مشرق وسطیٰ: اقوام متحدہ کی کانفرنس دو ریاستی حل کی حامی
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک ممالک کے نمائندوں نے منگل کے روز مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے کے خاتمے کے لیے ’نیویارک اعلامیہ‘ جاری کیا، جس میں دو ریاستی حل کی ’’غیر متزلزل حمایت‘‘ کی گئی ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پرعزم ہو۔
اس سے دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک کو ختم کرنے کے عالمی عزائم کا اشارہ ملتا ہے۔’نیویارک اعلامیہ‘ ایک مرحلہ وار منصوبہ پیش کرتا ہے، جس کا مقصد تقریباً 80 سال پرانے اسرائیل-فلسطین تنازعے اور غزہ کی موجودہ جنگ کا خاتمہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک آزاد، غیر مسلح فلسطین کو اسرائیل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہنے کے لیے قائم کیا جائے گا، اور وہ بالآخر مشرقِ وسطیٰ کے وسیع تر خطے کا حصہ بھی ہو گا۔
(جاری ہے)
منگل کو ختم ہونے والا یہ دو روزہ بین الاقوامی اجلاس ایسے وقت پر منعقد ہوا، جب غزہ پٹی میں شدید انسانی بحران، بھوک اور قحط کی خبریں آ رہی ہیں، اور دنیا بھر میں اس پر شدید غصہ ہے کہ اسرائیلی پالیسیوں کے باعث فلسطینیوں تک امداد نہیں پہنچ رہی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو دو ریاستی حل کی مخالفت کرتے ہیں اور اس اجلاس کو قوم پرستانہ اور سکیورٹی بنیادوں پر مسترد کر چکے ہیں۔
اسرائیل کے قریبی اتحادی ملک امریکہ نے بھی اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا، اور اسے ''غیر مفید اور وقت کے لحاظ سے نامناسب‘‘ قرار دیا۔ ’نیویارک اعلامیہ‘ میں اور کیا کہا گیا ہے؟اس کانفرنس میں، جسے جون سے مؤخر کیا گیا تھا اور عالمی رہنماؤں کے بجائے وزارتی سطح پر منعقد کیا گیا، پہلی بار آٹھ اعلیٰ سطحی ورکنگ گروپ بھی قائم کیے گئے، جو دو ریاستی حل سے متعلق مختلف موضوعات پر تجاویز دیں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کانفرنس کے شریک صدور ممالک فرانس اور سعودی عرب، یورپی یونین، عرب لیگ اور 15 دیگر ممالک نے ''غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے اجتماعی اقدام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ستمبر کے وسط میں جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس سے قبل اس دستاویز کی حمایت کریں۔
اعلامیے میں 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس کی جانب سے عام شہریوں پر کیے گئے حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عرب ممالک نے کھل کر حماس کی مذمت کی ہے۔
ان حملوں میں تقریباً 1200 افراد، جن میں زیادہ تر اسرائیلی شہری تھے، ہلاک ہوئے تھے اور تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، جن میں سے لگ بھگ 50 اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔
اعلامیے میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں عام شہریوں اور بنیادی ڈھانچے پر حملوں کی بھی مذمت کی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ غزہ پٹی کے ''محاصرے اور بھوک نے ایک تباہ کن انسانی المیے اور تحفظ کے بحران کو جنم دیا ہے۔‘‘
غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 60,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ اعداد و شمار مارے جانے والے فلسطینی شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ یہ کانفرنس اہم کیوں؟اس کانفرنس کے منصوبے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو تمام فلسطینی علاقوں کی حکومت سنبھالنے کا اختیار حاصل ہو گا، اور جنگ بندی کے بعد فوری طور پر ایک عبوری انتظامی کمیٹی قائم کی جائے گی۔
اس منصوبے میں اقوام متحدہ کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی استحکام مشن کی تعیناتی کی بھی حمایت کی گئی ہے، جو فلسطینی شہریوں کے تحفظ، سکیورٹی کی منتقلی، جنگ بندی کی نگرانی، اور مستقبل کے امن معاہدے کی ضمانت دے گا۔
نیو یارک اعلامیے میں تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں، اور کہا گیا ہے کہ یہ ''دو ریاستی حل کے حصول کا ایک لازمی اور ناگزیر جزو‘‘ ہے۔ اگرچہ اسرائیل کا نام نہیں لیا گیا، تاہم اعلامیے میں کہا گیا ہے، ''غیر قانونی یکطرفہ اقدامات، فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے وجودی خطرہ بن چکے ہیں۔
‘‘فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اس اجلاس سے قبل اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک ستمبر کے آخر میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
منگل کو فرانسیسی وزارت خارجہ نے اسرائیلی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا ''حماس کے لیے انعام‘‘ نہیں بلکہ اس کے برعکس یہ اقدام ’’حماس کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں مدد دے گا۔
