WE News:
2025-08-02@03:18:17 GMT

جنگ کی قیمت کمر توڑ دیتی ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

16 کروڑ 70 لاکھ ڈالر (167 ملین ڈٖالر) ایرانی حملوں کو روکنے پر ایک رات میں لگ رہے ہیں۔ یہ کوئی 46 ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اسرائیلی نیوز سائٹ ہارٹز نے دیے ہیں۔

پاکستانی روپوں کا ذکر آیا ہے تو ہم پاکستانی اس جنگ کا فوری نتیجہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت بھگت رہے ہیں۔ گھریلو استعمال کے لیے ایل پی جی ایران سے آتی ہے جس کی قیمت کو پَر لگ چکے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جی7 اجلاس چھوڑ کر واپس امریکا پہنچ گئے ہیں۔ امریکا میں وہ اپنی نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ طلب کرکے صورتحال پر غور کریں گے۔ ٹرتھ سوشل پر ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا ہے کہ ’ایران کو نیوکلیئر ڈیل پر دستخط کردینے چاہیے تھے، انسانی جانوں کا ایسے ضائع ہونا شرمناک ہے، ایران نیوکلیئر بم نہیں رکھ سکتا، یہ میں کئی بار کہہ چکا ہوں، سب لوگ فوری طور پر تہران چھوڑ دیں‘۔

اسرائیلی وزیراعظم نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’آئیں ہم ایران کو دوبارہ عظیم بنائیں‘۔ اس سے نیتن کی مراد یہ تھی کہ ایران کے موجودہ سیاسی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ ایران میں اپنے مقاصد کو 2 سے بڑھا کر اب اسرائیل نے 3 کرلیا ہے۔ پہلے نیوکلیئر پروگرام اور میزائل پروگرام کا خاتمہ تھا اب بُرائی کا محور ختم کرنا بھی مقصد بتایا جارہا ہے۔ اس سے مراد ایرانی رجیم کی تبدیلی ہے۔ گل ودھ رہی ہے۔

حالت یہ ہے کہ خود اسرائیلی میڈیا کے مطابق جو کام اسرائیلی وزیراعظم نے شروع کیا ہے اس کے خاتمے کے لیے اسرائیل کو امریکی مداخلت کی ضرورت ہے۔ امریکا مداخلت نہیں کرے گا جب تک ایران غلطی نہ کرے اور امریکی فوجی اڈوں کو مشرق وسطیٰ میں نشانہ نہ بنا بیٹھے۔

امریکا نے ویتنام سے اپنے ایئر کرافٹ کیریئر کو مشرق وسطیٰ میں ری پوزیشن ہونے کا کہہ دیا ہے۔ خطے میں موجود بی 52 بمبار طیاروں کو جدید بی2 بمبار طیاروں سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ یو ایس ملٹری اسرائیل کو پہلے ہی ایرانی میزائل حملوں کو روکنے میں مدد فراہم کررہی ہے۔ اسرائیل کے پاس صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پہاڑوں اور زیر زمین موجود ایرانی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرسکے، اور ایسا کرنے کے لیے امریکی مدد ہی درکار ہے۔

جنگ کی صورتحال کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ روسی انٹیلیجنس کی ایک رپورٹ لیک ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ 2023 یا 2024 میں لکھا ہوا ایک ڈرافٹ ہے۔ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ حاصل کرنے کے بعد اس کو 6 انٹیلیجنس ایجنسیوں سے چیک کروایا اور سب نے تصدیق کی کہ رپورٹ اصلی ہے۔

فروری 2022 میں یوکرین جنگ شروع ہوئی تو روس نے اس جنگ کے لیے اپنے ملٹری اور انٹیلیجنس وسائل یوکرین کی جانب منتقل کردیے۔ ایسا کرتے ہوئے اسے اپنی مشرقی سرحد سے توجہ ہٹانی پڑی۔ چین کے ساتھ روسی سرحد 4 ہزار کلومیٹر طویل ہے جو اب غیر محفوظ ہوگئی ہے۔

صدر ولادیمیر پیوٹن اگرچہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ نو لمٹ پارٹنر شپ کی بات کرتے ہیں تاہم روسی انٹیلیجنس چین کو ایک ’خاموش دشمن‘ تصور کررہی ہے۔ روسی انٹیلیجنس ایف ایس بی کی رپورٹ کے مطابق، 2022 سے چینی انٹیلیجنس سرگرمیوں میں بڑا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ روسی سائنسدانوں، دفاعی ماہرین اور سرکاری اہلکاروں سے چینی انٹیلیجنس نے رابطے بنا لیے ہیں۔

