WE News:
2025-08-02@01:57:14 GMT

امریکی نوجوان سائبر اٹیکرز کے نشانے پر کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT

امریکی نوجوان سائبر اٹیکرز کے نشانے پر کیوں؟

امریکا میں نوجوانوں کی اکثریت ہر ہفتے کسی نہ کسی آن لائن اسکیم یا سائبر حملے کا شکار ہو رہی ہے۔

عوامی مسائل کی جانچ کرنے والے امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں بیشتر بالغ افراد کو ہر ہفتے اسکیم کالز، پیغامات اور ای میلز موصول ہوتی ہیں، جن کا مقصد انہیں دھوکہ دینا یا ذاتی معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 2025 کے ابتدائی 5 ماہ، آن لائن فراڈ کے ذریعے بھارتی کتنے ملین ڈالرز سے ہاتھ دھو بیٹھے؟

 ایف بی آئی کے مطابق صرف 2024 کے دوران امریکی شہریوں کو اسکیمز کے باعث 16.

6 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔

امریکی مالیاتی ادارے، ریٹیل کمپنیاں اور وفاقی حکام اس خطرے کی سنگینی اجاگر کرتے ہوئے شہریوں کو اس سے بچاؤ کے طریقے سکھانے اور کسی دھوکے کا شکار ہونے کی صورت میں اقدامات سے آگاہ کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔

پیو ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ عوام کی نظر میں بزرگ افراد ان حملوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ نوجوان اور بزرگ دونوں ہی آن لائن اسکیمز کا نشانہ بن رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پرائم استعمال کرنے والے صارفین کے اکاؤنٹس خطرے میں، ایمازون نے خبردار کردیا

سروے میں شامل تقریباً نصف شرکا نے بتایا کہ ان کے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے جعلی لین دین کیا گیا، جو سائبر حملوں کی سب سے عام شکل ہے۔ ایک تہائی سے زائد افراد نے بتایا کہ انہوں نے آن لائن کوئی چیز خریدی جو نہ تو کبھی پہنچی اور نہ ہی اس کی واپسی ممکن ہوئی، یا وہ جعلی تھی۔

قریباً ایک تہائی شرکا نے بتایا کہ ان کی ذاتی معلومات بینک، سوشل میڈیا، ای میل یا کسی آن لائن اکاؤنٹ کے ذریعے ہیک کرلی گئیں۔ چوتھائی سے زائد افراد نے کہا کہ انہیں موصول ہونے والے دھوکہ دہی پر مبنی پیغامات یا کالز کے نتیجے میں انہوں نے اپنی ذاتی معلومات کسی فراڈیے کو فراہم کر دیں۔

یہ بھی پڑھیں: کینیا کے حساس ادارے پر سائبر حملہ، تمام سروسز بری طرح متاثر

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 18 سے 29 برس کی عمر کے افراد ان حملوں کا سب سے زیادہ نشانہ بنے، پیو ریسرچ سینٹر نے یہ سروے 14 سے 20 اپریل کے درمیان 9 ہزار 397 بالغ افراد سے بات چیت کرکے کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: آن لائن یہ بھی

پڑھیں:

جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جولائی 2025ء) عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً جرائم پر مجبور کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات اٹھائیں اور متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی یقینی بنائیں۔

آن لائن دھوکہ دہی سے منشیات کی سمگلنگ اور چوری تک ایسے بہت سے جرائم دانستہ ہی نہیں کیے جاتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو خود بھی بڑے مجرم گروہوں کی جانب سے دھوکے اور استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔

منظم جرائم میں ملوث گروہ تارکین وطن، بچوں اور نوجوانوں سمیت کمزور لوگوں کو دھوکے، دھمکیوں اور تشدد کے ذریعے جرائم کے ارتکاب پر مجبور کرتے ہیں۔ Tweet URL

ایسے متاثرین کو عموماً نوکری کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کیا جاتا ہے جنہیں درپیش حالات جدید غلامی کے مترادف ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

'آئی او ایم' نے اسے انسانی سمگلنگ کا ایسا خوفناک پہلو قرار دیا ہے جس پر کماحقہ توجہ نہیں دی جاتی۔

ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ انسانی حقوق کا بحران ہے۔ اس نے بہت بڑے عالمی کاروبار کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے، خوف پھیلتا ہے اور یہ انتہائی کمزور لوگوں کی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔

استحصال کا شکار لوگوں کو سزا دینے کے بجائیے تحفظ فراہم کرنا ہو گا اور ایسا کیے بغیر انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے پیش رفت ممکن نہیں ہو گی۔لامتناہی استحصال

لوگوں کو دھوکہ دہی سے جرائم پر مجبور کرنے کا مسئلہ تیزی سے وسعت اختیار کر رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا جیسے خطے ایسے جرائم کا گڑھ ہیں جہاں ہزاروں لوگوں کو دھوکہ دہی کے مراکز میں رکھا جاتا ہے۔

یہ لوگ تنہا رہتے ہیں، انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کا اپنی زندگی پر اختیار چھین لیا جاتا ہے۔

جرائم پیشہ گروہوں کے چنگل سے بچنے یا فرار ہونے کے باوجود ان میں بہت سے لوگوں کے نام کے ساتھ جرم کا دھبہ موجود رہتا ہے، انہیں سماجی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نظام ان کے ساتھ متاثرین کے بجائے مجرموں کا سا برتاؤ کرتا ہے۔

اس طرح استحصال کا خاتمہ ہونے کے بعد بھی ان کی لوگوں کی تکالیف ختم نہیں ہوتیں۔

انسانی سمگلنگ کی یہ قسم منظم جرائم کا ایک بڑا محرک بھی ہے جس سے اندازاً سالانہ 40 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ سمگلر ناصرف لوگوں کو جرائم پر مجبور کر کے منافع کماتے ہیں بلکہ متاثرین کو مجرم قرار دینے والا نظام انصاف بھی انہیں فائدہ پہنچاتا ہے۔ جب متاثرین کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے تو انہیں ضروری مدد مہیا نہیں کی جاتی جبکہ نظام کی ناکامی اور بے عملی بڑے مجرموں کو تحفظ دیتی ہے۔

مجرم نہیں، متاثرین

'آئی او ایم' نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ متاثرین کو سزا نہ دینے کے اصولوں کو برقرار رکھیں اور انہیں تحفظ، قانونی معاونت اور سماج میں کارآمد کردار ادا کرنے کی صلاحیت کے حصول میں مدد فراہم کریں۔ جرائم پر مجبور کیے جانے والے ان لوگوں کو مجرموں کے بجائے متاثرہ سمجھنا اخلاقی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ کے گروہوں کا قلع قمع کرنے کے ضمن میں تزویراتی ضرورت بھی ہے۔

انسانی سمگلنگ کے متاثرین میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہوتی ہے اور ان میں سے 78 فیصد کو جبری مشقت یا جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔ مسلح تنازعات، قدرتی آفات اور غربت کے باعث ایسے حالات جنم لیتے ہیں جن سے لاکھوں ایسے لوگوں کے لیے استحصال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو پہلے ہی مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔

'آئی او ایم' نے حکومتوں، بین الاقوامی شراکت داروں اور عام لوگوں پر اس مسئلے کے خلاف اجتماعی اقدامات کے لیے زور دیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی ضروری ہے۔ انہیں ایسے لوگ سمجھا جانا چاہیے جن کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور جن کے مستقبل کا دارومدار وقار اور انصاف کے لیے حکومتوں اور معاشروں کے عزم پر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مچھلی کا گوشت دل و دماغ کے لیے بیحد مفید، مہینے میں کتنے دن کھانا چاہیے؟
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت پر مسلسل دباؤ کیوں بڑھا رہے ہیں؟
  • ذاتی رنجش پر 8 سالہ بچے کا اغوا، چیخنے پر ملزمان نے سر میں گولی مار دی
  • ایک دن آئے گا جب پاکستان تیل بھارت کو بیچے گا، ٹرمپ کو یہ بیان کیوں دینا پڑا؟
  • امریکی مطالبے پر آن لائن پلیٹ فارمز پر5 فیصد ٹیکس ختم
  • مدارس دین بیزار سیکولرز کے نشانے پر
  • جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
  • اسائلم کیسے لیا جاتا ہے، پاکستانی شہری اس کے سب سے زیادہ خواہاں کیوں؟
  • دل میں خوف سا، کیوں ہے بھائی