممالک کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں اور اپنے عوام کے مستقبل کے تحفظ اور سلامتی کے بارے میں حقیقت پسندانہ سوچ اپنائیں۔ اس سے پہلے کہ حکمت عملی کے فیصلے کرنے کے مواقع ختم ہو جائیں۔ ان حکومتوں، کو چاہیئے کہ اپنے عوام کے مستقبل کے بارے میں دانشمندانہ فیصلوں کی طرف قدم بڑھائیں۔ ایک ایسی حکومت جس نے اپنے ناجائز اور قابض وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تمام انسانی اور اخلاقی اصولوں کو پامال کیا اور غزہ میں نسل کشی کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حکومت اپنے مقاصد اور مفادات کو آگے بڑھانے اور محفوظ کرنے کے لیے مغربی ایشیاء میں مغرب کی پراکسی ہے۔ صیہونی حکومت کے خطرات اور دھمکیوں کے مقابلے میں ان ممالک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے عرب اور اسلامی ممالک کو فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان حکومتوں کے ساتھ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی دوستی اور اتحاد کے نتائج تمام شواہد کے ساتھ سامنے آچکے ہیں۔ بہرحال عرب اور اسلامی ممالک کے قائدین کی جانب سے مذکورہ بالا حقائق پر مبنی اسٹریٹجک فیصلوں کی روشنی میں نہ صرف ان ممالک کے خلاف صیہونی حکومت کی دھمکیوں کو بے اثر کیا جا سکتا ہے، بلکہ صیہونی حکومت کے خاتمے، القدس کی آزادی اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی تحریک کو نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے۔ یہ اسٹریٹجک فیصلہ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی اور عرب ممالک کے حقیقی اور عملی اتحاد کی تشکیل کے سوا کچھ نہیں۔
موجودہ حالات میں ایسے اتحاد کی تشکیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بلکہ امت مسلمہ اور تمام اسلامی و عرب ممالک کے لیے ایک تاریخی ہنگامی صورتحال ہے، جس سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بعض اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ صیہونی حکومت نے ان کے وجود کو نشانہ بنایا ہے اور وہ تباہی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پیر 14 ستمبر کو دوحہ میں منعقد ہونے والی غیر معمولی عرب اسلامی سربراہی کانفرنس اس اتحاد کو بنانے اور "مشترکہ صیہونی مخالف آپریشنز ہیڈ کوارٹر" بنانے کا ایک قیمتی موقع ہے۔ امام خمینی (رح) اور رہبر انقلاب اسلامی نے ماضی اور حال میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے خلاف بیت المقدس کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں ہمیشہ خبردار کیا ہے اور اس خطرے کو ناکام بنانے کے لیے امت اسلامیہ کے اتحاد کو واحد حکمت عملی قرار دیا ہے۔ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی ممالک کی طرف سے حقیقی اتحاد تشکیل دے کر امت اسلامیہ کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا اس وقت بہترین موقع ہے۔ اگر یہ اتحاد حقیقت کا روپ اختیار کر لیتا ہے تو یہ امت اسلامیہ کے مفادات کو پورا کرسکتا ہے، صیہونی حکومت کے خطرات کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے وجود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور بالآخر مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بیت المقدس کو قابضین کے چنگل سے آزاد کرانے کا سبب بن سکتا ہے۔
1۔ غاصب صیہونی حکومت اس وقت دنیا اور اقوام عالم کی رائے عامہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت کے طور پر جانی جاتی ہے۔
2۔ فلسطین کی آزادی کا نعرہ اب عالمی بحث بنتا جا رہا ہے۔
3۔ خطے کے بہت سے ممالک میں بالخصوص یمن، لبنان، عراق اور خود غزہ جیسے مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت مقبول ہوچکی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف موثر جدوجہد کے لیے اعلیٰ سطح پر ہم آہنگی اور نظم موجود ہے۔
4۔ صیہونی حکومت اندر سے کھوکھلی ہو رہی ہے اور اس کے تمام معاون ڈھانچے بوسیدہ اور متزلزل ہوچکے ہیں۔ اس حکومت کی فضائیہ کی طاقت کا دوسرے ممالک پر انحصار ہے (مغربی طیاروں پر) جو ایک مضبوط اور مستحکم ملک کی علامت نہیں سمجھا جاتا۔
5۔ امریکہ اور صیہونی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ 12 روزہ جنگ کے خلاف ایرانی قوم کے طاقتور دفاع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بیت المقدس کے غاصبوں کو شدید ضربیں لگائی جاسکتی ہیں، جس کو برداشت کرنے سے وہ قاصر ہیں۔
6۔ صیہونی حکومت کی اہم اور تجارتی شریانیں اسلامی ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ اس اتحاد کا پہلا قدم ان تمام اہم تجارتی اور اقتصادی شریانوں کو منقطع کرنے کا فیصلہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہوسکتا ہے۔