روسی انٹیلی جنس نے چینی سرگرمیوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے اتانتے فور (Entente) نامی آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے۔ روسی انٹیلیجنس کا کہنا ہے کہ چینی یونیورسٹیاں، ریسرچ مشنز اور تجارتی کمپنیاں روسی سرزمین پر آکر دفاعی، سائنسی اور انفرااسٹرکچر اور رنادرن سی روٹ متعلق معلومات حاصل کر رہی ہیں۔

بات صرف اتنی ہے کہ جب کوئی ملک جنگ میں جاتا ہے تو دوستانہ تعلقات بھی پہلے جیسے نہیں رہتے۔ ریاستیں اپنے مفاد میں جو مناسب ہوتا ہے ویسی پیشرفت کرتی ہیں اور مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ پاکستان میں جنگ کو لے کر جذبات کا طوفان اٹھا لیا جاتا ہے۔ پہلے یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا میں فوڈ آئٹم کی سپلائی چین متاثر ہوئی جس کو ہم نے براہ راست بھگتا۔ اب ہمارے ہمسائے میں جنگ لگ گئی ہے تو اس کا اثر ہم پر لازمی آئے گا۔ ہم مہنگے بل اور خریداریاں کریں گے اور اپنی حکومت پر اگ گولہ ہوتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: روسی انٹیلیجنس کے لیے

پڑھیں:

ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، قیمتوں میں اضافہ ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے واضح کیا ہے کہ ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، اور گراؤنڈ پر صورتحال اتنی خراب نہیں جتنی بعض حلقے بیان کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال چینی کی پیداوار 68 لاکھ میٹرک ٹن رہی جبکہ ملکی ضرورت 63 لاکھ ٹن تھی۔ اوپنگ اسٹاک ملا کر مجموعی طور پر 13 لاکھ ٹن اضافی چینی موجود تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر برآمد کی اجازت دی گئی جب بین الاقوامی قیمت 750 ڈالر فی ٹن تھی۔

رانا تنویر نے کہا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وفاقی وزرا کے ساتھ چاروں صوبوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں، اور چینی کی برآمد و درآمد کے فیصلے اسی پلیٹ فارم پر کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کے دوران چینی 130 روپے فی کلو فروخت ہوئی، جبکہ اس سال گنے کی پیداوار زیادہ متوقع تھی، مگر ہیٹ ویو اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث کمی آئی۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس، چینی کی قیمتوں میں خودساختہ اضافے پر سخت کارروائی کا حکم

اس وقت چینی کا اسٹاک 20 لاکھ میٹرک ٹن ہے جو 15 نومبر تک کے لیے کافی ہے۔ وزیر موصوف نے تسلیم کیا کہ ذخیرہ اندوزی کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہوا، جس پر حکومت نے فوری کارروائی کی۔

انہوں نے بتایا کہ فی الوقت ایکس مل قیمت 165 روپے اور ریٹیل قیمت 173 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے۔ کچھ علاقوں میں قیمت کا فرق صرف ٹرانسپورٹ لاگت (کیریج چارجز) کی وجہ سے ہے۔

رانا تنویر نے کہا کہ چینی کی برآمد کے وقت مل مالکان کو صرف 2 روپے مارجن دیا گیا، جب قیمت 136 روپے تھی تو ایکس مل ریٹ 140 اور ریٹیل قیمت 145 مقرر کی گئی۔ اگرچہ مارجن کم تھا، لیکن حکومت نے عوامی مفاد میں محدود اضافے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں چینی کی برآمد کے وقت بھی 5 لاکھ میٹرک ٹن کا اضافی اسٹاک سنبھال کر رکھا گیا تاکہ مقامی منڈی میں قلت نہ ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد چینی رانا تنویر حسین وفاقی وزیر صنعت و پیداوار

متعلقہ مضامین

  • روس یوکرین جنگ: روسی فوجی تیزی سے ایڈز کا شکار ہونے لگے، ہولناک اسباب کا انکشاف
  • بھارت سے اختلاف صرف روسی تیل خریدنے پر نہیں ہے، امریکہ
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • پاک ایران گیس پائپ لائن سے متعلق ابھی بھی بات چیت جاری ہے: سلیم مانڈوی والا
  • ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، قیمتوں میں اضافہ ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار
  • بلوچستان کی تجارتی اور سماجی بہتری کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کا مطالبہ
  • ہم وفاق کے اتحادی ہیں لیکن کراچی والوں پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے، خواجہ اظہار الحسن
  • چینی کی قیمت عام آدمی کی دسترس میں ہے اور اسکے بجٹ پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا، رانا تنویر
  • ملک میں چینی کی قیمتوں میں کمی نا آسکی، ریٹیل قیمت 200 روپے کلو برقرار
  • ہم اب بھی یورینیم افزودہ کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں، سید عباس عراقچی