WE News:
2025-08-01@06:51:57 GMT

ایک بڑے مغربی ملک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

ایک بڑے مغربی ملک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان

کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر 2025 میں ہونے والے 80ویں اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق، وزیر اعظم مارک کارنی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام اسرائیل-فلسطین تنازع کے 2 ریاستی حل کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ حل ایک طویل عرصے سے کینیڈا کی پالیسی کا حصہ رہا ہے، اور اب ’ہماری آنکھوں کے سامنے یہ امید دم توڑتی نظر آ رہی ہے‘۔

مارک کارنی نے کہا کہ غزہ میں شہریوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ عالمی برادری فوری اور مؤثر اقدامات کرے، کیونکہ اب تاخیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیے فلسطینی عوام کی آزاد ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، چین کا واضح مؤقف

جب صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے قبل کینیڈا اپنا فیصلہ واپس لے سکتا ہے، تو وزیر اعظم نے جواب دیا کہ نظریاتی طور پر ایسا ایک منظرنامہ ممکن ہے، لیکن ’شاید ایسا جو میں تصور بھی نہیں کر سکتا‘۔

ٹرمپ کی دھمکی: تجارتی معاہدہ خطرے میں

دوسری جانب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کے اس فیصلے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے امریکا اور کینیڈا کے درمیان جاری تجارتی معاہدے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری ایک پیغام میں ٹرمپ نے لکھا:

یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کردیا

’واہ! کینیڈا نے ابھی اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کر رہا ہے۔ اس سے ہمارے لیے ان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اوہ، کینیڈا!!!‘

اسرائیل کا سخت ردعمل

اسرائیل نے کینیڈا کے فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اوٹاوا میں اسرائیلی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ:

قابلِ احتساب حکومت، مؤثر اداروں اور ہمدرد قیادت کی غیر موجودگی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا، درحقیقت 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی بربریت کو انعام دینے کے مترادف ہے۔

فلسطینی اور فرانسیسی ردعمل

دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا یہ قدم فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں ایک مضبوط پیغام ہے۔

یہ بھی پڑھیے فرانس کا فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ، اسرائیل کو تشویش لاحق

فرانسیسی حکومت نے بھی کینیڈا کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے کینیڈا کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں جاری جنگ اور انسانی بحران کے باعث عالمی سطح پر اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے، اور کئی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فلسطینی ریاست کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی فلسطینی ریاست کو تسلیم کو تسلیم کر مارک کارنی تسلیم کرنے کینیڈا کے

پڑھیں:

غزہ جنگ نہ رکی تو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے، اسٹارمر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ کی ''خوفناک صورت حال‘‘ کو ختم کرنے کے لیے اہم اقدامات نہیں کرتا اور اس مسئلے سے متعلق لندن کی دیگر شرائط کو بھی پورا نہیں کرتا، تو برطانیہ بھی ستمبر میں خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔

واضح رہے کہ فرانس کے صدر ماکروں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ان کا ملک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دے گا۔

لندن میں ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ایک بیان کے مطابق برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر نے منگل کے روز کہا، ''ہمارا مقصد ایک قابل عمل اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ ایک محفوظ اسرائیل بھی ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

اسٹارمر نے کہا، ''دو ریاستی حل کے لیے زیادہ سے زیادہ مؤثر لمحے میں ایک مناسب امن عمل کے لیے شراکت دار کے طور پر ''برطانوی حکومت کا ہمیشہ سے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ‘‘ رہا ہے، جو اسٹارمر کے بقول ''اب خطرے میں ہے۔

‘‘

کیئر اسٹارمر نے مزید کہا، ''امن کی طرف اس عمل کے ایک حصے کے طور پر، میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ برطانیہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا، یا پھر اسرائیلی حکومت غزہ پٹی کی خوفناک صورت حال کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی۔‘‘

اسٹارمر نے مزید کیا کہا؟

برطانوی سربراہ حکومت نے اسرائیل سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ''جنگ بندی پر راضی ہو جائے اور دو ریاستی حل کے امکانات کو زندہ کرتے ہوئے ایک طویل المدتی اور پائیدار امن کا عہد کرے۔

