ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے آذربائیجان اور دیگر متعدد وسطی ایشیائی ممالک کو ابراہم ایکارڈ میں شامل کرنے کے لیے متحرک ہیں اور مذاکرات کر رہے ہیں۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق اس حوالے سے باخبر 5 ذرائع نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ آذربائیجان کے ساتھ فعال انداز میں بات چیت کر رہی ہے اور انتظامیہ کو توقع ہے کہ ان کے سرائیل کے ساتھ تعلقات گہرے ہوں۔
ذرائع نے بتایا کہ آذربائیجان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی تعلقات طویل عرصے سے تعلقات ہیں اور اس معاہدے میں شامل کرنے کا مقصد نمائشی ہے تاکہ تجارت اور عسکری تعاون سمیت تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ دی جائے گی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ آذربائیجان کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ اس کا پڑوسی ملک آرمینیا کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان امن معاہدہ کروانے پر غور کر رہے ہیں تاہم اس کے لیے ابراہم ایکارڈ میں شامل ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس حوالے سے کئی ممالک کے نام لیے ہیں تاہم آذربائیجان کے ساتھ انتہائی منظم اور سنجیدہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور دو ذرائع نے بتایا کہ ایک مہینے یا چند ہفتوں میں یہ معاہدہ ہوسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے امن مشن کے نمائندے اسٹیو ویٹکوف نے مارچ میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کا دورہ کیا تھا اور صدر الہام علیوف سے ملاقات کی اور اس کے بعد ویٹکوف کے قریبی ساتھی آریہ لائٹسٹون نے بھی صدر علیوف سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں ابراہم ایکارڈ پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ مذاکرات کے حصے کے طور پر آذربائیجان کے عہدیداروں نے قازقستان سمیت دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ کیا تاکہ ابراہم ایکارڈ کی توسیع کے لیے ان کو بھی شامل کیا جائے۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ دیگر وسطی ایشیائی ممالک میں سے کس کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے جبکہ خطے میں قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغیزستان جیسے ممالک شامل ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار نے وسطی ایشیائی ممالک کے نام تو نہیں بتائے تاہم اتنا کہا کہ ابراہم ایکارڈ کی توسیع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ وسطی ایشیائی مملاک کے ساتھ مذاکرات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن آذربائیجان کے ساتھ بات چیت ان کے مقابلے میں کافی آگے بڑھ گئی ہے۔
ذرائع نے واضح کیا کہ اس کے باوجود چیلنجز موجود ہیں اور معاہدہ حتمی شکل اختیار ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں 2020 اور 2021 میں ابراہم ایکارڈ پر دستخط کیے گئے تھے اور اس معاہدے کے تحت 4 مسلم ممالک نے امریکی ثالثی میں سرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرمپ کی اس کوشش کے نتیجے میں ان کی انتظامیہ کو امید ہے کہ سعودی عرب کو بھی قائل کرلیا جائے گا۔
دوسری جانب سعودی عرب بارہا واضح کرچکا ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا قدم نہیں اٹھائے گا جب تک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور حالیہ جنگ کے نتیجے میں غزہ میں ہونے والی بربریت کے بعد سعودی عرب کے لیے اس طرح کا معاہدہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی وجہ سے بھوک ہر سو پھیلی ہوئی ہے اور بچے غذائی قلت کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں جبکہ اسرائیل نے امداد بھیجنے کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔
اسرائیل کی جنگی جنون میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی غزہ میں شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں، شہید ہونے والے فلسطینیوں میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وسطی ایشیائی ممالک آذربائیجان کے نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ممالک کے ٹرمپ کی رہے ہیں کے ساتھ ہیں اور کے لیے اور اس
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کی واشنگٹن ڈی سی میں قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ میئر نے امیگریشن حکام سے تعاون نہ کیا تو واشنگٹن ڈی سی کو وفاق کے کنٹرول میں لے آئیں گے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر واشنگٹن ڈی سی کی پولیس نے امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے ساتھ تعاون نہ کیا تو وہ قومی ایمرجنسی نافذ کر کے وفاقی کنٹرول سنبھال لیں گے۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب واشنگٹن کی میئر موریل باؤزر نے کہا کہ میٹرو پولیٹن پولیس محکمہ آئی سی ای کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔ معاملہ غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم یا داخل ہونے والے افراد کی معلومات کے تبادلے سے متعلق ہے۔
ناقدین نے ٹرمپ کے اس مؤقف کو وفاقی اختیارات سے تجاوز قرار دیا ہے، اس وقت 2000 سے زائد فوجی دارالحکومت کی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس ماہ ہزاروں مظاہرین ٹرمپ کے اگست میں نیشنل گارڈ تعینات کرنے کے فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ ٹرمپ نے اس وقت کہا تھا کہ واشنگٹن میں جرائم ایک بدنما داغ ہیں اور قانون و امن کی بحالی ناگزیر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر دعویٰ کیا کہ “چند ہی ہفتوں میں یہ جگہ زبردست ترقی کر رہی ہے، دہائیوں بعد پہلی بار یہاں تقریباً کوئی جرم نہیں۔”
باؤزر کے دفتر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تازہ دھمکی پر کوئی فوری ردعمل نہیں دیا۔
قبل ازیں ٹرمپ میٹرو پولیٹن پولیس کو براہِ راست وفاقی کنٹرول میں لے چکے ہیں اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں، بشمول آئی سی ای کو سڑکوں پر تعینات کر چکے ہیں تاہم ان کی تعیناتی کی مدت واضح نہیں ہے۔
ٹرمپ نے الزام لگایا کہ “ریڈیکل لیفٹ ڈیموکریٹس” میئر باؤزر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ پولیس کو آئی سی ای کے ساتھ تعاون سے روکیں۔ ان کے مطابق اگر ایسا ہوا تو جرائم دوبارہ بڑھ جائیں گے۔
انہوں نے شہریوں اور کاروباری طبقے کو یقین دلایا کہ “واشنگٹن کے عوام پریشان نہ ہوں، میں آپ کے ساتھ ہوں اور ایسا ہونے نہیں دوں گا۔ ضرورت پڑی تو قومی ایمرجنسی نافذ کر کے وفاقی کنٹرول سنبھال لوں گا۔”
خیال رہے کہ باؤزر اس سے قبل ٹرمپ کے وفاقی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے اضافے کو سراہ چکی ہیں، جس کے بعد شہر میں جرائم کی شرح میں کمی آئی تھی۔
قانونی ماہرین کے مطابق نیشنل گارڈ عام طور پر ریاستی گورنرز کے ماتحت ہوتا ہے، تاہم واشنگٹن ڈی سی کا نیشنل گارڈ براہِ راست صدر کو رپورٹ کرتا ہے۔
Post Views: 5