‘‘اسی دوران برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے بھی منگل کے روز اعلان کیا کہ برطانیہ ستمبر کے اجلاس سے قبل فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا، دوسری صورت میں اسرائیل کو اگلے آٹھ ہفتوں میں جنگ بندی اور طویل المدتی امن عمل پر رضامند ہونا پڑے گا۔
فرانس اور برطانیہ اب دو ایسے بڑے مغربی ممالک اور جی سیون کے اب تک کے ایسےصرف دو صنعتی ممالک ہیں، جنہوں نے ایسے وعدے کیے ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین، مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی ریاست دو ریاستی حل اعلامیے میں اقوام متحدہ کو تسلیم کر کہا گیا ہے گیا ہے کہ کی گئی ہے غزہ پٹی کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
اقوامِ متحدہ نے امریکی سمندری حملوں کو غیرقانونی قرار دے دیا
اقوام متحدہ نے امریکا کی جانب سے کیریبین اور بحرالکاہل میں مبینہ منشیات بردار کشتیوں پر حملوں کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے جمعے کو جاری اپنے بیان میں کہا کہ ان حملوں کے نتیجے میں اب تک 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جو کہ ناقابلِ قبول ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا طیارہ بردار بحری بیڑا کیریبین روانہ، منشیات بردار کشتیوں کیخلاف کارروائیاں تیز
2 ستمبر سے اب تک امریکی فوج نے کیریبین اور بحرالکاہل کے علاقوں میں متعدد کشتیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
UN High Commissioner for Human Rights says air strikes by United States against alleged drug vessels in Caribbean and Pacific violate international law, Volker Türk says strikes unacceptable and must stop#sabcnews pic.twitter.com/7SigF1iC4q
— Sherwin Bryce-Pease (@sherwiebp) October 31, 2025
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ کشتیاں امریکا میں منشیات اسمگل کر رہی تھیں، تاہم اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
وولکر ترک کے مطابق یہ حملےاور ان کی بڑھتی ہوئی انسانی قیمت ناقابلِ قبول ہیں، امریکا کو چاہیے کہ وہ ایسے حملے فوری طور پر بند کرے۔
مزید پڑھیں: امریکا نے منشیات فروشوں کی معاونت کا الزام لگا کر کولمبیا کے صدر اور اہل خانہ پر پابندی لگا دی
’۔۔۔اور کشتیوں پر سوار افراد کے ماورائے عدالت قتل کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے، چاہے ان پر کسی بھی جرم کا الزام کیوں نہ ہو۔‘
صدر ٹرمپ نے گزشتہ منگل کو جاپان میں یو ایس ایس جارج واشنگٹن نامی بحری جہاز پر امریکی ملاحوں سے خطاب کرتے ہوئے ان حملوں پر فخر کا اظہار کیا تھا۔
’کئی سالوں سے منشیات کے کارٹیل امریکا کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، اور آخرکار ہم نے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔‘
تاہم وولکرترک نے واضح کیا کہ منشیات کی اسمگلنگ کوئی جنگی معاملہ نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والا مسئلہ ہے۔
مزید پڑھیں:
’بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت جان لیوا طاقت کا استعمال صرف اسی وقت جائز ہے جب کوئی شخص فوری طور پر کسی کی جان کے لیے خطرہ بن جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حکام کی جانب سے جو معمولی معلومات جاری کی گئی ہیں، ان سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ نشانہ بنائی گئی کشتیوں پر سوار افراد کسی کی جان کے لیے فوری خطرہ تھے۔
Breaking News: The U.S. struck a boat that the Trump administration claimed without evidence was carrying drugs from South America. It was the first American strike on a vessel in the Pacific Ocean, expanding the military campaign beyond the Caribbean Sea. https://t.co/xaXqfT7Z1S
— The New York Times (@nytimes) October 22, 2025
19 اکتوبر کو کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے بھی امریکا پر قتل اور کولمبیا کی سمندری خودمختاری کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
ان کے مطابق، وسط ستمبر کے ایک حملے میں کولمبیا کے ماہی گیر الیخاندرو کارانزا مارے گئے۔
مزید پڑھیں:
’کولمبیا کی کشتی سمندر میں پھنس گئی تھی اور انجن کے ناکام ہونے کے باعث اس پر مدد کے سگنل لگے ہوئے تھے۔‘
اس الزام کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کولمبیا کے لیے تمام غیر ملکی امداد منسوخ کر دی۔
اپنے بیان میں وولکر ترک نے مطالبہ کیا کہ منشیات اسمگلنگ کے مشتبہ افراد کو قانونی طور پر گرفتار اور تفتیش کے لیے پیش کیا جائے۔
’امریکا کو چاہیے کہ سنگین جرائم کے الزام میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے، اور منصفانہ سماعت و انصاف کے اصولوں کی پاسداری کرے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ بحرالکاہل جان لیوا صدر ٹرمپ غیر ملکی کشتیوں کولمبیا کیریبین ماہی گیر منشیات وولکر ترک