‘‘

اسٹارمر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس میں ''اقوام متحدہ کو امداد کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینا اور یہ واضح کرنا بھی شامل ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل سے کسی بھی طرح کا کوئی الحاق نہیں ہو گا۔‘‘

انہوں نے غزہ پٹی میں حکومت کرنے والے ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے بارے میں بھی اپنی حکومت کے موقف کا اعادہ کیا۔

اسٹارمر نے کہا، ''حماس کے دہشت گردوں کے لیے ہمارا پیغام غیر تبدیل شدہ اور واضح ہے۔ وہ تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کریں، جنگ بندی معاہدے پر دستخط کریں، غیر مسلح ہوں اور یہ بھی تسلیم کریں کہ وہ غزہ کی حکومت میں آئندہ کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔‘‘

غزہ پٹی میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خدشات کے تناظر میں کیئر اسٹارمر نے فلسطینیوں تک پہنچائے جانے کے لیے مزید امداد کا مطالبہ بھی کیا۔

لندن کی 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر انہوں نے کہا، ''ہمیں ہر روز کم از کم 500 ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن آخر کار اس انسانی بحران کو ختم کرنے کا واحد راستہ ایک طویل المدتی تصفیہ ہے۔‘‘

برطانوی رہنما نے کہا کہ ان کی حکومت ''ایک اہم جنگ بندی‘‘ کو محفوظ بنانے کے لیے امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''یہ جنگ بندی پائیدار ہونا چاہیے اور اسے ایک ایسے وسیع امن منصوبے کی طرف لے جانا چاہیے، جسے ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تیار کر رہے ہیں۔‘‘

برطانیہ، امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، اس لیے اگر یہ گروپ حکومت میں شامل ہوتا ہے، تو ممکنہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوئی بھی ممکنہ کوشش پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

برطانیہ کا موقف حماس کو 'انعام‘ دینے کے مترادف، اسرائیل

کیئر اسٹارمر کا یہ اعلان فرانسیسی صدر ماکروں کے یہ کہنے کے بعد سامنے آیا ہے کہ ان کا ملک ستمبر میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لے گا۔

چونکہ امدادی گروپوں اور اقوام متحدہ نے غزہ پٹی میں قحط جیسی صورتحال سے سے خبردار کیا ہے، اس لیے اسرائیل پر اپنی فوجی مہم ختم کرنے اور محصور فلسطینی علاقے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے غیر محدود داخلے کی اجازت دینے کے لیے بین الاقوامی دباؤ حالیہ ہفتوں میں مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

اسرائیل غزہ میں بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کے دعووں کو یا تو ٹھکراتا ہے یا پھر انہیں یکسر مسترد کرتا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسٹارمر کا اعلان ''حماس کی خوفناک دہشت گردی کا انعام اور اس کے متاثرین کو سزا دیتا ہے۔‘‘

انہوں نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''اسرائیل کی سرحد پر آج کے دن ایک جہادی ریاست کل برطانیہ کو بھی دھمکی دے گی۔

‘‘

اسرائیل کی وزارت خارجہ نے بھی برطانیہ کے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن کی بدلتی ہوئی پوزیشن ''فرانسیسی اقدام اور اندرونی سیاسی دباؤ کے بعد، حماس کے لیے ایک انعام ہے اور غزہ پٹی میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک فریم ورک کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘

ادارت: جاوید اختر، مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • کینیڈا کے فلسطینی ریاست کی حمایت کے اعلان کے بعد تجارتی معاہدہ کرنا مشکل ہو جائے گا.صدرٹرمپ
  • کینیڈا ستمبر میں فلسطین کو بطور تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.مارک کارنی
  • سعودی عرب کی جانب سے کینیڈا اور مالٹا کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیر مقدم
  • کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • کینیڈا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کردی
  • برطانیہ نے فلسطینی ریاست کے حق میں اعلان پر اسرائیلی تنقید مسترد کر دی
  • فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور
  • غزہ جنگ نہ رکی تو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے، اسٹارمر
  • فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پرغور